ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محتاج توجہ: اَیبٹ آباد!
شہری زندگی کا حسن مانند کرنے والے مسائل کہاں نہیں لیکن جس انداز میں بنیادی سہولیات و ضروریات سے جڑے مسائل کی شدت ’ایبٹ آباد‘ میں محسوس کی جاسکتی ہے اُس کی مثال شاید ہی خیبرپختونخوا تو کیا ملک کے کسی بھی دوسرے حصے میں باوجود تلاش کرنے بھی مل پائے!
پینے کے صاف پانی کی قلت: سال 2009-10ء کے دوران جاپان حکومت کے مالی و تکنیکی تعاون سے ایبٹ آباد کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا ایک منصوبہ متعارف کرایا گیا۔ اِس نہایت ہی سادہ لیکن پُراثر منصوبے میں اتنی گنجائش رکھی گئی کہ اِسے مستقبل میں وسعت دی جاسکے یا اِسی طرز کے دیگر منصوبے شروع کرکے ایبٹ آباد کے قرب و جوار میں موجود قدرتی پانی کے ذخائر سے استفادہ کیا جاسکے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ 2 لاکھ 16 ہزار افراد کے لئے یومیہ 68لاکھ گیلن پانی فراہم کرنے والا یہ ’’گریوٹی فلو‘‘ منصوبہ ایبٹ آباد کی صرف 3 یونین کونسلوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا۔ دس کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے داور (Daur) سے پانی پائپ لائن کے ذریعے ایبٹ آباد لایا گیا اور پھر ایک پہاڑی (اُوکھریلا یونین کونسل دھمتوڑ) کی چوٹی کو ہموار کرکے وہاں بڑے تالاب بنائے گئے جہاں یہ پانی کچھ وقت کے لئے ذخیرہ اور کیمیائی طور پر اس کی تطہیر کرنے کے بعد ایبٹ آباد کو فراہم ہونے لگا لیکن ابھی چھاؤنی کی حدود سے متصل یونین کونسلوں میں پانی کے ترسیلی پائپ لائنیں بچھانے کا کام مکمل ہونے بھی نہیں پایا تھا کہ فوجی حکام کے دباؤ کی وجہ سے منصوبے کا 40فیصد پانی چھاؤنی اور دیگر شہری علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یوں ’’گریوٹی فلو (کشش ثقل سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ترسیلی نظام) سے ساٹھ فیصد پانی لینے والی یونین کونسلوں کے ایسے حصے بھی متاثر ہونے لگے جہاں یا تو پانی پہنچ ہی نہیں پایا یا پھر انہیں مقررہ ایام و اوقات میں (چند گھنٹے) ملنے والا پانی یومیہ ضروریات کے لئے کافی نہیں ہے۔ اگر ایبٹ آباد کی چھاؤنی (پانچ وارڈوں) کی حدود میں رہنے والوں کو بھی پانی کی قلت کا سامنا تھا تو اس کے لئے الگ منصوبہ شروع کیا جاسکتا تھا لیکن بجائے منصوبہ بندی جیسا مشکل کام کرنے اس بات کو زیادہ آسان سمجھا گیا کہ دستیاب پانی کا رخ موڑ دیا جائے اور کہا جائے کہ چالیس فیصد کی کمی 28 ٹیوب ویلیوں کے ذریعے پوری کرلو۔ ایبٹ آباد سخت زمینی ساخت پر مشتمل پہاڑی علاقہ ہے اُور یہاں زیرزمین پانی کے ذخائر سے اِستفادہ نہ صرف مہنگی بجلی اُور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ’قابل عمل‘ نہیں بلکہ ٹیوب ویلوں کے ذریعے تیزی سے پھیلتے شہر کی ضروریات پوری کرنا ممکن بھی نہیں۔ ایک ایسی صورت میں جبکہ اَیبٹ آباد کے اِردگرد قدرتی چشموں اُور شفاف پانی برساتی ندی نالوں میں بہہ کر ضائع ہو رہا ہے‘ وہیں پانی کی قلت کا بنیادی محرک سوائے سرکاری اداروں کی نااہلی (منصوبہ بندی کے فقدان) کے سوأ کچھ اُور نہیں!
