Tuesday, April 25, 2017

Apr2017: Flaws in KP's primary education policy!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

ذریعہ تعلیم اُور نتائج!


سرکاری تعلیمی اداروں کے ’’500 ملازمین (پرائمری اساتذہ)‘‘ کو بذریعہ برطانوی ادارے ’برٹش کونسل‘ کے ذریعے درس و تدریس کے جدید تصورات سے متعلق تربیت کا اہتمام اپنی جگہ اہم لیکن جس حکمت عملی کے تحت اِن مرد و خواتین ’ماسٹر ٹریننرز‘ نے پچیس اضلاع میں اپنے ہم منصبوں کی تربیت کرنا تھی اور جو علم ’برطانوی‘ ماہرین تعلیم کے ذریعے پانچ سو اساتذہ کرام کو منتقل ہوا‘ اُس کی مزید تقسیم کا عمل رواں ماہ (اپریل دوہزارسترہ) کے آخر تک مکمل ہو جانا چاہئے تھا۔ اِس سلسلے میں گزارشات بعنوان ’اساتذہ: بے تیغ سپاہی‘ سپرد قلم کرنے کا مقصد کسی ایسے ملک کے نظام تعلیم اور درسی و تدریسی تجربات سے مرعوب ہونے کی بجائے اُن ٹھوس زمینی حقائق کا ادراک و اِصلاحاتی عمل مکمل کیا جائے‘ جس کی وجہ سے ’’علم‘ تعلیم اُور معلم‘‘ کا کردار (تصور) واضح اور نکھر جائے۔

خیبرپختونخوا کے 1 لاکھ 24 ہزار اساتذہ کے مسائل غور طلب ہیں‘ جن کے آٹھ مطالبات میں شامل ہے کہ 1: غیرمشروط ٹائم سکیل دیا جائے۔ 2: این ٹی ایس پر بھرتی ہونے والے اساتذہ کو مستقل کیا جائے۔ 3: سکول ہیڈ پالیسی منظور نہیں۔ 4: تمام اساتذہ کو ’ٹیچنگ الاؤنس‘ دیا جائے۔ 5: ’آئی ایم یو‘ کا رویہ نامناسب ہے۔ 6: ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا مکمل آڈٹ کیا جائے۔ 7: ٹیچر سن کوٹہ بحال کیا جائے اور 8: تعطیلات کے دوران ’کنوینس الاؤنس‘ کی کٹوتی نہ کی جائے۔ اِن مطالبات کے حق میں ’’آل ٹیچرز کوآرڈینیشن کونسل ایک عرصے سے سراپا احتجاج ہے اور اگر اُن کے مطالبات جائز ہیں تو حل کیوں نہیں ہو رہے؟ اِس بارے میں ضلع پشاور سے ’پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن‘ (تنظیم) کے صدر عزیز اللہ خان خیبرپختونخوا میں طلوع ہونے والے ’تبدیلی کے سورج‘ کی کرنیں ’’مدھم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ چند روز قبل (بیس اپریل) خیبرپختونخوا کے طول و عرض سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کے نمائندوں نے احتجاجی دھرنا دیا اور اس موقع پر اسپیکر اسمبلی سے ملاقات میں اُن کے جملہ مطالبات حل کرنے کے لئے حکومت نے (دفاعی پوزیشن پر جاتے ہوئے) ’تیس اپریل‘کا اگرچہ وقت مانگا ہے لیکن اساتذہ زیادہ پراُمید نہیں! کیونکہ جب تک عملی طور پر اصلاحات نافذ نہیں ہوتیں اُس وقت تک زبانی کلامی باتوں اساتذہ کو اطمینان نہیں ہوگا۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ جب تک پرائمری سطح پر نظام تعلیم ٹھیک نہیں ہوتا اُس وقت تک سرکاری سطح پر اعلیٰ درجات میں تعلیم کا معیار محتاج توجہ ہی رہے گا۔ 

ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ پرائمری اساتذہ بھرتی کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں پرائمری سطح کی تعلیم مکمل کرنے والے جب ’چھٹی (ششم) کلاس‘ میں جاتے ہیں تو وہ اُردو زبان تک روانی سے نہیں بول سکتے۔ حال ہی میں حکومت نے پرائمری سطح کے بچوں کا امتحان لیا جو سرکاری سکول میں زیرتعلیم طلبہ تو کیا خود اساتذہ کی سمجھ سے بالاتر تھا اور اِس امتحان کا رزلٹ آنے بعد ہی بہتر تبصرہ کیا جا سکے گا۔

پرائمری سطح پر تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لئے انگریزی نہیں بلکہ ’مادری زبان‘ کو ذریعہ (میڈیم) بنانا ہوگا۔ برطانیہ سے انگریزی سیکھنے والوں کے لئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا ’مفت مشورہ‘ موجود ہے کہ ’اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر۔‘ کیا بناء انگریزی زبان تعلیمی ترقی ممکن نہیں؟ یہ سوال فیصلہ سازوں کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے! دوسری اَہم بات ’’تغیرپذیر نصاب‘‘ ہے‘ جس میں آئے روز تبدیلیاں کی جاتی ہیں اُور موجودہ حکومت نے تو نصاب تبدیل کرنے کا ریکارڈ ہی قائم کر دیا ہے۔ جو نصاب اساتذہ کو سمجھنے کے لئے تربیت اور وہ بھی جاری تعلیمی سال کے دوران تربیت درکار ہے تو پھر بچوں کو علم کیسے اور کیونکر ممکن ہو سکے گا!پچیس سال سے ضلع پشاور کی مختلف سکولوں میں تدریسی ذمہ داریاں اَدا کرتے ہوئے 44سالہ عزیزاللہ خان کا کہنا ہے کہ ’’پرائمری سکولوں کے جملہ اساتذہ کو دیگر ہر قسم کی ڈیوٹیز سے الگ کیا جائے۔ 

تصور کیجئے کہ ’ماہ اپریل‘ میں ’نیا تعلیمی سال‘ شروع ہوتا ہے لیکن اپریل کے آخر تک مردم و خانہ شماری کا پہلا اور پچیس مئی تک دوسرا مرحلہ اختتام پذیر ہوگا جس کے لئے پرائمری اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں۔ سرکاری پرائمری سکولوں سے اچھے نتائج نتیجہ کیسے آئیں گے‘ جب اساتذہ کرام ’’دو ماہ مردم شماری‘ تین ماہ انسداد پولیو‘ مزید دو ماہ ’’ہاؤس ہولڈ سروے‘‘ اُور تین ماہ گرمی کی تعطیلات کریں گے تو صرف دو ماہ کے تدریسی عمل میں نتیجہ کیسے آ سکتا ہے؟ 

درحقیقت تعلیم کے فیصلہ ساز ’تعلیمی ترقی‘ نہیں چاہتے اُور اگر چاہتے تو اَساتذہ کی خدمات صرف اور صرف تدریس کی حد تک تک ہی محدود دکھائی دیتیں

No comments:

Post a Comment