ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیدھی سادی اُلٹی باتیں!
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے جڑی توقعات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اِس کثیر الجہتی منصوبے سے ’گیٹ وے‘ خیبرپختونخوا میں ترقی کے ایسے نئے اُور پائیدار دُور کا آغاز ہوگا‘ جس سے ’پسماندہ علاقوں کی قسمت بدل جائے گی۔‘ سمندر سے دُوری اُور دیگر غیرموافق حالات کا شکار صنعتیں بھی اپنی جگہ اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں جن کے بارے غور کے لئے گیارہ اپریل کے روز ’ایبٹ آباد‘ میں ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد بھی متوقع ہے‘ جس میں سرکاری و غیرسرکاری اِداروں اُور منتخب نمائندوں کی نپی تلی (سوچی سمجھے) حاضری کے دوران اُن تمام اِمکانات (امور) بارے بات چیت ہوگی‘ جو خیبرپختونخوا کی ’سی پیک‘ سے جڑی ترقی سے متعلق ہیں۔
اجتماعی دانشمندی پر اِس قسم کا بھروسہ خوش آئند ہے۔ داخلی محاذ کی طرح بیرونی سطح پر بھی ’سی پیک‘ کے فوائد کا زیادہ سے زیادہ حصہ (شراکت) خیبرپختونخوا کے نام کرنے کے لئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی قیادت میں بھی کوششیں جاری ہیں اور ایک وفد آئندہ ہفتے چین جا رہا ہے‘ جہاں سے مزید سرمایہ کاری اُور چین کی منڈیوں تک رسائی‘ کے ساتھ مصنوعات برآمد کرنے کے بارے متعدد اقتصادی تعاون کے معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے چین کے ساتھ اقتصادی تعاون اور چین سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لئے کوششوں کے بارے وفاق کو بھی اعتماد میں لیا ہے‘ جو ایک آئینی ضرورت تھی۔ وزیراعلیٰ کے دورے میں مفاہمت کی جن یاداشتوں پر دستخط متوقع ہیں اُن میں ایک گدھوں کی چین برآمد بھی ہے اور اس سلسلے میں خیبرپختونخوا اپنے ہاں ’ڈنکی فارمنگ (گدھوں کی افزائشگاہوں)‘ کا فروغ چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ چین میں محنت کش‘ سخت جان گدھوں کی مانگ ہے جن کی کھال‘ گوشت اُور خون سے اَدویات (خاص قسم کی جیلی) بنائی جاتی ہے۔
خیبرپختونخوا کی موافق آب و ہوا میں گدھوں (جانور) کی آبادی بڑھانے کے لئے حکومتی سطح پر پہلے ہی کئی ایک اقدامات پر عمل درآمد جاری ہے اور اِس شعبے میں چینی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی سامنے آئی ہے‘ جو چین میں رہتے ہوئے نہ صرف ’ڈنکی فارمنگ‘ کے شعبے کی مالی سرپرستی کریں گے بلکہ وہ اِن کے خریدار بھی ہوں گے۔
’خیبرپختونخوا چائنا سسٹین ایبل ڈنکی ڈویلپمنٹ پروگرام‘ کے بارے میں تفصیلات جب ایک ٹوئٹر پیغام کے ذریعے جاری کیں تو اِس کا عجیب و غریب اُور بڑی حد تک حیران کن ردعمل دیکھنے میں آیا اُور ایک نہایت ہی سنجیدہ موضوع مذاق کی رو میں بہہ گیا۔ کسی نے لکھا چین کو درآمد کئے جانے والے گدھوں میں قوت کلام رکھنے والے گدھے بھی شامل ہوں گے؟
ذومعنی دیگر سوالات بھی بہت تھے جیسا کہ ’دو یا چار ٹانگوں والے گدھے برآمد کئے جائیں گے؟‘ کہیں خیبرپختونخوا میں گدھوں کی آبادی کم تو نہیں ہو جائے گی؟ وغیرہ وغیرہ!
ایسی کئی دیگر ’سیدھی سادی اُلٹی باتیں‘ اپنی جگہ لیکن ہمارے ہاں گدھے سے جڑے عمومی تاثرات نہایت ہی منفی اور حقائق کے منافی ہیں جن میں گدھے کو ایسا جانور سمجھا جاتا ہے جو ’’بیوقوفی‘‘ کی علامت ہے! حالانکہ گھوڑے کی نسل سے تعلق رکھنے والا یہ جانور پانچ ہزار سال سے انسانوں کی خدمت میں مصروف ہے لیکن انسان اِس کا احساس نہیں کر رہے! بھارت میں گدھوں سے حاصل ہونے والا دودھ اُور گدھوں کی برآمد ایک منافع بخش صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ گدھوں کی فارمنگ اِس لئے آسان ہے کہ یہ سخت جان ہوتے ہیں انہیں زیادہ حفاظت یا بہتر خوراک کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اس کی کئی ایسی جنگلی نسلیں بھی ہیں جن کی فارمنگ ممکن نہیں ہوتی اور اگر انہیں دیگر جانوروں کی طرح ایک ہی ماحول (فارم) میں رکھا جائے تو وہ دوسرے جانوروں کو جسمانی طور پر نقصان پہنچاتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ آسٹریلیا جیسا ترقی یافتہ ملک بھی گدھوں کی فارمنگ پر خاص توجہ دیتا ہے اور اس کے برآمد سے قیمتی زرمبادلہ کما رہا ہے تو پاکستان جو کہ چین کا ہمسایہ بھی ہے اور ’سی پیک‘ کے ذریعے زمینی راستوں سے مسافت زیادہ محفوظ‘ تیزرفتار اُور کم قیمت بھی ہو جائے گی تو سب سے زیادہ حق تو پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کا بنتا ہے کہ وہ چین کی مارکیٹ میں گدھوں کی مانگ اور طلب سے فائدہ اُٹھائے۔
سترہ سے اَٹھارہ اپریل عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر جانے والا خیبرپختونخوا کا وفد محض ’سیرسپاٹا‘ ہی نہیں بلکہ ’’روڈ شو (road show)‘‘ کے ذریعے چین کے اُن سرمایہ کاروں کی توجہ بھی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا‘ جو زراعت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ گدھوں کی فارمنگ بھی زرعی شعبے ہی کی ذیل میں آتی ہے لیکن دیگر پھل اور سبزی پر مبنی خام زرعی پیداوار سے مصنوعات کی تیاری میں بھی چین کی مہارت اور منڈی (طلب) سے یقیناًفائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ خیبرپختونخوا نے گدھوں کی صنعتی بنیادوں پر افزائش کے لئے جو حکمت عملی تیار کی ہے اُس کے لئے ابتدا میں ’ایک ارب روپے‘ مختص کئے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اِس ’ایک ارب روپے‘ سے کئی ہزار ارب روپے کمائے جا سکیں گے۔ محکمۂ زراعت اور لائیوسٹاک سے تعلق رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کو گدھوں کی افزائش کے مراکز قائم کرنے کے ساتھ اِن فارمز پر کام کرنے والوں کے رہائشگاہیں اُور دفاتر تعمیر کرنے کا بھی کہا جائے گا جبکہ اِن فارمز کے لئے بجلی کی ضروریات شمسی توانائی سے پوری کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ خیبرپختونخوا اور چین کے سرمایہ کاروں کے درمیان براہ راست اقتصادی تعاون کی بنیاد پر ہوگا جس کی حیثیت اگرچہ سرکاری منصوبے جیسی ہوگی اور اس کے اثاثے سرکار کی ملکیت ہی رہیں گے لیکن اِسے چین اور پاکستان کے نجی سرمایہ کار اور ماہرین مل کر چلائیں گے۔
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان مشتاق غنی نے سات اپریل کے روز ’’اَیبٹ آباد الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن‘‘ کو محکمۂ اطلاعات کی جانب سے ’پانچ لاکھ روپے‘ کی مالی اِمداد دینے کے موقع پر غیررسمی بات چیت کرتے ہوئے چین کے دورے اور زیرغور متعدد ترقیاتی منصوبوں کے بارے جن سرسری تفصیلات سے صحافیوں کو آگاہ کیا‘ اُس کے مطابق وفاق اُور پنجاب کی جانب سے خیبرپختونخوا کو دیوار سے لگانے اور ’سی پیک‘ سے وابستہ فوائد سے الگ رکھنے کی کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا رہا ہے اور ’سی پیک‘ کو خیبرپختونخوا کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید و کارآمد بنانے کے لئے صوبائی حکومت نے ہر سطح پر کوششیں تیز کر دی ہیں۔ گدھوں کی افزائش اور زندہ جانوروں کی برآمدات کے ساتھ اگر اُن سے حاصل ہونے والی مصنوعات کی صنعتیں بھی خیبرپختونخوا ہی میں لگائی جائیں تو اِس سے منافع میں کئی گنا اضافہ ممکن ہے لیکن وقت آگیا ہے کہ ہمیں گدھے کو محض گدھا نہیں سمجھنا بلکہ گدھے کی طرح کام کرنے جیسی خصلت بھی خود میں پیدا کرنی ہے‘ جو کامیابی اور ناکامی (نتائج) کی پرواہ کئے بناء‘ بس سر جھکائے اپنے کام سے کام اُور اپنی دھن میں مگن رہتا ہے۔
![]() |
Getting benefits from China Pakistan Economic Corridor CPEC |
No comments:
Post a Comment