ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
رائیگاں رائیگاں!
پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنانے کی ترغیب اور اِس مملکت خداداد کو قابل فخر بنانے کی سوچ ابوالاثر حفیظ جالندھری کے قلم سے بصورت ’قومی ترانہ‘ سامنے آئی‘ جس کے بعد سے ہر اعلیٰ و ادنی انتظامی ذمہ داریوں (عہدوں) کا حلف اٹھانے والے درحقیقت ’پاک سرزمین کو شاد باد‘ کرنے کا عہد کر رہے ہوتے ہیں لیکن اِس ہدف کے حصول کے لئے ہر شعبۂ ہائے زندگی میں درکار اتحادواتفاق کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی بڑی تعداد گھروں میں بیٹھ کر اپنی ہی تباہی و بربادی کا ’تماشا‘ دیکھنے پر اکتفا نہ کرتی۔ جس ملک میں تیس سے چالیس فیصد رجسٹرڈ ووٹرز ہی زحمت گوارہ کرتے ہوں‘ وہاں کسی نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے اور ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ قومی مفادات سے متعلق ترجیحات کا تعین کرنے کے بعد ’تبدیلی‘ کی خواہاں سبھی قوتوں (کرداروں) کی سیاسی جدوجہد کا پلیٹ فارم ایک ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی درپردہ قوت ایسی بھی گھات لگائے بیٹھی ہو جو ملک میں تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کی توانائیاں اور وسائل ’یکجا‘ ہونے نہ دے رہی ہو! اُور اُن تمام افراد کو اپنی الگ شناخت ظاہر کرنے پر اکسایا جا رہا ہو‘ جو قومی ترقی‘ سلامتی اور خوشحالی کا ایک جیسا تصور تو رکھنے کے باوجود سیاسی تگ و دو اُور منزل تک پہنچنے کے لئے سفر کی سمتیں الگ الگ متعین کر بیٹھے ہیں! پاکستان سے بڑھ کر کوئی دوسری شناخت بھلا کیا ہو سکتی ہے‘ اور اگر کسی ایک نکتے سے آغاز ہی کرنا ہے تو وہ ’انصاف‘ کے سوأ بھلا اُور کیا ہو سکتا ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان سے حالیہ دنوں میں رجوع کرنے والوں میں معروف گلوکار جواد احمد بھی شامل ہیں جنہوں نے باقاعدہ طورپر انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لئے کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہونے کی بجائے اِس بات کو ضروری سمجھا ہے کہ وہ اپنی الگ سیاسی جماعت تشکیل دیں‘ جس کی منظوری کے لئے درخواست دیتے ہوئے اُنہوں نے جملہ کاغذی کاروائی پوری کر لی ہے۔ یوں تو پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں اور ہر سیاسی جماعت کے پیچھے ایک ’قدآور‘ شخصیت کا سحر دکھائی دیتا ہے لیکن آئندہ عام انتخابات سے قبل ایک ایسی نئی سیاسی جماعت کا اضافہ جس کے غیرمتنازعہ خالق نوجوان نسل میں مقبول بھی ہوں تو اِس سے ’تبدیلی‘ کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا۔ روائتی سیاست کرنے والوں کا شروع دن سے ’طریقۂ واردات‘ یہی ہے کہ وہ کسی خاص انتخابی حلقے میں‘ کسی نومولود سیاسی جماعت یا سیاسی کارکنوں میں پھوٹ ڈال کر ’ووٹ بینک‘ تقسیم کر دیتے ہیں اور یوں انہیں انتخابی معرکے میں باآسانی جیت مل جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کے میدانی شہری اور پہاڑی بالائی علاقوں کی عمدہ مثال اِس سلسلے میں پیش کی جاسکتی ہے کہ جہاں گذشتہ نو عام انتخابات 1985‘ 1988‘ 1990‘ 1993‘ 1996‘ 1997‘ 1999‘ 2002 اور 2008 میں مسلم لیگ نواز قومی اسمبلی کی نشست پر صرف اِس وجہ سے کامیاب ہوتی رہی کیونکہ مخالف سیاسی جماعتیں نہ تو انتخابی اتحاد بنانے میں کامیاب ہو رہی تھیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے کارکنوں کے تحفظات (داخلی اختلافات) ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ایبٹ آباد سے قومی اسمبلی کی نشست جب اٹھائیس سال بعد کسی دوسری سیاسی جماعت کے حصے میں آئی تو معلوم ہوا کہ ترقیاتی منصوبوں سے لیکر انتظامی عہدوں پر تعیناتیوں تک معاملات ناقابل یقین حد تک خراب ہو چکے ہیں۔ تبدیلی اور اصلاح کا مطالبہ کرنے والوں کا ’ووٹ بینک‘ تقسیم ہونے سے بچانا سب سے بڑی ضرورت ہے اور اگر سیاسی جماعتیں بالخصوص ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی مرکزی و صوبائی قیادت اِس بات کا احساس کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ آئندہ (وقت مقررہ یا ممکنہ قبل ازیں) عام انتخابات کی صورت وہ خاطرخواہ (مطلوبہ) کامیابی مل سکتی ہے جو وفاق میں اُسے حکومت سازی کے قابل بنا سکے۔
’گوری کرت سنگھار‘ جیسے کئی مقبول نغموں سے شہرت پانے والے چھیالیس سالہ گلوکار جواد (پیدائش 29 ستمبر 1970ء) یونیورسٹی آف انجینرینگ لاہور سے تحصیل یافتہ ہیں اور خود بھی معلم ہیں جو شاید سیاست میں آنے کے بعد درس و تدریس کو جاری نہ رکھ سکیں۔ بہرکیف انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کا نام ’پولیٹکل فرنٹ‘ رکھتے ہوئے اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اُن کی سیاسی جدوجہد ’’عوام کو ان کے حقوق دلانے کی کوشش‘‘ ہوگی۔ سیاست میں معروف لوگ انتخابی طور پر کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن اُن کی وجہ سے سیاسی جماعتیں عوام کی توجہ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب بھی رہتی ہیں اور انہیں دلی مرادیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔ دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے حصہ لینے والے محترم جواد کے ہم عصر گلوکار ابرارالحق اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جواد بھی پاکستانی سیاست میں داخل ہونے کی منصوبہ بندی کرتے رہے اور انہوں نے اپنی اِس خواہش کا باضابطہ اظہار بھی کیا لیکن بالآخر وہ گھڑی آ گئی ہے جب انہوں نے سوچ سمجھ کر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کی بجائے اپنی پارٹی کی رجسٹریشن کے لئے باقاعدہ درخواست دی ہے! چند برس فلاحی کام کرنے اور بالخصوص شعبۂ تعلیم میں بہتری لانے کے لئے سرگرم جواد کے منہ میں بھی ’عام آدمی‘ اور ’غریب‘ جیسے الفاظ سن کر قطعی حیرت نہیں ہو رہی کیونکہ اب کوئی یہ تو کہنے سے رہا کہ وہ ملک میں ایک ایسی سیاسی جماعت بنانے جا رہا ہے جو سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرے گی!
اندیشہ نہیں بلکہ یقین ہے کہ محترم جواد کی نئی سیاسی جماعت بھی گنتی کے چند انتخابی حلقوں تک ہی محدود رہے گی کیونکہ اُن کے پاس پورے پاکستان میں اپنا پیغام گھر گھر پہنچانے کے لئے درکار وقت اور وسائل یا تجربہ نہیں اور جن شہری علاقوں میں اُن کی جماعت کو اُمیدوار میسر آ بھی جائیں گے تو وہ اُن پیشہ ور سیاست دانوں اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والے ماہرین کا مقابلہ ڈٹ کر نہیں کر پائیں گے جو انتخابی سیاست اور ضروریات سے آگاہ ہیں۔ یوں پاکستان میں تبدیلی لانے کی یہ انفرادی کوشش ’رائیگاں نہیں بلکہ رائیگاں رائیگاں جائے گی اور نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک مرتبہ پھر وہ ’ووٹ بینک‘ تقسیم ہو جائے گا‘ جس کا متحد رہنا ضروری ہے‘ بصورت دیگر روائتی سیاست کرنے والوں کی فتح ہوگی اور پاکستان کے اُس عام آدمی (ہم عوام) کی آنکھوں سے شکست کے آنسو گریں گے جہاں خوابوں کے قبرستان آباد ہیں!
No comments:
Post a Comment