Monday, April 24, 2017

Apr2017: Primary Teachers Training in KP fail to deliverer!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اساتذہ: بے تیغ سپاہی!
خواندگی کی اہمیت سے بخوبی آگاہ‘ تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت ایسے ’’تعلیمی انقلاب‘‘ کے لئے کوشاں ہے جس میں سرکاری تعلیمی اِداروں کا معیار بلند ہو جبکہ ’تعلیم کے معیار‘ کا تعلق ’درس و تدریس‘ سے ہے‘ جسے عصری تقاضوں اُور جدید تحقیق سے ہم آہنگ کرنے کے لئے نہ صرف خطیر مالی وسائل مختص کئے گئے بلکہ ’برطانیہ‘ کے تعاون سے پرائمری سطح کے ’اساتذہ‘ کی تربیت پر مبنی ایک ایسی مرحلہ وار حکمت عملی تیار کی گئی جس سے خیبرپختونخوا کے 25 اضلاع میں سرکاری پرائمری سکول کے اساتذہ بشمول خواتین کی تربیت شامل تھی۔ ناممکن تھا کہ 83ہزار پرائمری سطح کے اساتذہ کو بیک وقت تربیت دی جاسکتی‘ اِس لئے صوبائی حکومت نے ’برٹش کونسل (British Council)‘ کو 1500 اساتذہ (مردوخواتین) کی فہرست فراہم کی‘ جس میں سے ’500 اساتذہ‘ کے انتخاب کا اختیار ’برٹش کونسل‘ کو دیا گیا۔ اہل اساتذہ کے انتخاب کا یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے پایا اُور ’پچیس اضلاع‘ سے تعلق رکھنے والے ایسے پانچ سو اساتذہ کو چن لیا گیا‘ جنہیں بطور ’بنیادی تربیت کار (ماسٹر ٹرینر)‘ درس و تدریس کے جدید تصورات (جن میں بچوں کے نفسیاتی و اخلاقی اور تعلیم کے ساتھ تربیت کے پہلو بھی شامل تھے)‘ سے متعلق ٹیکنالوجی کی مدد سے تدریس میں ’ہائی ٹیک‘کا استعمال بھی سکھایا گیا اور یہ تربیتی عمل نہایت ہی خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہونے پر شرکاء میں اسناد و انعامات تقسیم ہوئے۔ اگلے مرحلے میں ’برٹش کونسل‘ سے تربیت یافتہ اساتذہ نے اپنے اپنے متعلقہ ضلع میں جا کر باقی ماندہ پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی تربیت کرنا تھی لیکن جس خوش اسلوبی سے ’پرائمری اساتذہ‘ کی تربیت کا یہ ’پہلا مرحلہ‘ مکمل ہوا‘ حسب توقع دوسرا مرحلہ خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں شروع نہ ہو سکا اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ’ماسٹر ٹرینرز‘ کو تربیت دینے کے لئے مطلوبہ ’ہائی ٹیک‘ اشیاء‘ درکار مالی اور آمدورفت کے وسائل فراہم نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے وہ ہدف جو رواں ماہ (اپریل دوہزارسترہ) کے اختتام تک مکمل ہونے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی‘ وہ حاصل نہ ہو سکا۔ بھلا کس طرح ممکن تھا کہ ’برٹش کونسل‘ سے بذریعہ ٹیکنالوجی (موبائل فون‘ ٹیبلٹس اُور ملٹی میڈیا سے جڑے کمپیوٹرز‘ سمارٹ بورڈز جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) و انٹرنیٹ پر منحصر آلات کے ذریعے) تربیت یافتہ اساتذہ (سپاہی) اپنے ذاتی وسائل سے ’’(بے تیغ) جہالت کے خلاف جہاد‘‘ کا حصہ بن جاتے؟

’برٹش کونسل‘ کی مہارت پر بھروسہ کرنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ برطانیہ حکومت کا یہ ’84 سالہ‘ (بزرگ) ادارہ عالمی سطح پر ’تعلیم وثقافت‘ کے صرف اُنہی پہلوؤں کو اُجاگر کرتا ہے جن کا تعلق ’’انگریزی بول چال اور ڈھال‘‘ سے ہے۔ برطانیہ کی نظر میں جمہوریت‘ سیاست‘ انسانی حقوق‘ تعلیم‘ نظام تعلیم‘ تدریسی اخلاقیات‘ امتحانات کا مقصد‘ ذہانت اُور طلبہ کی درجہ بندی کا معیار کسی ’اسلامی جمہوریہ‘ سے کئی لحاظ سے مختلف ہے۔ کہیں ہمارے فیصلہ ساز یہ تو ثابت نہیں کرنا چاہتے کہ ہم ’نام کے مسلمان ہیں‘ اور پاکستان ایک برائے نام ’اسلامی جمہوریہ‘ ہے جہاں نہ تو ’ماہرین تعلیم‘ کا وجود ہے اور نہ ہی خالص نصابی تعلیم پر بھروسہ اور اِس طریق کو ’جدید‘ قرار دینے والے مغربی معاشروں کو حاصل ہونے والی پیداوار (ثمرات) ہمارے لئے کارآمد (قابل قبول) ہو سکتے ہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت کے لئے فیصلہ سازی کرنے والوں کو سوچنا‘ سمجھنا اُور دردمندی (حب الوطنی) کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ شعبۂ تعلیم کی بہتری کے لئے دستیاب مالی وسائل اور توجہات مرکوز کرتے ہوئے ’’مقامی مسائل‘‘ کا ’’مقامی حل‘‘ تلاش کیا جائے۔ عین ممکن ہے کہ غوروخوض (مشاورت) کرنے پر معلوم ہو کہ خیبرپختونخوا کے 25 اضلاع کے لئے ایک جیسی ’تعلیمی پالیسی‘ اُور ایک جیسے الفاظ پر مشتمل نصاب‘ درس و تدریس کا طریق‘ سرکاری سکولوں کے اُوقات‘ اساتذہ کی تربیت کا معیار و تعلیمی قابلیت و اہلیت الگ الگ (مختلف) ہونی چاہئے! 

’برٹش کونسل‘ کی تعلیمی‘ ثقافتی شعبوں اُور انگریزی زبان کے فروغ کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اِس ادارے نے صرف سال 2014-15ء کے دوران 10 کھرب‘ 93ارب‘ 78کروڑ‘ 54 لاکھ‘ 9 ہزار 560 پاکستانی روپے یعنی 97 کروڑ 73 لاکھ یوروز سے زیادہ منافع کمایا جس کی تفصیلات کا اندازہ رپورٹس کی صورت britishcouncil.org (ویب سائٹ) پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں کہ کس طرح پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک (کے فیصلہ سازوں کی مدد سے) ’برٹش کونسل‘ سمیت برطانوی و دیگر مغربی ادارے اپنی اپنی زبان و ثقافت کا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے فیصلہ سازی کے عمل پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 500 پرائمری سطح کے اساتذہ کی تربیت کے لئے 56 کروڑ 80 لاکھ روپے کی حکمت عملی وضع کی گئی جس کا 70فیصد (41کروڑ روپے سے زیادہ) خیبرپختونخوا حکومت ’برٹش کونسل‘ کو اَدا کئے اور باقی ماندہ تیس فیصد ’برٹش کونسل‘ نے اپنے ذمے لیا۔ 

واضح رہے کہ ’برٹش کونسل‘ نہ تو خیراتی اِدارہ ہے اور نہ ہی وہ اِس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنے حسابات و اخراجات کی منظوری خیبرپختونخوا حکومت سے لے۔ چالیس کروڑ روپے سے زائد کی رقم صرف اور صرف 500 پرائمری اساتذہ کی تربیت پر خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا 8 لاکھ روپے فی معلم تربیت زیادہ نہیں؟ کیا صوبائی احتساب کمیشن پرائمری اساتذہ کی تربیت کی آڑ ہونے والی ممکنہ بے ضابطگیوں کا نوٹس لے گا؟ کون نہیں جانتا کہ ’برٹش کونسل‘ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ماہرین کی تعداد برطانوی باشندے یا چبا چبا کر انگریزی بولنے والے برطانوی حکومت کے مفادات کا تحفظ کرنے والے ’وفادار‘ ہوتے ہیں جن کی بھاری تنخواہیں‘ پرکشش مراعات برطانیہ کے خزانے سے نہیں بلکہ جس ملک میں برٹش کونسل کی شاخیں ہوتی ہیں اُسی سے اَدا کی جاتی ہیں۔ تعجب خیز اَمر کیا ہے اگر ’برٹش کونسل‘ سے حاصل ہونے والی آمدنی گرجا گھروں‘ عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت اور اُن خارجہ پالیسیوں کے سیاسی و فوجی اہداف پر بھی خرچ کی جاتی ہو‘ جو برطانیہ حکومت کے وہ توسیع پسندانہ عزائم سے تعلق رکھتے ہیں کہ ’’برطانوی راج میں سورج غروب نہ ہو!‘‘

سرکاری سرپرستی میں شعبۂ تعلیم کی بہتری بالخصوص خیبرپختونخوا میں ’پرائمری تعلیم‘ سے متعلق اگر اَب تک کی وضع کردہ جملہ (جامع قرار دی جانے والی) حکمت عملیوں کے خاطرخواہ (مطلوبہ) نتائج حاصل نہیں ہوئے تو اِس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ ’خیبرپختونخوا کے زمینی حقائق کا اِدراک اُور سوچ بچار‘ کرتے ہوئے مقامی مسائل اور اُن کے مقامی حل پر توجہ نہیں دی گئی۔ جن معاشروں نے علم کی اہمیت کو تسلیم‘ اپنے آپ کو علم کے آگے تسلیم اور پھر اِس کے ثمرات حاصل کئے‘ کیا وہاں معلم یا تعلیم سے متعلق فیصلہ سازی جیسے عہدوں پر فائز ہونا‘ ہمارے ہاں کی طرح (اتنا ہی) آسان ہوتاہے؟ 

تعلیم کے معیار بلند کرنے کے لئے کوئی بھی ’بیرونی حل‘ اُس وقت تک کارگر (نتیجہ خیز و کارآمد) ثابت نہیں ہو گا‘ جب تک بحیثیت مجموعی ’محکمۂ تعلیم‘ میں ’داخلی سطح‘ پر اصلاحات متعارف نہیں کی جاتیں۔ جب تک سرکاری تعلیمی اداروں سے وابستہ (مردوخواتین) اساتذہ اور اُن کے حاکم (انتظامی نگرانوں) کی کارکردگی کا احتساب عام نہیں ہوتا اُور جب تک ’سزا و جزأ‘ کے تصورات عملاً رائج نہیں ہوتے‘ اُس وقت تک سرکاری تعلیمی اِداروں کا تدریسی ماحول‘ نظم و ضبط اُور کارکردگی بصورت اِمتحانی نتائج بہتر ہونے کے بلند و بانگ اَعلانات (توقعات) ناکافی ہی رہیں گے۔

No comments:

Post a Comment