ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم: ترجیحی منظرنامہ!
خیبرپختونخوا حکومت نے درس و تدریس کے عمل کو ’انقلابی خوبیوں‘ سے روشناس (مزین) کرنے کے لئے کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ پر مبنی ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ بطور بنیادی اسلوب متعارف کرانے کا نہ صرف فیصلہ بلکہ اِس لائحہ عمل کے لئے 4ارب تیس کروڑ روپے سے زائد کی خطیر رقم آئندہ مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) کے بجٹ میں مختص کر دی جائے گی۔
خیبرپختونخوا کی تاریخ کے اِس سب سے بڑے اور غیرمعمولی ’ترقیاتی منصوبے‘ میں برق رفتار انفارمیشن اور کیمونیکشن ٹیکنالوجیز پر بھروسہ اُور اِس جدید اَسلوب کو متعارف کرانے سے تعلیمی اِداروں کے روائتی رکھ رکھاؤ اُور عمارتی ڈھانچوں (ظاہری ناک نقشے) میں نمایاں تبدیلی آئے گی لیکن سوال یہ ہے کہ انفارمیشن و کیمونیکشن ٹیکنالوجیز کے ذریعے درس و تدریس دینے والے اساتذہ (افرادی قوت) کہاں سے آئیں گے؟ خیبرپختونخوا کے موجودہ (کم وبیش) ایک لاکھ چوبیس ہزار اساتذہ کی ستر فیصد تعداد انفارمیشن و کیمونیکشن ٹیکنالوجیز سے نابلد ہیں اور اِسی بات کا احساس کرتے ہوئے ’اساتذہ کی تربیت‘ کا بھی بطور خاص اہتمام کیا جا رہاہے۔ یعنی چار ارب تیس کروڑ روپے کا ایک بڑا حصہ اساتذہ کی تربیت پر خرچ ہو جائے گا! تو معلوم ہوا کہ نئی حکمت عملی سے اگر کسی اور کا فائدہ (بھلا) ہو یا نہ ہو لیکن اساتذہ کی تربیت کا اہتمام و انتظام کرنے والوں کی قسمت ضرور بدلنے جا رہی ہے! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت اپنے آخری مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے ایک ایسی حکمت عملی پیش کرے جسے جاری رکھنا آنے والی حکومتوں کے لئے ممکن نہ ہو؟ چار سال اساتذہ کی تربیت پر اربوں روپے خرچ کرنے اور برطانوی حکومت کے ادارے ’برٹش کونسل‘ یا اِس جیسے دیگر غیر ملکی اداروں کو منتقل کرنے سے حاصل نتائج پر غور کرنا کس کی ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا یہ بہتر و پائیدار نہ ہوتا کہ یکایک‘ فوراً اور آن کی آن تعلیمی نظام کی اس قدر بڑے پیمانے پر اصلاح کی بجائے شعبۂ تعلیم میں انفارمیشن و کیمونیکشن ٹیکنالوجیز کا مرحلہ وار اطلاق کیا جاتا؟ توانائی بحران اور دور دراز علاقوں میں بجلی کی فراہمی کے ناقابل اعتماد نظام سے کس طرح‘ اتنی بڑی توقعات اور اُمیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟
یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ آنے والا دور ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ ہی کا ہوگا‘ جس پر انحصار بڑھنے کے ساتھ تعلیمی اداروں اور درس و تدریس کے اوقات کی پابندی بھی بتدریج کم ہوتی چلی جائے گی لیکن یہ عمل بیک جنبش قلم (آنکھ چھپکتے) ممکن نہیں اور نہ ہی محض سرمائے کے زور میں ایسا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ترقی کا ’پائیدار پہلو‘ یہ ہوتا ہے کہ اِسے مرحلہ وار‘ حقائق سے ہم آہنگ اور دستیاب افرادی و مالی وسائل کے مطابق ہونا