ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
آخری موقع!
خیبرپختونخوا میں تعلیمی انقلاب کے لئے ’ہنگامی حالات‘ کے ثمرات بڑے شہروں میں تو دیکھے جا سکتے ہیں لیکن صوبے کے پچیس اضلاع کے دور اُفتادہ علاقوں میں صورتحال جوں کی توں (ناقابل بیان) ہے جہاں سرکاری تعلیمی اداروں بالخصوص پرائمری و سیکنڈری سکولوں کی عمارتیں خاطرخواہ حکومتی توجہ سے محروم ہیں۔ دس مئی کو ’’آخری سال‘‘ کے عنوان سے خیبرپختونخوا کے پرائمری و سیکنڈری (بنیادی و ثانوی) تعلیمی امور کے لئے مختص مالی وسائل میں اضافے اور فیصلہ سازی کے عمل میں ترجیحات کا ذکر کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومت آخری سال کو ’آخری موقع‘ سمجھے یا نہ سمجھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ چار سال قومی سیاست پر پارٹی کی مرکزی قیادت کے پیچھے چلنے والوں کے پاس ایک سال سے بھی کم عرصے کی مہلت باقی ہے۔
دانشمند وہ نہیں ہوتا جو خود غلطی نہ کرے بلکہ دوسروں اور اپنی غلطیوں سے حاصل اسباق پیش نظر رکھنے والا سرخرو ہوتا ہے اور سیاست میں عوامی مقبولیت کا معیار وہ بظاہر چھوٹے امور بھی بن جاتے ہیں‘ جن کی جانب دیگر مصروفیات میں توجہ نہیں رہتی!
شعبۂ تعلیم بالخصوص پرائمری تعلیم کی بہتری کے نام پر غیرترقیاتی اَخراجات کم کرنے میں صوبائی حکومت کامیاب ہو سکتی تھی لیکن بجائے غیرتدریسی افرادی بوجھ کم کرنے کے محکمے نے بالواسطہ اور بلاواسطہ ایسے مشیروں اور ماہرین کی خدمات حاصل کیں جن کا مقصد صرف اور صرف اعدادوشمار جمع کرنا تھا۔ کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں کہ خیبرپختونخوا کے محکمۂ تعلیم میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد ملازمین ہیں اور اِن ملازمین سے کام لینے کے لئے بھی مزید ملازمین رکھنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے! دست بستہ معذرت ہے کہ ’’آخری سال‘‘ کے عنوان سے کالم ضلع چارسدہ کی تحصیل شبقدر کے علاقے ’مٹہ مغل خیل‘ کے رہنے والوں کے زخموں پر نمک پاشی ثابت ہوا لیکن اگر وہ ایک تسلسل سے قبل ازیں لکھی گئی تحریروں کو اپنے حافظوں میں محفوظ رکھتے تو ’گلہ مند‘ ہونے کی نوبت ہی نہ آتی بہرحال مٹہ مغل خیل کی نمائندگی کرنے والوں نے بذریعہ برقی مکتوب (اِی میل) ’گورنمنٹ پرائمری سکول مٹہ مغل خیل‘ کی خستہ حالی اور بنیادی سہولیات کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے درجنوں ایسی تصاویر اور ویڈیوز ارسال کی ہیں جن میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ 1971ء میں تعمیر ہونے والے اِس سکول کی عمارت ناقابل استعمال ہے اور اِس حد تک بوسیدہ ہو چکی ہے کہ اِس سے استفادہ کرنا طالبعلموں اور اساتذہ کے لئے کسی بھی صورت محفوظ نہیں۔
چھتوں میں سوراخ‘ اُکھڑی ہوئی کھڑکیاں‘ دَروازے‘ ٹوٹ پھوٹ کا شکار فرش‘ کھلے آسمان تلے دو سو سے زائد بچوں کے ’کلاس رومز‘ پینے کے پانی اُور بیت الخلاء جیسی غیرمعیاری و ناکافی سہولیات اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ پالیسی سازی‘ کاغذی کاروائی‘ اَعدادوشمار جمع کرنے اُور اعدادوشمار سے اَخذ کی جانے والی معلومات (لائحہ عمل) کے مراحل میں کہیں نہ کہیں بہت بڑی کمی (خامی) رہ گئی ہے۔ سکول انتظامیہ (ہیڈماسٹر) کی جانب سے ’یکم جنوری دوہزار سترہ‘ کو تحریری طور پر متعلقہ حکام (ایس ڈی اِی اُو‘ اُور اے ایس ڈی اِی اُو) کو بعنوان ’’پیشگی اطلاع برائے بوسیدہ عمارت‘‘ ارسال کر دی گئی ہے جس میں ’جی پی ایس مٹہ مغل خیل‘ میں سات جماعتوں کے لئے متبادل جگہ فراہم کرنے اور نئے کمروں کی تعمیر کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے لیکن ایک سو بیس دن (چار ماہ) سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی متعلقہ حکام کی توجہ سرکاری پرائمری سکولوں کی جانب مبذول نہ ہو سکی!
بنیادی و ثانوی محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا نے 16 اپریل 2014ء کو ’انڈی پینڈنیٹ منیجمنٹ یونٹ (آئی ایم یو)‘ قائم کیا‘ جبکہ اِس شعبے نے ’ماہ فروری دوہزار چودہ‘ کے پہلے ہفتے سے کام کرنا شروع کر دیا تھا اُور حسن اتفاق یہ بھی ہے کہ پاکستان میں برطانوی حکومت کے نمائندہ ادارے ’برٹش کونسل‘ کے حاضرسروس اور اِس سے وابستہ رہنے والوں کی بڑی تعداد اِس یونٹ کا حصہ بنی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے من پسند افراد کے ’سی ویز‘ سامنے رکھتے ہوئے مختلف عہدوں کے لئے بھرتیوں کو مشتہر کیا گیا اور ظاہر ہے کہ وہی ’ماہر‘ مطلوبہ قابلیت کے معیار پر پورا اُتر سکتے تھے جو منتخب ہوتے چلے گئے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن محکمۂ تعلیم کی برٹش کونسل سے قربت اور اربوں روپے اساتذہ کی تربیت پر خرچ کرکے برٹش کونسل کو مالی فائدہ پہنچانے اور برٹش کونسل کے حاضر سروس ملازمین کی خدمات سے استفادہ کرنے سے متعلق بدعنوانی کے کیسز سامنے آئیں گے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں حزب اختلاف کم سے کم یہ سوال تو پوچھے گی کہ محکمہ تعلیم بشمول پرائمری وسیکنڈری سکولوں میں کتنا غیرتدریسی عملہ بھرتی کیا گیا؟ برٹش کونسل سے تربیتی معاہدے کی تفصیلات اور برٹش کونسل کے حاضر اور سابق کتنے ملازمین کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں؟
نگرانوں پر نگران ادارے ’آئی ایم یو‘ کے قیام کا مقصد ’28 ہزار‘ سرکاری سکولوں کی نگرانی اور اُن سے متعلق اعدادوشمار جمع کرنا تھا تاکہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی حاضری‘ طلباء و طالبات کی تعداد‘ نتائج اور سہولیات کا معیار یکساں بنیادوں پر بہتر بنایا جا سکے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اب تک ’آئی ایم یو‘ نے پانچ سو نگرانوں (مانیٹرنگ اسسٹنٹس) کا چناؤ کیا ہے۔ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفسیرز کی تربیت مکمل کر لی گئی ہے۔ مانیٹرنگ اسسٹنٹس کی تربیت مکمل کی لیکن اِس پوری کوشش سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کس قدر مشکوک ہو جاتے ہیں اگر کوئی ایک بھی سکول ایسا پایا جائے‘ جس کی عمارت ناقابل استعمال اور جہاں سہولیات کی مقدار و معیار ناقابل یقین حد تک کم ہو!؟
شبقدر کا مذکورہ گورنمنٹ پرائمری سکول قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 8 (چارسدہ ٹو) اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے 21 (چارسدہ فائیو)‘ اور ’پی کے 22‘ (چارسدہ سکس) کا حصّہ ہے۔ گیارہ مئی دوہزار گیارہ کے عام انتخابات (ٹھیک چار سال قبل یہاں سے) قومی اسمبلی کی نشست پر قومی وطن پارٹی (شیرپاؤ) جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر یہاں سے قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کے نامزد اُمیدوار کامیاب ہوئے اور یہ دونوں جماعتیں خیبرپختونخوا کی موجودہ صوبائی حکومت کا حصہ ہیں۔
کسی ایسے انتخابی حلقے کا ’پرائمری سکول‘ کس طرح ’نظرانداز‘ ہو سکتا ہے جبکہ وہاں سے تعلق رکھنے والے دو صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کا رکن اقتدار کا حصہ ہوں؟ تعجب خیز امر یہ بھی ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں سہولیات کی نگرانی کرنے والے ایک سے زیادہ صوبائی حکومت کے اداروں کی موجودگی کے باوجود کس طرح ’آئی ایم یو کوڈ نمبر 12975‘ کے تحت پرائمری سکول خستہ حالی (بوسیدگی) کی تصویر ہو سکتا ہے؟
No comments:
Post a Comment