Monday, May 1, 2017

May2017: Empathy of Homeless souls!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تبدیلی پر داغ!

خیبرپختونخوا کے صوبائی دارلحکومت ’پشاور‘ کے مختلف حصوں اُور بالخصوص ’چغل پورہ‘ سے ’رحمان بابا چوک‘ تک ’جی ٹی روڈ‘ کا درمیانی حصے (سنٹر میڈیا) سینکڑوں کی تعداد میں ’بے گھر افراد‘ کا مستقل ٹھکانہ ہے۔ قومی خزانے سے پشاور کی تعمیروترقی کے نام پر اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی فیصلہ ساز انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں کی ضروریات اور غربت کو درخوراعتناء نہیں سمجھا۔

غریب کا نام لینا ایک فیشن اور غربت ختم کرنے کے دعوؤں پر ووٹ مانگنا ایک روایت بن چکی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’روٹی کپڑے اور مکان‘ سے محروم اِن بے گھروں کی قسمت بدلنے والوں کی اپنی قسم بدل گئی اُور بس! پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے سبھی شہری مراکز میں رہنے والے بے گھر افراد کو تین واضح حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ روزگار کی تلاش میں آنے والے سرکاری ہسپتالوں یا اُوور ہیڈز پلوں کے نیچے ٹھکانہ بنا لیتے ہیں اور بناء کچھ ادا کئے رات بسر کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ وہ محنت کش جو بھیک نہیں مانگتے لیکن روزگار کے ذریعے گزربسر کرتے ہیں‘ اُن کے حالات کار اُور اُوقات کار بہتر بنانے کے ساتھ ملازمتی تحفظ (جاب سیکورٹی) بھی حکومت کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے لیکن افسوس کہ ’احساس‘ اُور ’خوداحتسابی‘ کا وجود ہی نہیں۔ انسانی ترقی تو بہت دور کی بات ہمارے ہاں تو انسان کو انسان بھی نہیں سمجھا جا رہا! بے گھر افراد پر مشتمل دوسرے درجے میں مقامی اور غیرمقامی ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جنہیں منشیات استعمال کرنے کی بناء پر اپنے اپنے گھر والے یا تو خود سے علیحدہ کر دیتے ہیں یا پھر وہ اپنے ہم مشغلہ گروہوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ وہ جیئیں یا مریں‘ کوئی اُنہیں کوسے گا نہیں۔ ایسے بے گھر (راندۂ درگاہ) افراد کہ جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے‘ اگر انہیں اہل خانہ‘ معاشرہ اور ریاست سہارا دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ زندگی کی طرف لوٹ آئیں! منشیات کے عادی بے گھر افراد یہاں وہاں ٹھکانے تبدیل کرتے رہتے ہیں لیکن ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد بھی اُنہی سبزہ زاروں یا ایسے مقامات کا رخ کرتی ہے‘ جہاں معاشی مسائل کی وجہ سے محنت کش مقیم ہوتے ہیں اور یوں تنگدستی اور گھریلو مسائل کے نفسیاتی دباؤ سے چند لمحوں کا نجات ڈھونڈنے والے ایک ایسی دلدل میں جاگرتے ہیں‘ جہاں سے واپسی کے امکانات نہایت ہی معدوم ہوتے ہیں!

پبلک مقامات پر جہاں کہیں اُوٹ دکھائی دے ایسے بے گھرافراد وہیں مسکن بنا لیتے ہیں اور پھر یہی مقامات منشیات فروشی کے اڈوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ جہاں کہیں منشیات استعمال کرنے والوں کے جھنڈ نظر آئیں سمجھ لیجئے کہ منشیات فروش بھی آس پاس ہی ہوں گے اور اگر صرف پشاور کی بات کی جائے تو تعجب خیز امر یہ بھی ہے کہ گلبہار پولیس اسٹیشن سے جنرل بس اسٹینڈ تک بمشکل تین سو میٹر کے حصے میں سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والے دکھائی دیتے ہیں! اگر منشیات فروشی جرم ہونے کے باوجود کھلے عام ہو رہی ہے‘ قوانین پر عمل درآمد مصلحت کا شکار ہے‘ اگر ریاست معاشرے سے کٹ کر الگ ہونے والوں کی خاطرخواہ سرپرستی نہیں کر رہی تو مخیر حضرات اور سماجی کارکنوں نے کیوں ہاتھ کھینچ لیا ہے؟ اجتماعی بے حسی کا یہ دور بہرحال ختم ہونا چاہئے۔

بے گھر افراد کی تیسری قسم اُن خاندانوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں اقوام متحدہ کی تکنیکی اصطلاح کے تحت ’’بے گھر (ہوم لیس)‘‘ قرار دیا جاتا ہے یعنی جو سرچھپانے کے لئے کچی پکی چھت تو رکھتے ہیں لیکن وہ چھت اور زمین اُن کے لئے مستقل نہیں ہوتی کیونکہ وہ نہ تو رہائش پذیر جگہ (اراضی) کے مالک ہوتے ہیں اور نہ ہی رہائش کا کرایہ ادا کرتے ہیں۔ پشاور کے مضافات میں نہایت ہی کسمپرسی کی حالت میں رہنے والے ایسے غربت زدہ خیمہ بستیوں کو دیکھا جاسکتا ہے‘ جن کے باسیوں کی آنکھیں زرد مائل اُور دھنسی ہوتی ہیں۔ دھوپ نے اُن کی رنگت سیاہ کر دی ہوتی ہے۔ جن کے بچے گندگی میں کھیل رہے ہوتے ہیں اُور اُن کے آس پاس لاکھوں کی تعداد میں مکھیاں پائی جاتی ہیں۔ بے گھر افراد کے یہ تینوں طبقات کسی ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ اور اُس معاشرے کے شایان شان نہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے! بے گھر افراد کی صورت ’انسانیت کی اِس کھلم کھلا تذلیل‘ اُور حکومتوں کے دعوے‘ بیانات و برسرزمین حقائق ایک ایسا ’کھلا تضاد‘ ہے‘ جو نہ صرف ’تبدیلی پر داغ‘ بلکہ حکومت اُور عوام کے درمیان کمزور تعلق کی نشاندہی کرتا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں نے بطور انسان ابھی زندگی بسر کرنے کا سلیقہ نہیں سیکھا۔

ہمارا معاشرہ اپنی ہی معاشرتی ذمہ داریوں‘ فرائض اور ضروریات پوری کرنے سے چشم پوشی کرتے ہوئے اگر یہ سوچ رہا ہے کہ اُسے اِس کی قیمت ادا نہیں کرنا پڑے گی تو یہ ایک دانستہ غلطی کے بعد خودفریبی پر مبنی بھول ہے! سرکاری وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم‘ محروم طبقات کو نظرانداز کرنا‘ محنت کش (مزدور کسان) افراد کے لئے روزگار اور اُن کے حقوق کا تحفظ ’سراسر ریاست‘ کی ذمہ داری ہے‘ جو کسی بھی لحاظ سے پوری نہیں ہو رہی!

پاکستان میں بے گھر افراد کی تعداد کے حوالے سے تازہ ترین اعدادوشمار بھی پانچ سالہ پرانے ہیں جن کے مطابق دو کروڑ افراد ’بے گھر‘ ہیں اور اُن کے تیس فیصد سے زائد کا تعلق خیبرپختونخوا و قبائلی علاقوں سے ہے‘ جہاں امن و امان کی غیریقینی صورتحال‘ دہشت گردی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے فوجی کاروائی کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کا شمار بھی ’بے گھروں‘ ہی میں کیا جاتا ہے۔ مہنگائی‘ بے روزگار اور گھروں کی قیمتیں الگ محرکات ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2000ء سے 2016ء تک مکانات (جائیداد) کی قیمتوں میں ایک سو پچاس سے ڈھائی سو فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کم آمدنی والے طبقات کے لئے آسان اقساط کے عوض صاف ستھرے رہائشی مواقع فراہم کرے۔

قدرتی آفات کے سبب بے گھر ہونے والوں کو ریاست کی جانب سے سہارا دینے کی سوچ اشیائے خوردونوش پر مبنی وقتی امداد سے شروع اور ختم ہو جاتی ہے۔ کم آمدنی یا متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے اگر ’اُوپن مارکیٹ‘ سے گھر خریدنے کی مالی سکت نہیں رکھتے تو اِس بارے بھی غور ہونا چاہئے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیسے کیا جائے۔ مہنگائی کے اسباب و محرکات کیسے کم کئے جائیں۔ روزگار کے مواقع کیسے پیدا کئے جائیں۔ روزگار کا تحفظ (سوشل سیکورٹی) مؤثر انداز میں کیسے فراہم کی جائے اور امن و امان یا قدرتی آفات کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کو اگر باعزت اور صحت مند ماحول میں رہائش فراہم کی جائے تو اِس سے بھی اُن کے مصائب و مشکلات میں بڑی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے! کاش پاکستان ایک ’فلاحی اسلامی‘ ریاست کے تصور پر پورا اُترے۔ اَے کاش ’روٹی کپڑے اُور مکان‘ جیسا بنیادی ضروریات سے متعلق نعرہ حقیقت کا روپ دھار لے!

No comments:

Post a Comment