Sunday, April 23, 2017

Apr2017: Panama Case Verdict - The Fact sheet!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تاریخی فیصلہ: حقائق نامہ!
اَلفاظ کے ’ہیرپھیر‘ سے معنی و مفہوم بدل جاتے ہیں۔ ’سپرئم کورٹ آف پاکستان‘ کی جانب سے ’تاریخی فیصلہ‘ صادر کرنے کی بجائے یہی ’بہتر‘ سمجھا گیا کہ وہ جو تاریخی ہو‘ وہی فیصلہ ہو! کیا پانچ ’اَذہان عالیہ‘ بشمول ’چیف جسٹس‘ کی فہم و بصیرت‘ یعنی ’پوسٹ پانامہ کیس ورڈکٹ‘ پاکستان مالی و اِنتظامی بدعنوانی سے زیادہ محفوظ و مامون ہو گیا ہے؟ اِس سوال سے جنم لینے والے ضمنی سوالات ایک ’حقائق نامے‘ کی صورت غوروخوض کے متاضی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت کے موقع پر کفار سے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اِس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے تو سب نے کہا کہ ہم یقین کریں گے کیونکہ آپ ’صادق و امین‘ ہیں تو معلوم ہوا کہ قیادت کی پہلی شرط ’صداقت و امانت‘ ہے جس کے بغیر ’صداقت و امانت‘ قیادت (رہبری) ایک لفظ تو ہو سکتا ہے لیکن ہرگز ہرگز ’انقلابی تصور‘ نہیں۔

پہلی حقیقت: ’پانامہ پیپرز‘ کی صورت بیرون ملک خفیہ طریقوں سے سرمایہ کاری کرنے والے کسی نہ کسی صورت حکمرانی یا فیصلہ سازی کے منصب پر فائز یا فائز رہے ہیں اور کوئی بھی عام آدمی (ہم عوام) نہیں بلکہ مراعات یافتہ خواص طبقے سے تعلق رکھنے والے اُن افراد کے مالی معاملات مشکوک ہیں‘ جنہوں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف لیا۔ جنہیں پاکستان نے قیادت‘ عزت‘ تکریم اور رہنمائی جیسے منصب دیئے۔ اَنگریزی زبان کا لفظ ’ٹریژن treason‘ (غداری) کا ماخذ ’ٹریژ‘ (خزانہ) ہے یعنی کسی ملک سے غداری ’ٹریژن‘ کا مرتکب وہ ہوتا ہے جو اُس کے مالی اَمور کو بطور ’صادق و امین‘ سرانجام نہیں دیتا۔ عام آدمی (ہم عوام) کی نظر میں ’اختلافی نوٹ‘ یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر ثابت ہو چکا ہے کہ ’’ہر ’اختلافی نوٹ‘ کے پیچھے ’قانون کے علم‘ سے زیادہ فلموں‘ ڈراموں‘ شاعری اُور دیگر ادبی تخلیقات کے مطالعے کا عمل دخل ہوتا ہے۔‘ پہلے کہا جاتا تھا کہ جج نہیں فیصلے بولتے ہیں‘ پھر کہا گیا کہ ججوں کو نہیں اُن کے فیصلوں کو بولنا چاہئے اور اب عام آدمی (ہم عوام) چاہتے ہیں کہ ’ججوں کے فیصلوں میں قانون بھی نظر آنا چاہئے۔‘ 

دوسری حقیقت: ’پانامہ پیپرز‘ کے ذریعے بیرون ملک اُور خفیہ ناموں سے سرمایہ کاری کے اِنکشافات کو پاکستان کے علاؤہ کسی دوسرے ملک کے سیاسی حکمرانوں اُور فیصلہ سازوں نے ’جھوٹ کا پلندہ‘ اُور ’مفروضہ‘ قرار نہیں دیا۔ 

تیسری حقیقت: ’پانامہ پیپرز‘ کی صورت ’حقائق‘ منظرعام پر لانے والے صحافیوں کو ’اعزازات‘ سے نوازہ گیا لیکن پاکستان میں اُن کے ماضی و ادارہ جاتی وابستگیوں کے بارے سوالات اُٹھائے گئے۔ 

چوتھی حقیقت: پانامہ پیپرز نے ’ترقی یافتہ‘ اُور ’ترقی پذیر‘ ممالک کے فیصلہ سازوں کو ہلا کر رکھ دیا لیکن جب اِن حقائق کے بارے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں تحقیقات کی گئیں تو دستاویزی ثبوت ’’ناکافی‘‘ قرار پائے گئے۔ 

