Wednesday, May 10, 2017

May2017: Primary education in KP as prime-priority & last opportunity too!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
آخری سال!
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت اپنی آئینی مدت کے آخری مالی سال (دوہزارسترہ اور اٹھارہ) کے لئے آمدن و اخراجات کا میزانیہ (بجٹ) تیار کر رہی ہے اور اب تک کی مشاورت سے حاصل ہونے والی ابتدائی سفارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ ترجیحات کو مزید ترجیح دیتے ہوئے سب سے آئندہ مالی سال سب سے زیادہ توجہ ’بنیادی و ثانوی (پرائمری اینڈ سیکنڈری) تعلیم‘ پر ہی مرکوز رہے گی جس کے لئے قریب 17فیصد زائد مالی مختص کرنے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ 

آئندہ مالی سال کے لئے سرکاری ’پرائمری اور سیکنڈری تعلیمی اداروں‘ کے حصے میں کم سے کم ’138 ارب روپے‘ آئیں گے۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ ’خیبرپختونخوا‘ کی سیاسی تاریخ میں کبھی بھی سرکاری پرائمری تعلیمی اداروں کے لئے اِس قدر رقم مختص نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت کے آخری مالی سال (دوہزار بارہ تیرہ) میں تعلیم کے لئے صرف 61 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور اگر ہم ماضی کے قوم پرستوں کا موازنہ جنون اور تبدیلی کی بنیاد پر اصلاحات کی دعویدار موجودہ صوبائی حکومت سے کریں تو یہ اضافہ ’’126 فیصد‘‘ بنتا ہے! لیکن سوال یہ ہے کہ ایک سو چھبیس فیصد سے زائد مالی وسائل مختص کرنے کے باوجود بھی اگر سرکاری پرائمری وسیکنڈری تعلیمی اداروں کی کارکردگی اور حاصل ہونے والے نتائج وہی کے وہی ہیں تو فائدہ (حاصل) کیا!

پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی فیصلہ سازوں کو یقین ہے کہ زیادہ مالی وسائل مختص کرنا ہی کافی ہے جبکہ صورتحال یہ رہی کہ ماضی کی طرح حال میں بھی مختص بجٹ کا بڑا حصہ (قریب نوے فیصد یا اس سے زیادہ) تنخواہوں اور مراعات کی ادائیگی جبکہ مالی سال کے آخری تین ماہ باوجود کوشش اور تیزرفتار اخراجات کے بھی مختص مالی وسائل سے پوری طرح استفادہ نہیں ہوسکا! تو اِس بات پر کس قدر اظہار مسرت کرنا چاہئے کہ صوبائی حکومت نے گذشتہ مالی سال کے مقابلے ’’سترہ فیصد‘‘ زیادہ مالی وسائل پرائمری وسکینڈری تعلیم کے لئے مختص کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کا بڑا حصہ غیرترقیاتی اخراجات (تنخواہوں) کی نذر ہو جائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ پرائمری و سیکنڈری ایجوکیشن کے لئے مالی سال 2016-17ء کے دوران 118 ارب مختص کئے گئے تھے جنہیں بڑھا کر 138 ارب روپے کیا جا رہا ہے! ذہن نشین رہے کہ صوبائی حکومت نے چالیس ہزار اساتذہ بھرتی کئے اور نئے مالی سال میں مزید پندرہ ہزار اساتذہ بھرتی کئے جائیں گے۔ صوبائی حکومت اساتذہ کی تربیت پر بھی ریکارڈ اخراجات کر رہی ہے اور اب تک 80کروڑ روپے جس تربیت پر خرچ ہو چکے ہیں‘ اُس کا فائدہ نجانے کون سی عینک پہن کر نظر آئے گا‘ معلوم نہیں! 

ماضی میں سکولوں کے ناموں پر جو کچھ تعمیر ہوا‘ اُس کا حال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو چار لاکھ کرسیاں فراہم کرنا پڑیں اور سکولوں کے نام پر تعمیر ہونے والے ڈھانچوں میں سہولیات کی فراہمی پر 7 ارب روپے خرچ کرنا پڑے۔

سرکاری تعلیمی اِداروں کا معیار جانچنے کی واحد اکائی ’امتحانات‘ ہیں‘ جن کے لئے نصاب چاہے جتنا بھی وسیع اور جامع بنانے کی کوشش کی جائے وہ محدود ہی رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نئے مالی سال کے دوران ’ذیابیطس (شوگر)‘ کے بارے میں اسباق بھی نصاب میں شامل کرے گی کیونکہ ہری پور اور کرک کے اضلاع میں کئے گئے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ اِن دو اضلاع کی اُنیس فیصد سے زیادہ آبادی شوگر میں مبتلا ہے اور صوبے کے دیگر تیئس اضلاع میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہ ہونے کا یقین رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں غیرمحتاط کھانے پینے کی عادات اور کیمیائی مادوں پر مشتمل اشیائے خوردونوش کے سبب انواع و اقسام کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ سب سے زیادہ خطرہ بچوں کو لاحق ہے جو ذرائع ابلاغ میں پرکشش اشتہارات سے ملنے والی رغبت کی بنیاد پر ایسی اشیاء کھاتے ہیں‘ جن سے اُن کی صحت عمر بڑھنے کے ساتھ خراب ہوتی چلی جاتی ہے۔ کیا سرکاری و نجی سکولوں کے اندر یا اُن کے آس پاس کیمیائی مادوں سے بنی ہوئے ایسی ذائقہ دار اشیاء فروخت ہونی چاہیئں‘ جو انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہیں؟ نصاب کے ذریعے آگہی اپنی جگہ اہم لیکن تمباکو نوشی کے رجحان میں اُس وقت تک کمی نہیں آئے گی جب تک اِس کی ہر عمر کے لئے سرعام دستیابی ختم نہیں کی جاتی۔ 

خیبرپختونخوا حکومت پرائمری سیکنڈری ہائی اور ہائرسیکنڈری تعلیم کی ضروریات اور تقاضوں کو الگ الگ کر کے دیکھ رہی ہے‘ جبکہ اِن سب کے درمیان ایک کمزور ہوتا تعلق بھی ہے‘ جس کی کھوج اور جس کی مضبوطی کے لئے بھی عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے ہاں معلم بچوں کے لئے ’رول ماڈل (ہر لحاظ سے قابل تقلید ہستی)‘ ہے؟ جاپان کے ایک سکول کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے عجیب عمل دیکھا کہ برآمدے سے گزرنے والے بچے چلتے چلتے ایک خاص مقام پر پہنچ کر چھلانگ لگاتے جبکہ فرش ٹھیک تھا اور گیلا بھی نہیں تھا کہ پھسلنے کا خطرہ یا امکان ہوتا۔ جب سکول کے انتظامی نگران سے اِس کا سبب پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ غور کیجئے وہاں ایک معلم کھڑا ہے جس کے سائے پر پاؤں رکھنا طالب علم توہین سمجھتے ہیں‘‘ یقیناًجاپان کے بچوں کو ایسا کرنے کی اُنہیں تربیت (تلقین) دی جاتی ہوگی کیونکہ بناء تربیت درس و تدریس کے عمل سے جو کچھ بھی حاصل ہو گا وہ ’’آداب فرزندی‘‘ جیسی خصوصیات کا مرکب نہیں ہو سکتا!

No comments:

Post a Comment