چاہئے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا قبلہ درست کرنے کے لئے نجی شعبے کے عملی تجربے اور (حاصل) تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر نجی سکول اپنے وسائل اور اپنی ضروریات کا تعین کرکے اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے اور اِس کے لئے موسم گرما یا سرما کی طویل یا ہفتہ وار تعطیلات سے استفادہ کیا جاتا ہے کیا سرکاری تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد کی اُن کے متعلقہ شعبوں میں تربیت کا انتظام تعطیلات کے دوران ممکن نہیں ہوسکتا؟ کیا نصاب کو عملی تجربات اور مطالعاتی دوروں سے آسان نہیں بنایا جاسکتا؟ نجی تعلیمی اداروں کی طرح سرکاری سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کے قیمتی وقت کو تعطیلات کی نذر کرنے کی بجائے اُنہیں اندرون یا بیرون ملک کیوں نہیں بھیجا جا سکتا؟ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے میدانی (گرم) علاقوں میں ستائیس مئی سے اکتیس اگست (تین ماہ پانچ دن) جبکہ پہاڑی (سرد) علاقوں میں یکم جولائی سے اکتیس جولائی (ایک ماہ) کی تعطیلات کا اعلان کیا گیا ہے۔ سبب جو بھی ہو لیکن تعلیمی عمل مہینوں معطل رہنے اور اِس دورانیئے سے بہتر و مفید عملی استفادے کے بارے میں سوچ بچار اگر ماضی کی حکومتوں کا طرزعمل نہیں رہا تو کیا ’روایت پرستی‘ میں معاملات (وقت کا ضیاع) جوں کے توں ہوتا رہے؟ گرمی ہو یا سردی‘ ہڑتال ہو یا احتجاج‘ تعطیلات کا کوئی مقصد (جواز) ہو ہی نہیں سکتا مگر اِس کی ضرورت اُن سرمایہ داروں کو رہتی ہے جو ایک مصروف ترین سال کے چند ہفتے اہل خانہ کے ہمراہ کسی پرفضا مقام یا بیرون ملک بسر کرنے کو معمول بنائے ہوئے ہیں! موسمی شدت سے بچنے کے لئے تعلیمی اداروں کے اُوقات تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔
سکولوں کو آمدورفت کے لئے سفری سہولیات میں اضافہ ممکن ہے۔ پرفضا مقامات کی آب وہوا کو درس وتدریس کے عمل سے زیادہ معطر بھی تو بنایا جاسکتا ہے؟ آخر فیصلہ سازوں نے یہ نتیجہ کس سائنسی بنیاد (اصول) پر اخذ کر لیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے اساتذہ کو ایک جیسی تربیت چاہئے اور سبھی کی صرف انگریزی مضمون ہی میں مہارت بڑھانے سے ضرورت پوری اور معیار تعلیم بہتر ہو جائے گا؟
شعبۂ تعلیم کے مستقبل اُور مستقبل کی ضروریات پر نظر رکھتے ہوئے آج کی تاریخ اور آج کی تقاضوں کا احساس و ادراک بھی ترجیح ہونی چاہئے۔
سکولوں کو آمدورفت کے لئے سفری سہولیات میں اضافہ ممکن ہے۔ پرفضا مقامات کی آب وہوا کو درس وتدریس کے عمل سے زیادہ معطر بھی تو بنایا جاسکتا ہے؟ آخر فیصلہ سازوں نے یہ نتیجہ کس سائنسی بنیاد (اصول) پر اخذ کر لیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے اساتذہ کو ایک جیسی تربیت چاہئے اور سبھی کی صرف انگریزی مضمون ہی میں مہارت بڑھانے سے ضرورت پوری اور معیار تعلیم بہتر ہو جائے گا؟
شعبۂ تعلیم کے مستقبل اُور مستقبل کی ضروریات پر نظر رکھتے ہوئے آج کی تاریخ اور آج کی تقاضوں کا احساس و ادراک بھی ترجیح ہونی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment