Thursday, May 11, 2017

May2017: Lessons embedded into the General Elections in UK & use of Social Media

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عام انتخابات: سوشل میڈیا کا کردار!

برطانیہ میں عام انتخابات کا انعقاد ’’8 جون 2017ء‘‘ کو ہونے جا رہا ہے جس میں 650 انتخابی حلقوں کے تین سطحی جمہوری ایوانوں (ممبر آف پارلیمنٹ‘ ہاؤس آف کامنز اُور لوئر ہاؤس) کے لئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ دوہزار گیارہ میں منظور کی جانے والی ایک آئینی ترمیم کی رو سے برطانیہ میں آئندہ عام انتخابات کا انعقاد سات مئی دوہزار بیس کو ہونا چاہئے لیکن اٹھارہ اپریل دوہزار سترہ کو غیرمعمولی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم ’تھریسا مئی (Theresa May) نے قبل ازوقت عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا جسے 19 اپریل 2017ء کو اراکین اسمبلی نے دوتہائی کی لازمی حمایت سے منظور کر لیا۔ 

برطانیہ کے سیاسی منظرنامے پر موجودہ حکمراں جماعت ’کنزرویٹو پارٹی‘ مقبول ترین اور مضبوط سمجھی جاتی ہے جو سال دوہزار پندرہ سے برسراقتدار ہے۔ دوسرے نمبر پر حزب اختلاف کی باضابطہ جماعت لیبر پارٹی‘ تیسرے نمبر پر ’اسکاٹش نیشنل پارٹی‘ چوتھے نمبر پر ’لبرل ڈیموکریٹس اور پانچویں نمبر پر ’ناردن آئرش ڈیموکریٹک نیشنلسٹ پارٹی‘ کم ترین عوامی مقبولیت رکھتی ہے لیکن برطانیہ کی جمہوریت میں ہر سیاسی جماعت کی یکساں اہمیت اور مقام ہے۔ قبل ازوقت عام انتخابات کے انعقاد کا سبب بننے والے غیرمعمولی حالات درحقیقت برطانیہ کو درپیش وہ معاشی و اقتصادی مسائل ہیں‘ جو مارچ دوہزار سے ظہور پذیر ہوئے ہیں جن کے مطابق برطانیہ کی اکثریت اور اُن کی نمائندگی کرنے والے چاہتے ہیں کہ وہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائیں۔ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے یا نہ ہو‘ یہی معاملہ ’آٹھ جون‘ کو ہونے والے عام انتخابات پر حاوی رہے گا۔ جب سے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوا ہے‘ تب سے عوامی جائزہ رپورٹوں کے مطابق موجودہ وزیراعظم تھریسا مئی کو حزب اختلاف کی لیبرپارٹی پر سبقت حاصل ہے۔ اَمریکہ کی طرح عالمی طاقت برطانیہ کے عام انتخابات بھی پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں‘ جنہیں برطانوی الیکشن کمیشن آزاد‘ شفاف اور باوقار انداز میں منعقد کرانے کا تجربہ رکھتا ہے لیکن چونکہ اِس مرتبہ سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) ابلاغ کے دیگر ذرائع کی نسبت زیادہ استعمال ہو رہے ہیں‘ اِس لئے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے ’سوشل میڈیا کے منفی اثرات‘ کم سے کم کرنے کے لئے سوچ بچار (بحث و مباحثے) کا عمل ہر سطح پر جاری ہے۔ برطانیہ کے معروف اشاعتی اور نشریات ادارے نہ صرف عوام کی رہنمائی کر رہے ہیں کہ وہ کس طرح ’سوشل میڈیا کے فریب‘ سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کے حوالے سے بھی کم و بیش 7 کروڑ برطانوی باشندوں کے لئے رہنما اصول جاری کئے جا رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں انگریزی بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد قریب سو فیصد ہے لیکن وہاں خواندگی کی شرح سو فیصد نہیں! 

اگر انگریزی زبان ’خونداگی و قابلیت‘ کا کوئی معیار ہوتی تو آج برطانیہ یورپی یونین ممالک کی فہرست میں کم ترین درجے پر فائز نہ ہوتا۔ اسپیکٹیٹر نامی جریدے کی اسسٹنٹ ایڈیٹر ایسابل ہارڈمین (Isabel Hardman) کی ایک تحقیق کے مطابق ’’سولہ سے اُنیس سال کے برطانوی نوجوانوں کی بیس فیصد تعداد ناخواندہ جبکہ چالیس فیصد سے زیادہ ایسے ہیں جو حساب کتاب (numeracy) سے آگاہ نہیں۔‘‘ لیکن برطانیہ کی کم وبیش سات کروڑ کی آبادی میں 92 فیصد لوگ انٹرنیٹ وسائل کا استعمال کرتے ہیں۔ اِس قدر بڑی تعداد میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے معاشرے کو پاکستان سے ایک تقابلی جائزے کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں بمشکل 18 فیصد آبادی ہی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے تو جس معاشرے میں یہ تناسب بانوے فیصد ہوگا‘ وہاں ’سوشل میڈیا‘ کے اثرات بھی اتنے ہی زیادہ اور فوری ہوں گے۔

سرسری طور پر برطانیہ کی سیاسی صورتحال‘ شرح خواندگی اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد کے بارے جاننے کے بعد آزاد و شفاف عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق اُن جاری کوششوں کا احوال بھی جان لیجئے جن میں امریکی سوشل میڈیا کا ایک معروف ادارہ ’فیس بک(facebook)‘ برطانیہ سے تعاون کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں ’فیس بک‘ کے تین کروڑ دس لاکھ سے زیادہ اکاونٹ ہولڈرز ہیں یعنی برطانیہ کی نصف آبادی ’فیس بک‘ استعمال کرتی ہے۔ عام انتخابات سے قبل ہی ’فیس بک‘ نے ایسے سینکڑوں ہزاروں اکاونٹس (کھاتے) ختم (ڈیلیٹ) کر دیئے ہیں جو فرضی ناموں یا مشکوک شناخت کے ساتھ بنائے گئے تھے اور صرف اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ نو مئی سے برطانوی اخبارات میں ’دس ایسے رہنما اصولوں‘ کی تشہیر بھی شروع کردی ہے جن کی بنیاد پر ’اصلی اور جعلی خبروں‘ کے درمیان تمیز کی جا سکے گی۔ 

کسی امریکی ادارے کی برطانیہ سے اِس قدر دلی محبت کا اظہار اپنی جگہ اہم بھی ہے اور ایک الگ موضوع بھی لیکن اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو آئندہ برس ہمارے ہاں بھی عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ’فیس بک‘ نے جو دس اصول برطانیہ میں ’اصلی اور جھوٹی خبر‘ کی پہچان کے لئے وضع کئے ہیں اگر اُنہیں فیس بک کے پاکستانی صارفین بھی سمجھ لیں تو وہ صرف عام انتخابات ہی کے موقع پر کارآمد ثابت نہیں ہوں گے بلکہ ’فیس بک‘ صارفین قومی اہمیت کے حامل دیگر معاملات کے بارے میں ’پراپگنڈے‘ کی نذر نہیں ہوں گے اور ’عوامی رائے‘ کی آڑ میں منشتر گمراہ کن خیالات (وار) سے باآسانی محفوظ رہ سکیں گے۔
’فیس بک‘ انتظامیہ کے تین بنیادی اہداف ہیں سب سے پہلے تو وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی خدمات کا غلط استعمال کرنے کا اِمکانات کم سے کم ہوں۔ فیس بک کسی ملک کے داخلی معاملات‘ عام انتخابات یا سیاست پر منفی طور پر اثرانداز ہونے کے لئے استعمال نہ ہو اُور تیسرا یہ کہ فیس بک صارفین فرضی اُور جعلی خبروں (اطلاعات) کی اَزخود تصدیق کرنے کے قابل ہو جائیں لیکن یہ تینوں بنیادی اہداف اُس وقت تک حاصل نہیں ہوں گے جب تک فیس بک صارفین اپنی ’آن لائن‘ موجودگی کے ’ہر ایک پل‘ کا سوچ سمجھ کر استعمال نہیں کرتے۔ 

کیا پاکستان میں انٹرنیٹ خواندگی اور احساس ذمہ داری شعور کی اُن بلندیوں کو چھو رہا ہے‘ جس کا ’فیس بک انتظامیہ‘ تصور کئے بیٹھی ہے اور چاہتی ہے ۔۔۔ 1: کسی بھی خبر کی ’ہیڈلائن‘ سے فوری متاثر نہ ہوں کیونکہ جعلی خبروں کو مشتہر کرنے کے عموماً دلچسپ عنوانات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ 2: صرف خبریت پر مبنی مواد ہی کو نہ پڑھا جائے بلکہ جس ذریعے (ویب سائٹ) سے خبر آ رہی ہے اُس کا ’ایڈریس‘ بھی نوٹ کیا جائے۔ لہٰذا ایسی کسی خبر یا اطلاع کا اعتبار نہ کیا جائے جو غیرمعروف یا مشکوک ویب سائٹ سے آ رہی ہو۔ 3: اِس بات کی تسلی کرلیں کہ جس کسی نے بھی خبر یا تجزیہ تحریر کیا ہے وہ قابل اعتماد اور قابل بھروسہ ہونے کے ساتھ معلوم لکھاری ہے۔ فیس بک کے کسی صارف (اکاونٹ) کے بارے جاننے کے لئے ’اُس سے متعلق (about)‘ کی ذیل میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ 4: جعلی یا فرضی ناموں سے بنائی جانے والی ’نیوز ویب سائٹس‘ کی ساخت پیشہ ورانہ نیوز سائٹس کے مقابلے کم جاذب نظر ہوتی ہے۔ کسی خبر کی املا (الفاظ و بیان) میں اگر غلطیاں پائی جائیں تو سمجھ لیں کہ اِس کا مآخذ پیشہ ورانہ اور مبنی بر صداقت نہیں۔ 6: جعلی یا فرضی خبروں کے ساتھ استعمال ہونے والی تصاویر سے بھی اُن کی شناخت ممکن ہے۔ عموماً ایسی خبروں کے ہمراہ تصاویر کو ایک دوسرے سے ملا کر استعمال کیا گیا ہوتا ہے یا پھر درست تصاویر کا غلط موضوعات کے بیان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تصاویر کے اصل مآخذ (سورس) کے بارے میں تحقیق کرنے سے بھی خبر کی اصلیت معلوم ہو سکتی ہے۔ 6: کسی خبر میں واقعات کے رونما ہونے کی تاریخیں یا ماضی کے حوالہ جات بھی اُس کی تصدیق یا اصلیت کا ثبوت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا خبروں میں دی گئی تاریخیں اور اُن کی مناسبت سے رونما ہونے والے واقعات کے بارے تھوڑی سی تحقیق سے اُن کی اصلیت باآسانی معلوم کی جا سکتی ہے۔ 7: خبر کی تخلیق میں جن ذرائع کا استعمال بطور حوالہ دیا گیا ہوتا ہے اُن کی جانچ کرنے سے بھی سچائی کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی خبر مستند ذرائع سے نہیں دی جا رہی تو صحافتی دنیا میں کوئی بھی ایسی خبر لائق بھروسہ نہیں ہوتی۔8: کسی ایک خبر کے بارے میں ابلاغ کے دیگر ذرائع کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر کوئی خبر صرف ایک ہی ذریعے سے آ رہی ہو اُور اُس کے بارے میں دیگر ذرائع ابلاغ خاموش ہوں تو ایسی خبر کے حقائق مشکوک اور یک طرفہ ہوتے ہیں۔ 9: بسا اوقات فرضی یا جعلی خبریں مزاح کے قریب ہوتی ہیں اور مزاحیہ یا مضحکہ خیز تاثر سے بھرپور ہوتی ہیں۔ کسی خبر کا لب و لہجہ اور سنجیدگی سے الفاظ کا استعمال بھی اِسے قابل بھروسہ بنانے کے اجزأ میں شامل ہوتا ہے۔ 10: آن لائن ہوتے ہوئے (انٹرنیٹ پر) جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ کسی خبر کا مطالعہ کرتے ہوئے اُس کے مختلف پہلوؤں کا ’تنقیدی‘ طور پر جائزہ لیں اور دوسروں کی دیکھا دیکھی (ٹرینڈ کو فالو کرتے ہوئے) بناء تحقیق‘ تصدیق اور ذاتی طور پر اطمینان کے بغیر کسی بھی صورت میں کسی صارف تک پہنچنے والی خبر (پوسٹ‘ اطلاع‘ تصویر یا ویڈیو) سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس بالخصوص ’فیس بک‘ پر مزید پھیلانے (share) یا اُس کی مزید تشہیر نہ کی جائے!

No comments:

Post a Comment