Tuesday, May 2, 2017

May2017: The 10 billion offer!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دس اَرب ۔۔۔ زیادہ بڑا سوال!
پاکستان تحریک انصاف نہ صرف ملک کی واحد ’حزب اختلاف‘ ہونے کا کردار ادا کر رہی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک جیسا دلیرانہ کردار پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی ایک بھی سیاسی جماعت یا سیاسی جماعت کے سربراہ نے ادا نہیں کیا جیسا کہ عمران خان ادا کر رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ مالی و انتظامی شعبوں ہی میں نہیں بلکہ طرزحکمرانی پر مسلط ہونے والے مفاد پرستوں کا کھیل ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔ عام انتخابات میں دھونس دھاندلی اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کی بھاری قیمت خود تحریک انصاف کو بھی ادا کرنا پڑے گی لیکن وہ ملک کے مستقبل کے لئے ایسا کرنے کو تیار (پرعزم) دکھائی دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پانامہ کیس پر خاموشی اختیار کرنے کے عوض ’دس ارب روپے‘ کی ابتدائی پیشکش ٹھکرانے اور ڈان لیکس کے اصل مجرموں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے جو کچھ بھی کہا جاتا ہے عوام کی اکثریت اُس کی صداقت پر یقین رکھتی ہے! جیسا کہ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ عوامی سطح پر اپنے ذریعے کا نام بتانا کچھ مسائل کو جنم دے سکتا ہے مگر پھر بھی لوگوں میں اس حوالے سے تجسس ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کو پاناما پیپرز سکینڈل کی پیروی نہ کرنے کے لئے وزیرِ اعظم نواز شریف کی جانب سے دس ارب روپے کی پیشکش لانے والا شخص آخر کون ہے؟ 

ملکی تاریخ کی سب سے بڑی نہ سہی لیکن سب سے ’’پیچیدہ پیشکش‘‘ ضرور ہے۔ جس احتساب کا نعرہ عمران خان لگاتے ہیں اگر وہ شکنجہ خود ان کے دروازے پر آ کھڑا ہو تو وہ بہت مشکل صورتحال میں پڑ جائیں گے‘ اسی لئے ان کے خلاف تمام الزامات ایک طرف مگر کبھی بھی ان پر کرپشن یا رشوت کا الزام نہیں لگا ہے۔ درحقیقت ہمیں عمران خان کو کریڈٹ دینا چاہئے کہ سابق کھلاڑی نے عوامی عطیات سے ایک بہت نامور ہسپتال قائم کیا ہے مگر اس سے بھی زیادہ الجھن اس بات کی ہے کہ آخر کون بے وقوف ہوگا جو ایک اپوزیشن رہنما کو اس کے سیاسی کریئر کے عروج پر ایسی پیشکش دے گا۔ اس کے علاؤہ اس پوری کہانی میں سے کافی ساری تفصیلات غائب ہیں‘ جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے شاید ایک بار پھر غلط بازی کھیلی ہے۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ بھلے ہی عمران خان الفاظ اور ناموں کے بارے میں انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرنا سیکھ چکے ہیں مگر وہ اعداد و شمار کو اب بھی آسانی سے بڑھا چڑھا کر پیش کر دیتے ہیں۔ ان کی پارٹی اور خود ان کی اپنی شہرت کو بدنامِ زمانہ پینتیس پنکچرز کی کہانی بار بار دہرائے جانے سے نقصان پہنچا۔ ان کے مطابق سال دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں کم از کم پینتیس سیٹوں پر دھاندلی کی وجہ سے ہی نوازلیگ کامیاب ہوئی تھی۔ لب لباب یہ ہے کہ عمران خان کا مذاق اڑانا آسان لیکن اُن کی طرح دلیرانہ اور بے لوث و امتیاز قومی سیاست کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

تحریک انصاف کے دم کرم سے دوسرا معاملہ جس پر حزب اختلاف کا ڈٹ کر مؤقف سامنے آیا ہے وہ ڈان لیکس کا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پاناما کیس فیصلے کے بعد کافی دباؤ میں ہے مگر عمران خان کا یہ خطرناک شاٹ کسی اور کے بجائے خود انہیں ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جس چیز کو سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کے ایک دور کا خاتمہ ہونا چاہئے تھا‘ وہ خاتمے کے بجائے ایک تازہ اور غیر ضروری بحران میں بدل گئی ہے۔ سیاست کی دھندلی دنیا میں اداروں کے درمیان تعلقات کے بارے میں حقائق جاننا ویسے تو بہت مشکل ہے لیکن پھر بھی آگے بڑھنے کا راستہ تقریباً تلاش کر لیا گیا تھا۔ 

کم وبیش آٹھ ماہ بعد ایک انکوائری کمیٹی‘ جس میں فوج اور سویلین دونوں ہی کے نمائندے شامل تھے‘ نے متفقہ رپورٹ اور سفارشات تیار کیں جنہیں وزیرِ اعظم نواز شریف کو پیش کیا گیا۔ حکومت نے عوامی سطح پر وعدہ کیا تھا کہ وہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات قبول بھی کرے گی اور نافذ بھی کرے گی۔ معلوم ہونے لگا تھا کہ معاملہ اب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے مگر پریشان کن طور پر حکومت نے کمیٹی کی سفارشات کے اعلان کو غیرمناسب انداز میں طے کرنے کی کوشش کی۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ فوج نے اس معاملے پر حکومت کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور نئے آرمی چیف جنرل باجوہ پانچ ماہ قبل قیادت سنبھالنے سے اب تک اس قومی سطح کے مسئلے میں مرکزی کردار کے طور پر تھے۔ یہاں سے آگے ٹھنڈے دماغ سے کام لینا چاہئے اور اس کے لئے دونوں فریقوں کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ یقینی بنانا چاہئے کہ یہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ حکومت کی جانب سے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات کو عوام میں لانے سے اس پر چھائے شکوک اور بدگمانی کے بادل ہٹ سکتے ہیں۔ حکومت کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ایک دوسرے سے متصادم پیغامات مزید عدم استحکام یا اس سے بھی خطرناک صورتحال کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب بحران پیدا ہوا تو وزیرِ داخلہ نثار علی خان کی پریس کانفرنس نے صرف شش و پنج میں اضافہ کیا۔ ایک موقع پر تو یہ بھی محسوس ہوا کہ شاید وزیرِ داخلہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان کی وزارت انتظامی طور پر وزیرِ اعظم کے دفتر سے بالاتر ہے۔ 

تکنیکی باتیں جو کچھ بھی ہوں لیکن ضرورت تھی کہ معاملے کو سلجھایا جاتا! لمحۂ فکریہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ سادہ لوحی یا جذبات یا باہمی اختلافات کی وجہ سے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاسی جماعتیں جمہوریت کے تسلسل ہی کو نقصان پہنچانے جا رہی ہیں؟ دس ارب کی پیشکش سے بھی زیادہ بڑا سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ پانامہ کیس پر سپرئم کورٹ کے فیصلے اور تیزی سے گزرتے ہوئے وقت میں نواز لیگ کی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں تو کہیں وفاقی حکومت کو اقتدار سے الگ کرنے کے لئے کوئی ایسا باعزت راستہ تو نہیں دیا جا رہا‘ جس میں اُس کے بعد کم سے کم حکومت ’تحریک انصاف‘ کے حصے میں نہ آئے؟

No comments:

Post a Comment