ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاسی غلطیاں!
پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل میں ’سیاست‘ کی بجائے اگر ’انتظامی ضروریات (تقاضوں)‘ کو مدنظر رکھا جائے تو اِس سے عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات حل ہو سکتی ہیں‘ جمہوریت مضبوط و توانا اور جمہوری اداروں سے جڑی توقعات پوری ہونے کی بس یہی ایک صورت ہے لیکن کیا پاکستان میں کوئی مسئلہ بنا متنازعہ بنائے حل بھی ہوتا ہے؟
خیبرپختونخوا میں نئے صوبے کی تشکیل (اضافے) کا سب سے توانا مطالبہ ’صوبہ ہزارہ‘ کا قیام ہے‘ جو سات برس قبل ایک احتجاج اور اُس کے خونی انجام کے بعد تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے تو کیا اُمید کی جا سکتی ہے کہ ’تحریک صوبہ ہزارہ‘ کی قیادت اُس ایک مقصد سے ’’پرخلوص وابستگی‘‘ قائم رکھ پائے گی‘ جس کے لئے سات کارکنوں نے جام شہادت نوش کیا اور سینکڑوں زخمی آج بھی علیل یا معذور ہیں! یادش بخیر 12 اپریل 2010ء کے روز صوبہ ہزارہ کا مطالبہ کرنے والے نہتے مظاہرین پر باوردی اور بناء وردی تعینات پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کی۔ شہید ہونے والے مظاہرین کو پشت میں گولیاں لگیں لیکن ’عدالتی تحقیقاتی کمیشن‘ نے محض ایک صحافی کی یاداشت اور ’کراس فائرنگ‘ جیسے لفظ کے استعمال کو بنیاد بنا کر پورے مقدمے (حقائق) کی بساط لپیٹ دی! بناء سمجھے اور بناء احساس کئے انگریزی بولنے کے جنون میں کیا کسی ایک صحافی کا بیان کافی سمجھا جانا چاہئے تھا!؟ پاکستان میں اعلیٰ تحقیقاتی کوششوں کا انجام بخیر ایسا ہی ہوتا ہے کہ حکومت وقت پر دباؤ اور خون کے دھبے اُن ہاتھوں پر نہیں ہوتے جو درحقیقت اِس میں ملوث ہوتے ہیں۔
سات شہداء کے خون (سانحۂ اَیبٹ آباد) کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی جس میں تحریک صوبہ ہزارہ کے قائد بابا حیدر زمان سمیت موجودہ صوبائی حکومت سے تعلق رکھنے والے صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین و دیگر کئی رہنماؤں کے نام بھی اُسی ایف آئی آر میں شامل ہیں‘ جو اُس وقت کی صوبائی حکومت (عوامی نیشنل پارٹی) نے عصبیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’سربمہر (سیل)‘ کر دیا۔ ظاہر تھا کہ کوئی بھی حکومت اپنے ہی اقدام اور سرزد ہونے والی دانستہ یا غیردانستہ غلطی پر خود کو موردالزام نہیں ٹھہرائے گی۔ عجب ہے کہ ایف آئی آر میں احتجاج کرنے والوں کو نامزد تو کیا گیا لیکن اُس وقت کی ضلعی انتظامیہ بشمول اُن پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں فائرنگ ہوئی اُن کے نام ایف آئی آر کا حصہ نہیں۔ جب کمیشن کی جانب سے دونوں فریقین کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو پھر ’ایف آئی آر‘ صرف ایک فریق (تحریک صوبہ ہزارہ کے قائدین) کے خلاف کیوں درج کی گئی۔ کون بھول سکتا ہے کہ اُس وقت کے ڈی آئی جی ہزارہ امتیاز الطاف‘ ڈی پی اُو اقبال خان اُور ڈی سی اُو جو عینی شاہدین بھی ہیں لیکن اُن کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی گئی! اِس سانحے کے بعد ضلعی انتظامیہ تبدیل کی گئی‘ جس نے درپردہ ایسی سازشیں کیں کہ تحریک صوبہ ہزارہ تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی اور وہ قوت جو ہزارہ ڈویژن تو کیا نئے صوبوں کی تشکیل کی راہ ہموار کرتے ہوئے پورے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی تھی ’ہائی جیک‘ کر لی گئی! صوبہ ہزارہ کے خلاف سازشیں کامیاب ہوئیں اور آج بھی کامیاب ہو رہی ہیں!
چودہ مئی کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایبٹ آباد میں جلسۂ عام کا اعلان کیاتو ’تحریک صوبہ ہزارہ‘ نے ’8 نکات‘ پیش کئے اور کہا کہ وہ عمران خان کو کسی بھی صورت جلسۂ عام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اِس موقع پر داخلی و خارجی راستوں سمیت شہر کو ’’لاک ڈاؤن‘‘ کیا جائے گا۔ صوبائی حکومت جانتی تھی کہ ’صوبہ ہزارہ‘ کا مطالبہ اگرچہ راکھ ہے لیکن اِس کے اندر چنگاڑی موجود ہے جو سب کچھ جلا کر خاکستر کر سکتی ہے۔ راتوں رات اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ تحریک ہزارہ سے مذاکرات کریں اور تیرہ مئی کی رات گئے ’10نکاتی معاہدہ‘ طے پایا جسے اگر ’لالی پاپ‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ کسی ایسے معاہدے کی قانونی حیثیت کیا ہو سکتی ہے جو سفید کاغذ پر تحریر ہو اور جس پر نہ تو سرکاری مہر ثبت ہو اور نہ ہی وہ حکومتی لیٹرپیڈ پر ہو اور اُس پر گواہوں کے نام درج ہوں!؟
ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہو گیا ہے!؟
صوبائی حکومت عمران خان کا جلسہ منعقد کرانے میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن یہ کامیابی درحقیقت تحریک صوبہ ہزارہ کی ایک ایسی ناکامی ہے‘ جو اِس کا پیچھا کرتی رہے گی! تحریک صوبہ ہزارہ اور خیبرپختونخوا حکومت کے درمیان مذکورہ معاہدے میں ’صوبہ ہزارہ کے قیام‘ اور شہدائے بارہ اپریل کی ’ایف آئی آر‘ کی دو اہم شقیں جو کہ تحریک صوبہ ہزارہ (نامی سیاسی جماعت) کے منشور کا حصہ ہے کو اِس طرح منہا کر دیا گیا اور اس کی جگہ غیرمتعلقہ و ایسے غیرضروری امور شامل کر دیئے گئے جن کا تعلق صوبے کی بجائے وفاق سے ہے اُن پر دونوں فریقین نے زیادہ زور دیا۔
دونوں فریقین رضامند ہوئے اور ایک تحریری معاہدے کی صورت میں ضبط کر لیا گیا تاہم تحریک صوبہ ہزارہ کے بزرگ (معمر) قائد اِس مذاکراتی عمل میں شریک نہیں تھے اور جب اُن کے سامنے انگریزی زبان میں تحریر کردہ یہ معاہدہ پیش کیا گیا تو اُنہوں نے اصل منشور کے دو بنیادی نکات کو پس پشت ڈالنے پر اظہار برہمی کیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی! اگلی صبح ’ہزارہ ہاؤس‘ میں پرتکلف ناشتے کا اہتمام خبر نہیں تھی کیونکہ ہزارہ ہاؤس کی مہمان نوازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ناشتے میں سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر‘ ترجمان خیبرپختونخوا حکومت مشتاق غنی‘ رکن صوبائی اسمبلی سردار ادریس‘ ڈویژنل و ضلعی قیادت اور ضلعی انتظامیہ کے اہم کردار بھی اِس موقع پر موجود تھے جنہیں رخصت کے وقت تحائف بھی دیئے گئے اور مسکراہٹوں کے تبادلوں پر بات ختم ہوگئی! جب صبح کا ناشتہ گیارہ بجے تک اپنی خوشبوئیں (مہک) پھیلاتا رہے تو دماغ کسی ایسے ضمنی موضوع کی طرف کیونکر مرتکز ہو سکتا ہے جو بنیادی اہمیت کا ہو۔ بہرکیف ایک سوال کا جواب بذات خود دینے کی بجائے اسپیکر صوبائی اسمبلی نے نہایت ہی ذہانت سے ’گیند‘ جنرل سیکرٹری تحریک صوبہ ہزارہ سردار فدا کی طرف اچھال دی‘ جو پہلے ہی تنقید کا نشانہ بن رہے تھے اور ابھی اُس معاہدے پر روشنائی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ تحریک صوبہ ہزارہ کے داخلی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری تھیں!
صوبہ ہزارہ سے متعلق سانحۂ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو اُس وقت ’سپرئم کورٹ‘ میں چیلنجز نہ کرنا ایک ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ آج ’ہزارے وال قوم‘ بھگت رہی ہے۔ کسی ایسی تحریک کا مستقبل بھلا کیا ہو سکتا ہے جس کے قائدین کی سیاسی بصیرت ’طفلانہ‘ ہو اور جسے سات برس گزرنے کے باوجود بھی معلوم نہ ہو کہ اُنہیں صوبائی یا وفاقی حکومتوں سے کس چیز کا مطالبہ کیوں اور کس شدت (بنیاد) سے کرنا چاہئے۔
صوبائی حکومت عمران خان کا جلسہ منعقد کرانے میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن یہ کامیابی درحقیقت تحریک صوبہ ہزارہ کی ایک ایسی ناکامی ہے‘ جو اِس کا پیچھا کرتی رہے گی! تحریک صوبہ ہزارہ اور خیبرپختونخوا حکومت کے درمیان مذکورہ معاہدے میں ’صوبہ ہزارہ کے قیام‘ اور شہدائے بارہ اپریل کی ’ایف آئی آر‘ کی دو اہم شقیں جو کہ تحریک صوبہ ہزارہ (نامی سیاسی جماعت) کے منشور کا حصہ ہے کو اِس طرح منہا کر دیا گیا اور اس کی جگہ غیرمتعلقہ و ایسے غیرضروری امور شامل کر دیئے گئے جن کا تعلق صوبے کی بجائے وفاق سے ہے اُن پر دونوں فریقین نے زیادہ زور دیا۔
دونوں فریقین رضامند ہوئے اور ایک تحریری معاہدے کی صورت میں ضبط کر لیا گیا تاہم تحریک صوبہ ہزارہ کے بزرگ (معمر) قائد اِس مذاکراتی عمل میں شریک نہیں تھے اور جب اُن کے سامنے انگریزی زبان میں تحریر کردہ یہ معاہدہ پیش کیا گیا تو اُنہوں نے اصل منشور کے دو بنیادی نکات کو پس پشت ڈالنے پر اظہار برہمی کیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی! اگلی صبح ’ہزارہ ہاؤس‘ میں پرتکلف ناشتے کا اہتمام خبر نہیں تھی کیونکہ ہزارہ ہاؤس کی مہمان نوازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ناشتے میں سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر‘ ترجمان خیبرپختونخوا حکومت مشتاق غنی‘ رکن صوبائی اسمبلی سردار ادریس‘ ڈویژنل و ضلعی قیادت اور ضلعی انتظامیہ کے اہم کردار بھی اِس موقع پر موجود تھے جنہیں رخصت کے وقت تحائف بھی دیئے گئے اور مسکراہٹوں کے تبادلوں پر بات ختم ہوگئی! جب صبح کا ناشتہ گیارہ بجے تک اپنی خوشبوئیں (مہک) پھیلاتا رہے تو دماغ کسی ایسے ضمنی موضوع کی طرف کیونکر مرتکز ہو سکتا ہے جو بنیادی اہمیت کا ہو۔ بہرکیف ایک سوال کا جواب بذات خود دینے کی بجائے اسپیکر صوبائی اسمبلی نے نہایت ہی ذہانت سے ’گیند‘ جنرل سیکرٹری تحریک صوبہ ہزارہ سردار فدا کی طرف اچھال دی‘ جو پہلے ہی تنقید کا نشانہ بن رہے تھے اور ابھی اُس معاہدے پر روشنائی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ تحریک صوبہ ہزارہ کے داخلی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری تھیں!
صوبہ ہزارہ سے متعلق سانحۂ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو اُس وقت ’سپرئم کورٹ‘ میں چیلنجز نہ کرنا ایک ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ آج ’ہزارے وال قوم‘ بھگت رہی ہے۔ کسی ایسی تحریک کا مستقبل بھلا کیا ہو سکتا ہے جس کے قائدین کی سیاسی بصیرت ’طفلانہ‘ ہو اور جسے سات برس گزرنے کے باوجود بھی معلوم نہ ہو کہ اُنہیں صوبائی یا وفاقی حکومتوں سے کس چیز کا مطالبہ کیوں اور کس شدت (بنیاد) سے کرنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment