ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تکنیکی اُلجھنیں!
شعبۂ صحافت سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے ’عکاسی (فوٹوگرافی)‘ کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش کے ساتھ چند ایسے تکنیکی امور کے بارے سوالات پوچھے ہیں‘ جن کے بنیادی نکات سے لیکر ماہرانہ تفصیلات تک قریب سبھی پہلوؤں کا احاطہ بذریعہ تحریر‘ تصویر اور فلم (ویڈیو ٹیوٹوریلز) باآسانی ’گوگل (انٹرنیٹ سرچ)‘ کے ذریعے پڑھے‘ دیکھے‘ سنے یا پھر اپنے کمپیوٹر لیب ٹاپ یا موبائل فون میں محفوظ بھی کئے جا سکتے ہیں تاکہ ’بار بار دیکھے‘ جا سکیں یا پھر اِن کا حسب ضرورت دوسروں سے تبادلہ (شیئر) کیا جائے‘ تاہم جو بات طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو عموماً معلوم نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ ’’انٹرنیٹ پر تکنیکی (اصطلاحی) موضوعات کی تلاش (سرچ) کا مؤثر طریقہ کیا ہے؟‘‘
عجب یہ بھی نہیں کہ ’انٹرنیٹ‘ سے تحریر و تحقیق اور درس وتدریس میں مدد (مؤثر استفادہ) کے اصول بھی خود انٹرنیٹ پر ہی مثالوں کے ساتھ موجود (دستیاب) ہیں لیکن انہیں سمجھنے اور اپنے ’آن لائن‘ ہر ایک منٹ کو ’کارآمد‘ بنانے کے لئے طلباء و طالبات کی رہنمائی ضروری ہے۔ شعبۂ تعلیم کے فیصلہ سازوں سے نصاب مرتب کرنے اُور تدریس و تربیت کے مراحل میں رہنماؤں (اساتذہ) کو عہدحاضر کے تقاضوں (ضروریات) کا ادراک کرنا ہوگا کہ کس طرح یہ بات ضروری نہیں رہی کہ دنیا کو ’گلوبل ویلیج‘ بنانے والا ’انٹرنیٹ‘ صرف ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ پڑھنے والوں ہی کے لئے متعلقہ و بنیادی مضمون ہو بلکہ ’انٹرنیٹ‘ تو ہر ایک مضمون اور علم کی تمام شاخوں کا احاطہ کرنے والی ایک ایسی سہولت ہے جو سارا سال‘ چوبیس گھنٹے بناء کسی تعطیل اور معاوضے کے ’حاضر جناب‘ رہتی ہے اور بالکل ’اُس جناتی مخلوق (جادو)‘ جیسی ہے جسے ’چراغ رگڑنے‘ سے فوراً طلب کیا جاسکتا ہے اور وہ تابع فرمان کردار کوئی بھی کام ’آن کی آن‘ میں یہ کہتے ہوئے سرانجام دے دیتا ہے کہ ’’جو حکم میرے آقا!‘‘
انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ہماری نوجوان نسل کو اِس حد تک اپنا غلام (اسیر) بنا دیا ہے کہ انہیں اپنا قیمتی وقت ’آن لائن‘ تفریح طبع کی نذر کرنے جیسے خسارے کا احساس بھی نہیں۔ رہی سہی کسر موبائل فونز کمپنیوں کی جانب سے گھنٹوں باتیں یا لاتعداد مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) کے تبادلے جیسی ’کم قیمت‘ سہولت کی فراہمی نے پوری کر دی ہے۔ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس کا چسکا (ذائقہ) ہی ایسا ہے کہ اِس میں وقت گزرنے (دن رات) کا اِحساس نہیں ہوتا اُور وہ ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ جو ہماری غلام (تابع اور دسترس میں) ہونی چاہئے تھی لیکن صرف اور صرف رہنمائی اور معلومات نہ ہونے کے سبب (بدقسمتی) سے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہے اور لمحۂ فکریہ یہ بھی ہے کہ جب موبائل خراب ہو تو کہا جاتا ہے کہ بچے نے خراب کیا ہے یا پھر جب یہ پوچھا جائے کہ بچے کو کس نے گمراہ (خراب) کیا تو جواب دیتے ہیں کہ موبائل فون نے! کوئی بھی اپنی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں!
