ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پہیلیاں!
پاناما اسکینڈل کیس کی طویل سماعتوں کے بعد سپرئم کورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ کئے ’’ڈیڑھ ماہ‘‘ سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے اور سب کو فیصلے کا بے چینی اور بے صبری سے انتظار ہے۔ فیصلہ کیا ہوگا چونکہ اِس حوالے سے کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی‘ اِس لئے ہر گھڑی تجسس بڑھ رہا ہے کہ یہ فیصلہ کب اور کیا سامنے آئے گا؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم سپرئم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کئی سماعتوں کے بعد رواں برس تیئس فروری کو پاناما کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اِسے مناسب وقت پر سنایا جائے گا اور بیس سال کے بعد بھی لوگ کہیں گے کہ یہ فیصلہ قانون کے عین مطابق تھا۔‘‘ پاناما کیس کے سلسلے میں مختلف درخواست گزاروں نے پٹیشنز دائر کی تھیں‘ جن میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان‘ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور شیخ رشید احمد شامل ہیں‘ جو وزیر اعظم کی جانب سے پانچ اپریل دوہزار سولہ کو قوم سے خطاب اور سولہ مئی دوہزار کو قومی اسمبلی میں کئے گئے خطاب میں مبینہ طور پر غلط بیانی کی بنیاد پر اُن کی نااہلی کے خواہاں ہیں لیکن اگر اختیارات کے ناجائز استعمال اور وسائل کی لوٹ مار پر اگر کوئی ایک بھی نااہل قرار پایا تو یہ سلسلہ رکے گا نہیں اور نہ ہی بات ختم ہوگی۔
قبل اَز وقت ’ممکنہ عام انتخابات‘ کی تیاریاں کرنے والی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ ’پانامہ کیس‘ کا فیصلہ عنقریب لگنے والا ہے جس کی بنیاد پر وہ آئندہ عام انتخاب ’لوٹنے‘ کی خواہش میں پیشگی مبارکبادوں کا تبادلہ (اظہار مسرت) بھی کر رہی ہیں لیکن کیا آج کی تاریخ میں‘ پاکستان کی کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ایسی ہے جس کی مرکزی یا صوبوں میں قیادت کے ستون ’صادق و امین‘ کے اُس کم سے کم ’آئینی معیار‘ پر پورا اُترتے ہوں‘ جس کے بارے میں انکم ٹیکس گوشواروں کی طرح الیکشن کمیشن کو دیئے جانے والے ’تحریری حلفیہ دروغ گوئی‘ پر مبنی بیانات معمول بن چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانی پر فائز سیاسی جماعتوں کے نام بدلتے رہتے ہیں لیکن حکمراں خاندانوں کا تسلط برقرار ہے جو اُس وقت تک قائم و دائم (لازوال) رہے گا جب تک عام انتخابات میں زیادہ سے زیادہ اخراجات کی حد اور الیکشن قواعد و ضوابط کی ہر ایک شق پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ممکن نہیں ہوجاتا یا عملاً ممکن نہیں بنایا جاتا۔ پاکستان میں شفاف عام انتخابات ہی جمہوریت کے قیام اور طرزحکمرانی کی اصلاح کی واحد صورت ہیں۔ جب تک ہمارا انتخابی نظام اور انتخابی اصلاحات کے ذریعے ایسے ’شفاف چناؤ‘ عملاً ممکن نہیں ہوتے کہ جن کے ذریعے ’’بالغ حق رائے دہی‘‘ کا تناسب اُور معیار‘ دھونس دھاندلی یا نسلی و لسانی اور مذہبی وابستگیوں سے بالاتر ہوں‘ اُس وقت تک ’قسمت نہیں بدلے گی!‘ یہ اَمر بھی ذہن نشین رہے کہ جب تک خودمختار ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ اپنے فرائض کی ادائیگی میں خودمختار ہونے کا اپنے عمل سے ثبوت نہیں دے گا‘ اُس وقت تک عہدوں اُور اِختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی روش اور غاصب طبقات کا تسلط قائم رہے گی اور ایک نہیں بلکہ مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے مزید کئی ایک پانامہ کیسیز سے اُس طبقے کی صحت و حیثیت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا‘ جس کے مالی مفادات پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں!