پانچویں حقیقت: پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ’پانامہ پیپرز‘ کے منظرعام پر آنے کے بعد ملوث کرداروں نے ’اخلاقی اقدار‘ کا ثبوت دیتے ہوئے ’قوم سے معافی‘ نہیں مانگی۔ 

چھٹی حقیقت: پاکستان ایسی اکلوتی مثال ہے جہاں ’پانامہ پیپرز‘ کے حوالے سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے برسرزمین حقائق اُور ناقابل تردید شواہد کی موجودگی کے علاؤہ قانون ساز قومی اسمبلی میں دیئے گئے وزیراعظم کے ’آن دی ریکارڈ‘ بیانات‘ اُن کے اہل خانہ کے ملکی و غیرملکی مختلف ٹیلی ویژن چینلز کو دیئے گئے انٹرویوز کو ’ناقابل بھروسہ‘ سمجھا۔ 

ساتویں حقیقت: دنیا کے کسی دوسرے ملک کو یہ اعزاز حاصل نہیں کہ جہاں مشکوک ذرائع آمدنی کے بارے سوال کرنے کو ’’صرف ایک‘‘ سیاسی خاندان کے احتساب کی کوشش اور اِسے ’جمہوریت و پاکستان کی ترقی کے خلاف‘ سازش قرار دیا جاتا ہے۔ 

آٹھویں حقیقت: پانامہ مقدمے میں بیس اپریل کے روز ’سپرئم کورٹ آف پاکستان‘ نے جو ’فیصلہ‘ دیا اُس سے صرف پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادت ہی نہیں بلکہ اُن سبھی کرداروں نے سکھ کا سانس لیا ہے جن کے سروں پر ’نااہلی کی تلوار‘ لٹک رہی تھی! 

نویں حقیقت: ’پانامہ پیپرز‘ کی صورت انکشافات اُس پاکستان سے باہر (بیرون ملک) دولت (اثاثوں) کا عشرعشیر بھی نہیں جو ’پانامہ‘ کے علاؤہ کئی دیگر ممالک میں پاکستانی حکمرانوں نے ’’خفیہ ذرائع‘‘ سے بنا رکھی ہیں۔ 

دسویں حقیقت: بیرون ملک خفیہ بینک اکاونٹس اور جائیدادیں رکھنے والوں کا تعلق صرف ’پاکستان مسلم لیگ نواز‘ ہی سے نہیں بلکہ پیپلزپارٹی اور جماعتی وابستگیاں بدل بدل کر حکمرانی کرنے والے سینکڑوں ایسے پاکستانیوں کے ناموں پر مشتمل فہرست (پلندے) ذرائع ابلاغ میں شائع یا زیربحث آ چکے ہیں‘ جن کی وضاحت اُور حقیقت کے بارے کیا الگ الگ آئینی سماعتوں کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا؟ 

گیارہویں حقیقت: خفیہ ذرائع سے بیرون ملک مالی و کاروباری مفادات رکھنے والوں کی ’’معلوم و نامعلوم تعداد‘‘ میں قطر‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ برطانیہ‘ فرانس‘ اَمریکہ اُور جن یورپی (دوست) ممالک کے نام آتے ہیں‘ اُنہیں اجتماعی طور پر ناجائز قرار دیئے بناء (آئندہ) ایسی مالی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کے امکانات کم نہیں کئے جا سکیں گے۔ 

بارہویں حقیقت: ریاست کے چاروں ستونوں کو اپنی ذات میں ’قول و فعل کے تضادات‘ ختم کرنا ہوں اُور ایثار و قربانی کی عملی مثالیں بننا ہوگا کیونکہ اگر پاکستان کی ساکھ ایک ایسے ملک کی ہوتی ہے جہاں کھربوں روپے کی بدعنوانی کرنے والوں کی پکڑ نہیں ہوتی‘ جہاں قانون نافذ کرنے والے ریاستی ادارے اداروں سمیت احتساب کا عمل اِس حد تک مفلوج (ناکارہ) ہو چکا ہے کہ ’صاحبان اختیار‘ کا احتساب نہیں کیا جاتا‘ جہاں ’سوچ اور فکروعمل کی(ترجیح) پاکستان‘ نہیں تو وہاں صنعتی و معاشی ترقی‘ بے روزگار اَفرادی قوت جیسی نعمت سے اِستفادہ‘ قدرتی وسائل‘ ترقی کے امکانات اور برآمدات میں اِضافے سمیت توانائی جیسے بحرانی مسئلے کا حل کیونکر ممکن ہو سکے گا؟ 

No comments:

Post a Comment