خستہ حال شاہراہیں: فیصلہ سازوں کو اَندازہ ہی نہیں کہ اَیبٹ آباد کے معمولات زندگی کس حد تک متاثر ہیں۔ مثالی آب و ہوا اور صحت افزأ مقام ہونے جیسی عمومی شہرت رکھنے والا یہ شہر جہاں ناقص منصوبہ بندی اُور احساس سے عاری شاہانہ مزاج کے باعث عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت کے لئے جہنم بن چکا ہے‘ وہیں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے جاری تعمیراتی کام کے بوجھ نے تو رہی سہی کسر ہی نکال دی ہے۔ تعلیمی اداروں کا مرکز کہلانے والے اِس شہر کی وہ شاہراہیں جو مقامی ٹریفک ہی کے لئے ناکافی تھیں‘ اُن پر دن رات بھاری ٹریفک کی وجہ سے نہ صرف سڑکیں اکھڑ گئیں ہیں بلکہ چھوٹی گاڑیوں اور سکول بسوں میں سفر کرنے والوں کے لئے ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ اوقات کی پابندی کر سکیں۔ علاؤہ ازیں ’’پاکستان ملٹری اکیڈمی‘ کاکول‘‘ ایبٹ آباد کے وسط میں واقع ہے جس کے عظیم الشان توسیعی منصوبے اور آئے روز تقریبات کو جواز بنا کر ’غیراعلانیہ مرکزی شاہراہیں بشمول بائی پاس روڈ‘ بند کر دی جاتی ہیں‘ جس کی وجہ سے نہ صرف ایبٹ آباد کے مشرق و مغرب رہنے والے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ عجب ہے کہ رواں ماہ (تیرہ سے پندرہ اپریل) ’پاسنگ آؤٹ پریڈ‘ کے لئے ’بائی پاس‘ اُور ’پی ایم اے روڈ‘ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ مقامی اور ’سی پیک‘ سے جڑی بھاری ٹریفک اگر متبادل راستے استعمال کرے گی تو وہ متبادل راستے کون کون سے ہیں؟ پاسنگ آؤٹ پریڈ تو ایک دن‘ چند گھنٹوں کی تقریب ہوتی ہے‘ جس کے لئے مہمان خصوصی‘ فوجی شخصیات اور غیرملکی مہمان (وی وی آئی پیز) بذریعہ ہیلی کاپٹرز تشریف لاتے ہیں لیکن اِس تقریب کی تیاری کے لئے تین روز تک تمام دن ٹریفک معطل رکھنے کا جواز کیا ہے؟
فوجی حکام کو سمجھنا ہوگا کہ جس طرح صوبائی و وفاقی حکومت سڑکوں کی توسیع و مرمت جیسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء نہ ہونے کے سبب عام آدمی کی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے بالکل اِسی طرح ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی نظروں میں وہ باوردی فیصلہ ساز بھی یکساں مجرم ہیں‘ جنہیں عوام کی تکلیف کا احساس نہیں۔ جنہیں سکول کالجز اور دفاتر کو پہنچنے والوں کی جسمانی و ذہنی اذیت و مشکلات کا رتی برابر احساس نہیں اور نہ ہی وہ خود کو اُس ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں جس کے ٹیکسوں سے ساری ’رونقیں لگی ہوئی ہیں۔‘
جواب چاہئے کہ مری روڈ کے راستے ایک لمبی مسافت طے کرکے کاکول‘ ناڑیاں‘ نواں شہر یا دھمتوڑ جانے یا اِن یونین کونسلوں سے جھنگی‘ میرپور وغیرہ کو جانے والوں کو جس ٹریفک کے بدترین و ابتر نظام سے نمٹنا پڑتا ہے اُس کے ذمہ دار کون ہیں؟ ڈیڑھ برس سے مری روڈ کی توسیع کا سست رفتار ترقیاتی کام اور گردوغبار کے بادلوں کے لئے کسے ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟
فوجی حکام کو سمجھنا ہوگا کہ جس طرح صوبائی و وفاقی حکومت سڑکوں کی توسیع و مرمت جیسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء نہ ہونے کے سبب عام آدمی کی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے بالکل اِسی طرح ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی نظروں میں وہ باوردی فیصلہ ساز بھی یکساں مجرم ہیں‘ جنہیں عوام کی تکلیف کا احساس نہیں۔ جنہیں سکول کالجز اور دفاتر کو پہنچنے والوں کی جسمانی و ذہنی اذیت و مشکلات کا رتی برابر احساس نہیں اور نہ ہی وہ خود کو اُس ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں جس کے ٹیکسوں سے ساری ’رونقیں لگی ہوئی ہیں۔‘
جواب چاہئے کہ مری روڈ کے راستے ایک لمبی مسافت طے کرکے کاکول‘ ناڑیاں‘ نواں شہر یا دھمتوڑ جانے یا اِن یونین کونسلوں سے جھنگی‘ میرپور وغیرہ کو جانے والوں کو جس ٹریفک کے بدترین و ابتر نظام سے نمٹنا پڑتا ہے اُس کے ذمہ دار کون ہیں؟ ڈیڑھ برس سے مری روڈ کی توسیع کا سست رفتار ترقیاتی کام اور گردوغبار کے بادلوں کے لئے کسے ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟
المیہ در المیہ ہے کہ جیسے قوم نے سوچنا ہی ترک کر دیا ہو۔ دیگر شہروں سے پرفضا ماحول و سکون کی تلاش میں نتھیاگلی ٹھنڈیانی و گلیات جانے والوں کا گزر جب کبھی بھی ’ایبٹ آباد‘ سے ہوتا ہے تو اُن پر ’پاکستان تحریک اِنصاف‘ کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کے انقلابی تبدیلی و اصلاحات کے وعدوں کی حقیقت یقیناًآشکارہ ہو جاتی ہوگی! عوام کے منتخب قانون ساز ایوانوں اور بلدیاتی نمائندوں کے لئے دعوت فکروعمل ہے کہ وہ اِس منفی تاثر کے بارے سنجیدگی سے سوچیں کہ ایبٹ آباد کے وسائل پر آبادی کے بوجھ‘ پینے کے صاف پانی کی قلت‘ صفائی کی ناقابل بیان صورتحال‘ خستہ حال سڑکیں اُور ’’اُلجھی ٹریفک‘‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لئے کس قدر بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment