ژرف نگاہ ۔۔۔شبیر حسین اِمام
گدھے‘ ذہانت اور چراغوں کی روشنی!
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ ’عظیم الشان‘ ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا‘ یہ بات کہنے والے چین کی منڈیوں سے نکاسئ مال کے حوالے سے ایک درست بات تو کہتے ہیں لیکن کیا ’سی پیک‘ سے مستفید ہونے کے لئے پاکستان کے پاس بھی کوئی ’چین جیسا جامع‘ لائحہ عمل بھی ہے؟ چین کی قیادت پاکستان کے راستے دنیا کو ایک منڈی کے طور پر دیکھ رہی ہے تودانشمندی یہی ہو گی کہ اِس راہداری کے ذریعے پاکستان بھی چین کی منڈیوں کو فتح کرنے کا عزم کر لے مگر کیسے؟
خیبرپختونخوا اُور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان زراعت اور مال مویشیوں کے جیسے ’معمولی دکھائی دینے والے‘ شعبوں میں تعاون اور بالخصوص ’گدھوں کی چین برآمد‘ کے حوالے سے دس اپریل کو شائع ہونے والی تحریر ’مذاق‘ کی نذر ہو گئی لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سنجیدہ طبقات بشمول صحافیوں کی جانب سے بھی ایسے ایسے تبصرے بذریعہ اِی میل‘ ٹیکسٹ میسجز اور واٹس ایپ موصول ہوئے‘ کہ جنہیں پڑھ کر ’اتنے ہنسے کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے!‘ ملاحظہ کیجئے پہلا تبصرہ جس کے الفاظ معذرت کے ساتھ شروع ہوئے اور کہا گیا کہ ’’کیا خیبرپختونخوا سے گدھوں کی برآمد سے کوئی ایسا بحران تو پیدا نہیں ہوگا کہ ذہانت کا قحط پڑ جائے؟ دوسرا تبصرہ قدرے مثبت پہلو رکھتا تھا کہ خیبرپختونخوا میں جو ایک طبقہ کام کررہا تھا اگر اُسے بھی چین بھیج دیا گیا تو باقی مجھ سے جیسے کام چور ہی رہ جائیں گے اور کوئی ملک یا صوبہ کس طرح محض کام چوروں سے چل سکتا ہے؟ تیسرا تبصرہ تحریک انصاف کی تبدیلی کے وعدے سے متعلق ہے جس میں پاکستانی گدھوں کو چین کے حوالے کرنا ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسی میں ایک صوبے کی ’بیجا مداخلت‘ قراردی گئی ہے! چوتھا قابل ذکر غور ہے کہ پشاور اور خیبرپختونخوا کے رہنے والی ایک تعداد ایسی تھی جنہوں نے چوہے مارنے کے عوض منافع کمایا اور اب گدھوں کی باری ہے تو کیا ہم اپنے انسانی وسائل سے کوئی زیادہ بہتر استفادہ نہیں کرسکتے؟ اور جس پانچویں تبصرے کو یہاں شامل کرنے کا مقصد تصویر کا ایک ایسا رخ دکھانا ہے‘ جس میں درد بھی چھپا ہے اُور اِصلاح کی گنجائش بھی کہ ’’گدھوں کی چین برآمد سے کہیں گوشت کا قلت پیدا نہ ہو جائے؟‘‘ دوست احباب نے جس عرق ریزی اور توجہ سے گدھوں کے بارے ’کھل کر اظہار خیال‘ کیا ہے اُس سے صاف ظاہر ہے کہ وقت اور تخیل پرواز کی کوئی کمی و حد نہیں! اے کاش اگر ’گدھوں کی صنعتی پیمانے پر افزائش‘ کے موضوع کو ’گوگل (google)‘ ہی کر لیا جاتا تو بہت کچھ ایسا پڑھنے کو ملتا جس پر یقین کرنا مشکل ہے۔
کیا ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ رواں برس موسم گرما کی شدت ماضی کے مقابلے زیادہ ہوگی جس کی ایک جھلک مارچ کے اختتام اور اپریل کے شروع ہی میں دیکھی گئی جب درجہ حرارت کی باعث میدانی علاقوں کے رہنے والوں کی چیخیں نکل گئیں۔ ملک میں بجلی کا شارٹ فال اور لوڈشیڈنگ بڑھنے کا سبب بھی موسمی تبدیلی ہے جس کے منفی اثرات نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں اور بالخصوص اُن تمام پالتو جانوروں پر بھی یکساں مرتب ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی صورت ہمارا ہاتھ بٹا رہے ہوتے ہیں۔ گھوڑا‘ خچر اور گدھا پہاڑی علاقوں میں مال برداری کا اہم ذریعہ ہیں‘ جن کی افزائش ماحول دوست ہونے کے ساتھ زرعی معیشت و معاشرت میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں ’لائیوسٹاک‘ کی اصطلاح کو محدود کر کے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت اگر کچھ مختلف کرنے جا رہی ہے اُور اس نے برآمدات کے لئے ایک ایسی جنس کا انتخاب کیا ہے جس کی چین جیسی بڑی منڈی میں مانگ ہے اور تجارت کی کامیابی کا پہلا اصول بھی یہی ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں جنس کی طلب و مانگ پر نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی تیار کی جائے! تو حرج ہی کیا ہے؟ پشاور کے ایک سینئر صحافی نے تو ’فرط جذبات‘ یہاں تک لکھ دیا کہ ’’اَب ہم گدھوں کی کمائی کھائیں گے؟‘‘ یقیناًانہوں نے یہ بھی سوچ سمجھ کر ہی لکھا ہوگا کہ ’’خیبرپختونخوا کی ترقی کے لئے گدھے میدان میں آگئے۔ گدھے اب فارن (بیرون ملک) جاب (ملازمت) کرنے جائیں گے جو ذہانت کی نکاسی (برین ڈرین) ہے!‘‘ اِس لمحۂ فکر پر رُک کر جان لیں کہ ’’برین ڈرین (brain drain)‘‘ کی اصطلاح کا اطلاق اُن ذہین اور پڑھے لکھے طلباء و طالبات کے بیرون ملک جانے پر ہوتا ہے جو پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اِس تعلیم کا استعمال اپنے ملک کی بہتری کے لئے نہیں کرتے بلکہ اچھی تعلیمی قابلیت کے ساتھ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم یا روزگار کے لئے منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ گذشتہ بیس برس کے دوران پاکستان سے کم و بیش ’تیس لاکھ‘ ایسے نوجوان بیرون ملک جا چکے ہیں‘ جن کی تعلیمی قابلیت اور اہلیت سے اگر اپنے ملک میں فائدہ خاطرخواہ اٹھایا جا رہا ہوتا تو ایسے افراد کو کسی بھی صورت بیرون ملک جانے کی ضرورت نہ پڑتی لیکن چونکہ پاکستان میں فارغ التحصیل ہونے والے طلباء و طالبات بالخصوص نوجوانوں کے لئے اپنے اپنے مزاج کے مطابق ملازمتیں یا مزید پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع آبادی کے تناسب سے موجود نہیں‘ اِس لئے نوجوانوں کی اکثریت اچھے مستقبل اور اپنے ذوق و شوق کی تسکین کے لئے مغربی ممالک کا رخ کرتی ہے اور اِس میں حرج بھی کوئی نہیں کیونکہ ’برین ڈرین‘ بہرحال اس بات سے بہتر ہے کہ ذہانت (برین) کو نالے نالیوں میں بہا کر ضائع (ڈرین) کر دیا جائے۔
پاکستان کے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں نے اگر نوجوان افرادی قوت سے خاطرخواہ استفادہ نہیں کیا تو اِس کوتاہی اور غلطی کا ’دیرآئد درست آئد‘ اعتراف کرنے میں بھلا حرج ہی کیا ہے بلکہ ہمیں اپنے جملہ فیصلہ سازوں (وفاقی و صوبائی حکومتوں) کو جھنجوڑنا چاہئے کہ کس طرح ’نوجوانوں‘ کی اُمیدوں‘ وقت اُور صلاحیتوں کا خون ہو رہا ہے۔
زراعت کے شعبے میں گریجوئٹس کو اگر زرعی اراضی دی جائے اور انہیں گدھوں کی افزائش سمیت ’لائیوسٹاک‘ کی افزائش و ترقی (موسمی اثرات کے موافق خوراک اور بچاؤ بارے تحقیق) کی جانب راغب کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ جس محدود پیمانے اور بیرونی سرمایہ کاری سے ’گدھوں کی مذکورہ تجارت‘ کا تصور پیش کیا گیا ہے اُس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر مالی فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ پاکستان کے بارے میں ایک گمراہ کن رائے بھی توجہ طلب ہے کہ ہمارے ہاں سے ذہین افراد ہی بیرون ملک جا رہے ہیں‘ حالانکہ ایسا نہیں۔ بیرون جانے والوں کی اکثریت کے پاس جو تعلیمی قابلیت ہوتی ہے مغربی ممالک کی نظر میں وہ کسی کام نہیں بلکہ اُنہیں انگریزی زبان تک کے کورسیز کرکے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ انگریزی دان ہیں! گدھوں کی چین کو برآمد کرنے سے نہ تو ذہانت کا فقدان ہوگا اور نہ ہی گوشت کی قلت پیدا ہو گی لیکن جس ایک بات نے سب کی ’دعوت فکر‘ دی ہے وہ یہ ہے کہ
جنہیں حقیر (گدھا) سمجھ کر بھلا (بجھا) دیا تو نے ۔۔۔
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی!
No comments:
Post a Comment