ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صحت‘ علاج معالجہ اُور اِنتظامی مسائل
خیبرپختونخوا میں علاج معالجے کی سہولیات کے معیار کا اَندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خود سرکاری اعدادوشمار گواہی دے رہے ہیں کہ ایک سال کے دوران خطرناک بیماریاں پھیلنے کی شرح میں اِضافہ ہوا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ سرکاری وسائل کا سارا زور ہسپتال میں لائے جانے والے مریضوں سے نمٹنے پر ہے جبکہ اِسی کام کی انجام دہی میں نجی اِدارے بھی کلیدی کردار اَدا کر رہے ہیں‘ جہاں سرکاری و نجی سطح پر بیک وقت مالی و ذاتی‘ کاروباری مفادات وابستہ کرنے والے ڈاکٹروں کے اگر ’وارے نیارے‘ نہیں تو ’نیارے وارے‘ ضرور ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پیچیدہ اَمراض (یرقان اُور بالخصوص ایچ آئی وی ایڈز) تیزی سے پھیل رہے ہیں اور اگر بیماریوں کے علاج معالجے کے ساتھ اُن کی روک تھام پر توجہ نہ دی گئی تو بڑے بڑے صحت کے مراکز ناکافی تو کیا‘ کارآمد بھی نہیں رہیں گے۔
علاج معالجے کے جدید تصورات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بیماریوں کو پھیلنے سے روکا جائے۔ طب کی تعلیم میں کسی ڈاکٹر کا کردار صرف امراض کو سمجھنا اُور کی درست تشخیص کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک ڈاکٹر اپنے اردگرد کے ماحول میں بیماریوں سے بچاؤ کے لئے گھر گھر جا کر تربیت بھی کر رہا ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا سماجی کارکن بھی ہوتا ہے جو اپنے اردگرد ماحول میں صفائی کا خیال رکھتا ہے۔ دوسروں کے رہن سہن پر نظر رکھتا ہے اور ایسے محرکات کو روکتا ہے جو بیماریوں کے ظاہر یا اُن کے پھیلنے کا سبب بنتے ہیں لیکن باوجود نصابی تعلیم و تربیت کے بھی ڈاکٹروں نے اپنے کردار کا ایک ایسا تعین کر رکھا ہے جس میں اُن کے کام محدود لیکن ثمرات لامحدود ہو چکے ہیں! اُور اِس کے لئے کسی اُور نے نہیں بلکہ طب کی تعلیم دینے والے معلمین‘ حکومت اُور خود ڈاکٹروں کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنی ذات کے سوا‘ معاشرے کے لئے کتنے مفید ہیں!
خیبرپختونخوا میں خطرناک امراض بشمول یرقان (ہپٹائٹس) اور جسم کی قوت مدافعت ختم کرنے والی بیماری ’ایچ آئی وی ایڈز‘ کے مریضوں کی تعداد میں سال دوہزار پندرہ اور سولہ کے مقابلے ’ایک سو چالیس فیصد‘ اضافہ کسی بھی طور معمولی نہیں۔ ’’ڈسٹرکٹ ہیلتھ انفارمیشن سسٹم‘‘ کی مرتب کردہ صحت سے متعلق ’سالانہ رپورٹ‘ جاری کی گئی ہے‘ جس میں اگر کوئی ایک مثبت بات تلاش کی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ’ایچ آئی وی ایڈز‘ کے پھیلنے کا ایک بڑا سبب غیرمحتاط جنسی تعلقات ہوا کرتے تھے لیکن اب ’ایچ آئی وی ایڈز‘ بذریعہ غیرمحتاط جنسی تعلقات میں 17فیصد کمی آئی ہے۔ سال دوہزار پندرہ میں ’ایچ آئی وی ایڈز‘ کے کل کیسز کی تعداد 13ہزار 893تھی جو دوہزار سولہ میں کم ہو کر 11ہزار 477 ہو گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ ’ایچ آئی وی ایڈز‘ کے حوالے سے غیرسرکاری تنظیموں نے عالمی امداد کا اچھا استعمال کیا اور اس کے بہتر نتائج بھی ظاہر ہوئے ہیں لیکن ایک سال میں ’گیارہ ہزار سے زیادہ غیرمحتاط جنسی تعلقات کا نتیجہ‘ بھی سنجیدہ توجہ چاہتا ہے!
