Thursday, April 13, 2017

Apr2017: Right Demand Wrongly Assumed!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شہدائے ہزارہ ساتویں برسی!
’صوبہ ہزارہ‘ کے نام سے ’اَلگ صوبے کی تحریک‘ کے لئے قربانیاں دینے والوں کی توقعات پوری نہیں ہوئیں تو اِس کی ایک وجہ یہ تھی کہ تحریک کی قیادت ’شخصی تسلط‘ سنجیدگی اُور معاملہ فہمی‘ کی بجائے جذبات کی رو میں بہہ گئی! نتیجہ یہ ہوا کہ بطور سیاسی جماعت تشکیل و ترتیب کے باوجود بھی ایک ’’جائز مطالبہ‘‘ خاطرخواہ توانا افرادی اُور توانائی (وسائل) سے محروم رہا۔ فیصلہ سازی پر ہوش سے زیادہ جوش اور نئے صوبے کی تشکیل جیسے آئینی مسئلے کو سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے ’حسب خواہش حل‘ کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ خودفریبی میں نہ تو اپنے وقت کا نقصان کریں اور نہ ہی اہل ہزارہ کے جان و مال کو داؤ پر لگائیں‘ جو پہلے ہی وفاقی اُور صوبائی حکومت کی جانب سے خاطرخواہ توجہ نہ ملنے کی وجہ سے محرومیوں اُور استحصال کے سبب مصائب و مشکلات بھری زندگی بسر کر رہے ہیں! 

تصور کیجئے کہ بالائی ایبٹ آباد کے علاقوں میں آج بھی پختہ شاہراہیں نہیں اُور پگڈنڈیوں پر چلنے والی گاڑیوں کو آئے روز حادثات پیش آتے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے طلباء و طالبات کے لئے تعلیم کے مواقع میسر نہیں۔ علاج معالجے کے لئے دشوار گزار کچے راستوں میں گھنٹوں مسافت کی وجہ سے مرض کی شدت بڑھ جاتی ہے اور اکثر مریض راستوں ہی میں دم توڑ دیتے ہیں! بارش اُور برفباری جیسے شدید موسم تو کیا عمومی حالات میں بھی عام آدمی کی سفری مشکلات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ بالائی ایبٹ آباد کی جنت نظیر وادیوں پر مشتمل علاقوں میں سیاحت اور چھوٹے پیمانے پر بجلی کے پیداواری منصوبوں کے علاؤہ زراعت و مال مویشیوں کی افزائش کے وسیع امکانات موجود ہیں لیکن جہاں خیبرپختونخوا کے اِن دور افتادہ (راندۂ درگاہ) علاقوں میں خود صوبائی اُور وفاقی حکومتیں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی نہ رکھتی ہوں‘ کیا وہاں مسیحا آسمان سے اُترے گا؟

صوبہ ہزارہ کی تحریک کا بنیادی خیال اُس ’حق تلفی‘ سے پیدا ہوا‘ جو یہاں سے منتخب ہونے والے اُن عوامی نمائندوں کا طرزفکر و عمل تھا۔ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل ڈھائی دہائیوں (پچیس برس) سے زائد عرصے تک ایک ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے جن افراد کو ’اہل ہزارہ‘ ووٹ دے دے کر منتخب کیا‘ آج اُن کے اثاثے اور ظاہری مالی حیثیت چنار کے درختوں اور ایبٹ آباد کو حصار میں لئے پہاڑوں سے بھی زیادہ بلند ہو چکی ہے! 

کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ’ہزارہ‘ تو ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب ہوتا چلا گیا لیکن چند خاندان کس طرح ارب پتی بن گئے؟ کیا سبب ہے کہ ہزارہ اور بالخصوص ایبٹ آباد کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پینے کا پانی اور صحت و علاج کی معیاری سہولیات میسر نہیں لیکن یہاں سے منتخب ہونے والے ماضی کے سیاسی قائدین اور حکمرانوں کے وارے نیارے ہیں! 

اگر کسی نے ’سیاست کی تباہ کاریوں‘ اور ’سیاست دانوں کی حرص و طمع‘ کا قریب سے مشاہدہ کرنا ہو‘ تو اُنہیں ’کبھی پرفضا کہلانے والے ضلع ایبٹ آباد‘ سے منتخب ہونے والے نمائندوں کی بودوباش کو قریب سے دیکھنا چاہئے۔ ایبٹ آباد کے کسی بھی چوک سے گزرنے والی ’لینڈ کروزر‘ اور دیگر بیش قیمت آف روڈ درآمد شدہ گاڑیوں کا تناسب خیبرپختونخوا کے کسی بھی دوسرے ضلع سے زیادہ کیوں ہے؟ 

ایک طرف عام آدمی نجی تعلیمی اداروں اور نجی علاج گاہوں کے رحم و کرم پر ہے تو دوسری طرف تھانہ کچہری کے رعب اور دھونس و دھاندلی کے ہر ایک حربے کو جائز سمجھنے والوں نے انتظامی طور پر ضلع ایبٹ آباد کو ’’جنت سے جہنم‘‘ بنا دیا ہے۔ تجاوزات ہیں تو بے شمار۔ جائیدادوں کے تنازعات اور پولیس کے ساتھ شراکت داری رکھنے والے قبضہ مافیا کے گروہ ہیں تو لاتعداد۔ پاکستان کی سب سے اہم فوجی چھاؤنی‘ جہاں سے فوج کی قیادت کرنے والے تربیت کی ’پہلی سیڑھی‘ پر قدم رکھتے ہیں نہ تو جدید ہے اور نہ ہی یہاں سہولیات و ترقی مثالی دکھائی دیتی ہے۔ 

ایبٹ آباد میں یومیہ ڈھائی لاکھ کلوگرام ٹھوس گندگی (کوڑا کرکٹ) پیدا ہوتا ہے لیکن اگر یومیہ ایک لاکھ کلوگرام سے بھی کم اُٹھایا جا رہا ہے تو اِس بات کا تصور محال نہیں کی کس طرح گندگی کے پہاڑ آنے والے موسم گرما کو اذیت ناک بنائیں گے! پینے کا صاف پانی پچاس سے زائد یونین کونسلوں میں سے کسی ایک بھی یونین کونسل کے رہنے والوں کو میسر نہیں۔ جس کے پاس جتنا پیسہ ہے وہ اُتنا ہی ماحول دشمن ہے۔ باغات کے حصے اجارے پر دیئے گئے ہیں اور پشاور کی طرح جلد ہی باقی ماندہ حصوں کی بھی نجکاری ہو جائے گی! فکروعمل کی دعوت ہے کہ ہزارہ اور بالخصوص ضلع ایبٹ آباد کے حقوق کے لئے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا جائے۔ صوبہ ہزارہ کے نام پر ’’سیاست برائے سیاست‘‘ اور ’’مخالفت برائے مخالفت‘‘ کرنے والوں کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ’ہزارہ کے حقوق‘ کے لئے متحد ہونا پڑے گا بصورت دیگر کوئی صورت نہیں جس کے ذریعے ہزارہ کے حقوق کا حصول‘ تحفظ اور ادائیگی ممکن بنائی جا سکے۔ 

شہدائے ہزارہ کی قربانیوں کو بھی خراج تحسین پیش کرنے کا درست طریقہ (انداز) یہی ہے کہ اُن آئینی راستوں کا انتخاب کیا جائے‘ جن پر تصادم کا امکان نہیں‘ جو منزل تک پہنچنے کا ’شارٹ کٹ‘ بھی ہیں اور بھلا ایسا بزرگ کس طرح دانشمند کہلائے گا‘ جو تمام تر توانائیاں‘ وسائل اُور ساکھ ’احتجاج‘ کی نذر کرکے اپنے اور اپنے پیروکاروں کے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسی ہٹ دھرمی کا ڈٹ کر دفاع کرنے کو ’عین جمہوری اُور واحد حل‘ سمجھنے جیسے مغالطے کا شکار ہو!؟ 
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی
اِک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اِس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی! (جان ایلیا)۔

No comments:

Post a Comment