بناء دماغ (عقل) ٹیکنالوجی کسی تیز دھار آلے کی طرح ’خیرمحض‘ ہے جس سے مفید استفادہ اِس کے صارف کی نیت نہیں بلکہ عمل و مرضی پر منحصر ہے تو کیا ہماری نوجوان (نئی) نسل کو تمباکو نوشی اُور دیگر مضرصحت اشیاء سے پرہیز کی تلقین (بطور پالیسی) کرنے والوں نے کبھی اِس ضرورت کو محسوس کیا کہ کم معلومات کی وجہ سے اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو موبائل فون یا انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ’’کم عمری اُور کم علمی‘‘ دونوں ہی ایسی خطرناک صورتیں (جواز) ہیں کہ اِن سے ’’بچوں‘‘ کو دُور رکھنے ہی میں دانشمندی ہے۔ یہاں بچوں کی اصطلاح کا اطلاق صرف اٹھارہ برس سے کم عمروں یا نابالغوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر اُس عمر کے افراد اِس ذیل میں شمار کئے جا سکتے ہیں جو ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ سے بناء علم (واضح مقصد) کچھ اِس طرح سے (اندھوں کی طرح) استفادہ کر رہے ہوں کہ نہ صرف اپنا بلکہ دوسروں کا قیمتی وقت‘ صحت‘ اخلاقیات اور وسائل بھی ضائع کرنے کا سبب بن رہے ہوں لیکن انہیں اپنے اِس طرز عمل پر رتی بھر ’اِحساس ضیاع (ندامت)‘ بھی نہ ہو۔
بذریعہ ’برقی مکتوب (اِی میل)‘ سوال پوچھا گیا ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ کا ’’4k (فور کے)‘‘ فارمیٹ کیا ہوتا ہے اور اگر ہم اِس ویڈیو ریکارڈنگ فارمیٹ (طریق) کا موازنہ ’’Full HD (فل ایچ ڈی)‘‘ سے کریں تو دونوں میں فرق کیا ہوگا؟ چونکہ آج کل ہر موبائل فون اُور ڈیجیٹل سنگل لیز ریفلیکس (DSLR) کیمرے میں ’ویڈیو ریکارڈنگ‘ کی سہولت (آپشن) دیا گیا ہوتا ہے جس کے ذریعے تصاویر کے ساتھ ویڈیو بھی بنائی جا سکتی ہے اِس لئے ’ڈی ایس ایل آرز‘ کے استعمال کا رجحان فلمبندی (ویڈیوگرافی) میں روز بہ روز بڑھ رہا ہے اور بالخصوص ’صحافتی ٹیلی ویژن (ویڈیو جرنلزم)‘ اور ’کمرشلز (ویڈیو اشتہارات)‘ کی دنیا میں ’ڈی ایس ایل آرز‘ پر اعتماد کیا جانے لگا ہے کیونکہ ’ڈی ایس ایل آرز‘ کم دورانیئے کے ’ویڈیو کلپ‘ بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور اِن نسبتاً کم قیمت آلات کی بدولت خوبیوں سے مزین ’آواز و تصویر‘ حاصل کرنا ممکن ہو چکی ہے۔
’ڈی ایس ایل آر‘ کیمروں کے ذریعے بنیادی طور پر تین فارمیٹس کا استعمال ہو رہا ہے۔ کسی بھی مقصد کے لئے کی جانے والی فلم بندی (ویڈیوگرافی) کے معیار کی پیمائش ’’ریزولوشن (resolution)‘‘ کی کسوٹی پر کیا جاتا ہے جبکہ یہ ’ریزولوشن‘ تصویر میں روشنی یعنی مختلف رنگوں کے نکتوں (ڈاٹس) کی تعداد سے ظاہر یا منتخب کی جاتی ہے اور ہر ایک نکتے کو پکسل (pixel) کی تعداد سے بیان یا سمجھا جاتا ہے۔ ایسی فلم بندی جو 1280x720 ریزولوشن پر فلمائی جائے اُسے ’’720P یا ہائی ڈیفینیشن (ایچ ڈی)‘‘ ویڈیو کہا جاتا ہے۔ 1920x1080 پکسلز ریزولوشن کی ویڈیو کو ’فل ہائی ڈیفینیشن (ایف ایچ ڈی)‘‘ جبکہ 3840x2160 پکسلز ریزولوشن پر بنائی گئی ویڈیو کو ’فور کے (4K)‘ کہا جائے گا۔ایک اُور نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ جب ہم پکسلز ریزولوشن کو اعداد جیسا کہ ’’1280x720‘‘ سے ظاہر کرتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ ویڈیو کی ہر ایک تصویر (اسٹل فریم) ٹیلی ویژن کی چوڑائی (width) میں 1280پکسلز جبکہ لمبائی (height) میں 720 پکسلز (ڈاٹس) پر مشتمل ہوگی۔ اگر اِس عدد کے ساتھ ’پی (P)‘ کے حرف کا اضافہ بھی شامل ہو تو اِس کا مطلب ’پروگریسیو‘ ہوگا جو ’انٹرلیس (interlace)‘ ویڈیو کے متضاد ہوتا ہے۔ اگر مقصد یہ ہو کہ ویڈیو کلپ کو بعدازاں اُس کی اصل رفتار سے کم یعنی ’سلوموشن‘ میں دیکھنا ہو تو ’انٹرلیس‘ شوٹنگ فارمیٹ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تیسری تکنیکی اصطلاح ’ویڈیو گرافی‘ کی کوالٹی (آوٹ پٹ) پر اثرانداز ہوتی ہے۔
’’ڈیجیٹل کیمروں‘‘ سے چوبیس‘ تیس یا ساٹھ فریم فی سکینڈ (ایف پی ایس) پر شوٹنگ ہوتی ہے۔ پاکستان میں صحافتی ٹیلی ویژن اُور دستاویزی فلمیں یا ٹیلی ویژن ڈرامے بنانے والے ’چوبیس فریمز فی سیکنڈ‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر ساٹھ فریم فی سکینڈ پر ویڈیو شوٹ کی جائے اور اُسے چوبیس فریم فی سکینڈ پر ’پلے بیک (playback)‘ کیا جائے تو ایسی فلم ’سلوموشن‘ میں چلتی محسوس ہوگی۔ بطور اصول کوئی ایک ’فریم فی سکینڈ‘ قاعدہ ایسا نہیں جسے حتمی سمجھا جائے لیکن اِس چوائس (انتخاب) کا انحصار ’فلم ساز‘ کی ذاتی پسند‘ ترجیح (مقصد) اُور دستیاب آلات اُور وسائل پر ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment