ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جیل اصلاحات: گھر کا بھیدی!
خیبرپختونخوا کے جیل خانہ جات میں سہولیات کا معیار اور اِن کے حالات کا موازنہ ملک کے دیگر صوبوں سے نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ایک تو جیل خانہ جات پر قیدیوں کا بوجھ موجود سہولیات کے مقابلے زیادہ ہے اور دوسرا انتہائی مطلوب قیدیوں کی ایک ایسی بڑی تعداد بھی قید ہے جو دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں اور جرائم کے تفتیشی طریقۂ کار یا پھر عدالتی نظام میں پائی جانے والی تاخیری خامیوں یا خرابیوں کے باعث ایسے خطرناک مجرموں کو یا تو بہت کم عرصے کی سزائیں مل رہی ہیں یا پھر اُن کے مقدمات کی لمبے عرصے تک سماعتیں ہی ختم نہیں ہو پا رہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ جیل خانہ جات میں عمومی جرائم کے قیدیوں سے گھلنے ملنے کے مواقع میسر آ رہے ہیں۔
حکومت کو سوچنا چاہئے کہ انسداد دہشت گردی کے لئے کوئی بھی بڑی کاروائی (آپریشن) شروع کرنے سے قبل مشتبہ اور جرائم پیشہ افراد کو دیگر قیدیوں سے الگ رکھنے اُور جیل خانہ جات کے حفاظتی انتظامات (سیکورٹی) کے لئے جدید الیکٹرانک آلات نصب کرنے کے ساتھ ریٹائرڈ فوجی کمانڈوز پر مشتمل خصوصی فورس بھی تیار کرے‘ جو جیل خانہ جات و صوبائی حکومت کی دیگر حساس تنصیبات کی حفاظت کے مخصوص ہوں۔ ’’جیل خانہ جات: اصلاحات‘‘ کے عنوان سے (چھ اپریل دوہزار سترہ) شائع ہونے والے نکتۂ نظر کے بارے ’گھر کے کسی بھیدی‘ نے بذریعہ ’ٹوئیٹر اکاونٹ @prisonerkpk‘ چند ایسے امور کی نشاندہی کی ہے جن کے بارے میں جیل کے اعلیٰ انتظامی اہلکاروں سے وضاحت باوجود کوشش بھی حاصل نہیں ہوسکی تاہم ’واٹس ایپ تبادلۂ خیال‘ میں اُنہوں نے اِن تمام اِلزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا‘ لیکن چونکہ معاملہ ایسے اَفراد کا ہے جو قید ہیں یا قیدیوں کی خدمت کے لئے ملازم رکھے گئے ہیں تو اِن سبھی نکات کو من و عن پیش کرنے کا مقصد یہ اُمید ہے کہ بلاشک و شبہ خیبرپختونخوا کے مختلف جیل خانہ جات میں اصلاحات کی گئیں ہیں لیکن وہ سبھی شعبہ جات جہاں ابھی ’’مزید‘‘ بہتری کی گنجائش موجود ہے اُن کی جانب بھی فیصلہ ساز (صوبائی حکومت) متوجہ ہو۔
گھر کے بھیدی کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کے جیل خانہ جات میں اِصلاحات کے حوالے سے صوبائی حکومت کا دعویٰ حقائق پر مبنی نہیں۔ جو اصلاحات نافذ ہوئی بھی ہیں تو وہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت کے دور میں تجویز و نافذ کی گئیں تھیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ موجودہ حکومت جیل اصلاحات کے بارے میں سنجیدہ نہیں اور صوبہ پنجاب اور سندھ کے جیل خانہ جات خیبرپختونخوا سے زیادہ بہتر ہیں‘ جہاں قیدیوں کے لئے فراہم کی جانے والی رہائشی سہولیات کا معیار بہتر ہے۔
جیل خانہ جات کے عملے کی تنخواہیں اور اوقات کار ناقابل یقین حد تک خراب ہیں! عملے کی تربیت کا اہتمام نہیں۔ محکمانہ ترقیاں ایک عرصے سے نہیں ہو رہیں اور ’سات سو پچاس‘ ملازمین کا بطور وارڈنز اِضافہ کرتے ہوئے اہلیت و قابلیت (میرٹ) کا خیال نہیں رکھا گیا۔ میرٹ نہ ہونے کی وجہ سے فرائض کی ادائیگی کرنے والے اِہلکاروں کی دل شکنی اُور حوصلہ شکنی ہوئی ہے جو مالی مشکلات کا بھی شکار ہیں۔ دہشت گردی جیسے جرائم کا اِرتکاب کرنے والے قیدیوں کے ساتھ عام قیدیوں کو اَکٹھا قید رکھا جاتا ہے جس سے اِنتہاء پسندی بڑھ رہی ہے اور یہ عام قیدی دہشت گردوں کے لئے پیغام رسانی کا کام بھی کر رہے ہیں۔ ہری پور جیل میں تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ دہشت گرد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِس جیل کا بیرونی حفاظتی حصار پاک فوج کے پاس ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جیل انتظامیہ نہ تو اندرونی طور پر حسب ’جیل مینول‘ سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے بلکہ جیل کے حفاظتی اَمور بھی زیادہ مثالی اَنداز میں نہیں چلائے جا رہے اور سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں۔ کیا ہم اِس بات کو اِصلاح کہہ سکتے ہیں کہ ایک اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ کو ’پی سی ایس (مقابلے کے)‘ امتحان کے ذریعے بھرتی کیا گیا لیکن اُنہیں محکمانہ ترقی حاصل کرنے میں 23 برس جیسا طویل عرصہ لگا اُور اِن تیئس برس وہ ایک ہی عہدے پر کام کرتے رہے!
یہ تاثر بھی غورطلب اور گمراہ کن ہے کہ خیبرپختونخوا کے جیل خانہ جات میں صرف قیدیوں ہی کے لئے قیام و طعام کی سہولیات کا معیار کم سے کم اِنسانی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ اگر ہم جیل خانہ جات کے ملازمین اور بالخصوص ادنیٰ ملازمین کے اُوقات کار اُور حالات کار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ کس طرح غربت زدہ افراد کو کس قدر بڑی اور اہم ذمہ داری سونپ کر حکومت اطمینان سے بیٹھی ہے۔ اعلیٰ و ادنیٰ عملے کے لئے جو رہائش گاہیں (بیرکس) موجود ہیں اُن کی عمارتیں بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ سہولیات ناپید ہیں اُور یہ عمارتیں کسی حادثے کی صورت جانی نقصانات کا سبب بن سکتی ہیں! جیل عملے میں وارڈر جیسے اہم عہدے پر تعینات اِہلکاروں کو آمدورفت کے لئے (کنوینس) الاؤنس نہیں دیا جاتا اور ایسے وارڈر کی مثال بھی موجود ہے جسے محکمانہ ترقی ملنے اور ہیڈ بننے میں 20 برس کا عرصہ لگا! انتظامی طور پر جیل خانہ جات کے عملے کی مشکلات کے لئے ذمہ دار خیبرپختونخوا کا محکمہ داخلہ ہے جن کے بابوؤں (افسرشاہی) کو دیئے گئے اختیارات اُور کارکردگی کا جب تک احتساب نہیں ہوتا اُس وقت تک اِصلاح کا کوئی بھی عمل مکمل نہیں ہو سکے گا۔
اَلمیہ ہے کہ جیل خانہ جات کے ادنیٰ ملازمین سب سے زیادہ متاثر ہیں‘ جن کی حالت زار کے بارے صوبائی حکومت کو خصوصی توجہ دینا چاہئے۔ جیل خانہ جات ایسی چاردیواریاں (قیدوبند کے مراکز) نہیں ہوتے‘ جہاں اِنسانوں کو ایک خاص عرصے کے لئے قید رکھا جائے بلکہ اِن مراکز میں ایسی سرگرمیاں اور تربیت کے مواقع فراہم کرنا حکومت ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ جرائم سے بیزاری پیدا ہو۔
مثبت سوچ پروان چڑھے اُور قید مکمل کرنے کے بعد معاشرے کو ایسے افراد دیئے جائیں جن کی پیشہ وارانہ تربیت کا بندوبست کیا گیا ہو تاکہ وہ معاشرے کا ایک فعال رکن بننے کے ساتھ اپنی ذمہ داری زیادہ مثبت انداز میں ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اِس ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہری پور جیل میں فنی و تکنیکی امور کے حوالے سے ایک تربیت گاہ ’ٹویٹا (TEVTA)‘ کے تعاون سے بنائی گئی‘ جسے پانچ سال گزرنے کے باوجود بھی محض اِس وجہ سے مکمل طور پر فعال نہیں کیا جاسکا کیونکہ مذکورہ تربیتی مرکز کے لئے ایک عدد بجلی کے ٹرانسفارمر کی ضرورت تھی جو نصب نہیں ہوسکا ہے! اگر ایک ایسی حکومت جو اپنے ہی دور میں‘ اپنی ہی اصلاحی تربیتی منصوبے کے لئے بجلی کا ایک عدد ٹرانسفارمر نصب کرنے میں دلچسپی نہ لے رہی ہو‘ اُس سے بھلا یہ توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ ’جیل خانہ جات‘ میں معیار زندگی کو بذریعہ اصلاحات کسی مثالی و بلند سطح تک لے جائے گی!‘‘
No comments:
Post a Comment