خیبرپختونخوا میں ’ایچ آئی وی ایڈز‘ پھیلنے کا بنیادی سبب ایک ہی انجکشن (سرنج) کے ذریعے منشیات کا استعمال‘ غیرمحفوظ انتقال خون‘ حجام کی دکانوں سمیت دانتوں کے غیرمعیاری کلینکس ہیں جہاں جراحت (سرجری) میں استعمال ہونے والے آلات کو غیرسائنسی طریقے سے ’جراثم کش‘ محلول یا دھونے سے پاک و صاف کیا جاتا ہے جو کافی نہیں۔ نجی علاج گاہیں بطور خاص اِس بات کا خیال نہیں رکھتیں کہ اُن کے ہاں ’فرش‘ اور ’دیواروں کی ظاہری صفائی‘ کے ساتھ علاج معالجے میں استعمال ہونے والے چمکتے دمکتے آلات (اوزار) نہ دکھائی دینے والے جرثوموں سے آلودہ ہوتے ہیں! ملک میں ’ایچ آئی وی ایڈز‘ سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ’’دوکروڑ چالیس لاکھ‘‘ سے زیادہ ہے جبکہ اس کے علاؤہ ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ افراد ایسے بھی ہیں جن کی ظاہری علامات ایسی ہیں کہ وہ ’ایڈز کے جرثومے سے متاثر تو ہیں لیکن ایسے مریضوں کو ’مشتبہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ایچ آئی وی ایڈز کے پھیلنے کی وجہ خلیجی عرب ممالک میں محنت مزدوری کرنے والوں کی اکثریت رہی ہے‘ جو بیرون ملک غیرصحت مند ماحول میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے انواع و اقسام کی پیچیدہ امراض میں مبتلا ہوئے اور جب اُن میں امراض کی تشخیص ہوئی تو انہیں عرب ممالک سے نکال (ڈی پورٹ) کر دیا جاتا ہے۔ ایسے مریض اپنے مرض کے بارے باوجود علم رکھنے کے بھی احتیاط نہیں کرتے اور وطن واپس آنے کے بعد بیماری کے پھیلنے کا ذریعہ (سورس) بن جاتے ہیں! خیبرپختونخوا کے ضلع دیر اور سوات کے علاؤہ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایسے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پشاور میں ایچ آئی وی ایڈز سے متاثرہ ’’رجسٹرڈ مریضوں‘‘ کی تعداد 2 ہزار 694‘ سوات میں 1ہزار 67‘ مردان میں 1 ہزار 64‘ بنوں میں 973‘ اُور مانسہرہ سے رجسٹرڈ (معلوم) مریضوں کی تعداد 967 ریکارڈ کی گئی ہے۔ قومی سطح پر مرتب کئے گئے ایک الگ اعدادوشمار پر مبنی رپورٹ کے مطابق ہر ایک لاکھ پاکستانیوں میں سے 15 ہزار 370 افراد ’ایچ آئی وی ایڈز‘ سے متاثر ہیں تو کیا اِس بات پر تشویش کا اظہار اور ذرائع ابلاغ میں اِس سے متعلق بحث نہیں ہونی چاہئے؟
خیبرپختونخوا میں یرقان اور ملیریا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں کمی آئی ہے تاہم یرقان کے مریضوں میں 26 اور ملیریا کے مریضوں میں 6 فیصد کمی کے باوجود بھی ایسے لاکھوں افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں‘ جو نہ تو مہنگے علاج معالجے کا اپنے طور بندوبست کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے معیار زندگی کو اس قدر بلند کر سکتے ہیں کہ اُنہیں پینے کے صاف پانی جیسی نعمت ہی میسر آ سکے!
خیبرپختونخوا حکومت کو منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی روک تھام کرنے پر بھی توجہ دینی چاہئے جو مختلف امراض کے پھیلنے کی ایک وجہ ہے۔ صوبے کی مختلف علاج گاہوں میں ایک سال کے دوران اُنیس ہزار آٹھ سو اکتہر ایسے مریضوں نے رجوع کیا جو منشیات کے عادی تھے اور اِس لعنت سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ سب سے زیادہ منشیات سے متاثرہ مریضوں کی آمد چارسدہ سے رپورٹ ہوئی جہاں تین ہزار سات سو پچاسی‘ مردان سے تین ہزار پانچ سو دو اُور مالاکنڈ سے دو ہزار سات سو تیرہ افراد نے زندگی کی جانب واپسی کے لئے سرکاری علاج گاہوں کا رُخ کیا لیکن کیا یہی اعدادوشمار منشیات کے اُس نیٹ ورک کا بھی منہ بولتا ثبوت نہیں جو قانون کی ناک نیچے براستہ قبائلی علاقوں پشاور‘ چارسدہ‘ مردان اُور مالاکنڈ تک پھیلا دکھائی دیتا ہے!
No comments:
Post a Comment