پاکستان کی سیاست کو تغیرپذیر ملکی اور عالمی تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے کہ کس طرح اسلامی ممالک پر عالمی طاقتوں کا دباؤ ہے اور ایک ایسی صورت میں قبل ازوقت عام انتخابات کی پیش گوئی کرتے ہوئے یہ اُمید (تصور) رکھنا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وجہ سے الیکشن فوج کی نگرانی میں شفاف انداز میں ہوں گے‘ الجھنوں میں اضافے کا باعث امر ہوگا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا ماننا ہے کہ ’’فوج کی زیرنگرانی آئندہ عام انتخابات ’’تاریخی‘‘ ہوں گے‘ جن میں دھاندلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا‘‘ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ انتخابی دھاندلی سے زیادہ تو عام انتخابات پر سرمایہ‘ ذات برادری اُور تھانہ کچہری کے معاملات اثرانداز ہوتے ہیں! ماضی میں بھی پولنگ اسٹیشنوں پر فوجی دستے موجود رہے‘ تاہم پاناما لیکس کے متوقع فیصلے پر مرکوز نظروں میں فوج بھی شامل ہے جو یکساں بے چین ہے اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتحال ’’سول اور فوجی تعلقات‘‘ کے لئے سابق آرمی چیف راحیل شریف سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوسکتی ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے راحیل شریف کو سیاسی جماعتوں کے درمیان آنا پڑا لیکن یہی کام موجودہ آرمی چیف نے باآسانی و خوش اسلوبی سے حسب خواہش و ضرورت کر لیا اور یہی سبب ہے کہ سیاسی تجزیہ کار پورے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف سخت گیر مؤقف رکھنے والے جنرل قمر باجوہ‘ آنے والے دنوں میں راحیل شریف سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے جو ’’شور‘‘ کم اور ’’کاروائی‘‘ زیادہ کرنے کے قائل ہیں۔
سپرئم کورٹ پاناما لیکس کی روشنی میں فیصلہ لکھتے ہوئے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر رہی ہو گی کیونکہ اِس سے صرف ایک حکمراں خاندان کی نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں دیگر افراد کی قسمت کا فیصلہ بھی ہو جائے گا‘ جنہوں نے 1: پاکستان میں حسب آمدنی ٹیکس ادا نہیں کیا‘ 2: مشکوک ذرائع آمدنی سے مالی وسائل میں اضافہ کرتے چلے گئے‘ 3: غلط بیانی کے ذریعے آمدنی اور اثاثوں کو قومی اداروں سے پوشیدہ رکھا‘ 4: مالی وسائل غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقل کئے‘ 5: بیرون ملک اپنے اہل خانہ کے ناموں یا فرضی اِداروں کے ذریعے سرمایہ کاری کی گئی۔ یہ پانچوں جرائم اِس قدر سنجیدہ نوعیت کے ہیں کہ اگر اِن میں ایک کا اطلاق بھی‘ کسی فرد‘ خاندان یا ادارے پر ہوا‘ تو وہ ’تاحیات نااہلی‘ سے نہیں بچ سکے گا۔ علاؤہ ازیں بیرون ملک‘ چوری چھپے سرمایہ کاری کرنے والوں پر ’غداری‘ کی دفعات بھی لاگو ہوں گی جنہوں نے اپنے مالی مفادات کے لئے ملکی اداروں‘ قوانین اور قواعد کو حقیر سمجھا اور ہر ادارے کو بدعنوان بنا کر پاکستان کو اُس مقام پر لاکھڑا کیا جہاں ملکی ادارے بوجھ بن چکے ہیں‘ برآمدات روبہ زوال ہیں‘ توانائی بحران کی صورت ڈھل چکے ہیں اور نہ صرف قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے بلکہ قرض کی اقساط و سود ادا کرنے کے لئے بھی مزید قرض حاصل کرنے کے سوا چارہ بھی نہیں رہا تو وقت ہے کہ پاکستان کی قومی آمدنی اور قرضوں سے حاصل ہونے والے مالی وسائل لوٹنے والوں کی نشاندہی (احتساب) بذریعہ عام اِنتخاب (الیکشن) نہیں بلکہ ’بمطابق قانون‘ ہونا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment