ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
راز نہاں!
چھ سال گزر گئے۔ عسکریت پسند القاعدہ تنظیم کے سربراہ ’اُسامہ بن لادن‘ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا سراغ لگانے اور اُسے فوجی کاروائی میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کی طرح پاکستان حکومت نے بھی ضروری نہیں سمجھا ہے کہ وہ ’آپریشن نیپچون سپیئر (Operation Neptune Spear)‘ کی تفصیلات‘ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور ’ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ‘ کی صورت حقائق منظر پر لائیں تاکہ دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں اُن ذمہ داروں کا تعین یا حفاظتی حکمت عملی میں موجود خامیوں کی نشاندہی ممکن ہو سکے جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کا ایک انتہائی مطلوب دہشت گرد بمعہ اہل خانہ طویل یا قلیل عرصے تک فوجی چھاؤنی کی حدود میں قیام پذیر رہا‘ اُور اُس کی پاکستان میں موجودگی عالمی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بھی بنی!
لمحۂ فکریہ ہے کہ جن سیکورٹی نقائص کا فائدہ اٹھایا گیا آخر اِس بات کی گارنٹی کیا ہے کہ مزید دہشت گرد ضلع ایبٹ آباد کے میدانی و پہاڑی علاقوں کا استعمال نہیں کر رہے ہوں گے!
چھ سال گزر گئے۔ اُسامہ بن لادن کے زیراستعمال قلعہ نما مکان کو مسمار کرکے ہر ایک اینٹ الگ الگ کر دی گئی لیکن 38ہزار مربع فٹ (قریب ایک سو چالیس مرلہ) اراضی کی ملکیت کا تنازعہ تاحال حل نہ ہوسکا ہے‘ جس کے بارے میں صوبائی حکومت کے ذمہ دار اور ایبٹ آباد چھاؤنی (کنٹونمنٹ) کی انتظامیہ الگ الگ دعوے رکھتے ہیں‘ چونکہ مذکورہ اراضی ’ٹھنڈا چوہا‘ نامی ایک ایسے رہائشی علاقے کے وسط میں موجود ہے‘ جہاں آمدنی کے لحاظ سے متوسط طبقات کی اکثریت آباد ہے اور جہاں اوسط گھر پانچ سے دس مرلہ پر مشتمل ہیں‘ اِس لئے ایک بڑا ’قطعۂ اراضی‘ سبھی کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ جس کی تین فٹ چاردیواری بنا دی گئی ہے اور صوبائی حکومت کی جانب سے ’وال چاکنگ‘ بھی کر دی گئی ہے کہ ’’یہ اراضی صوبائی حکومت کی ملکیت ہے۔‘‘ لیکن اِس سے زیادہ عملی اقدامات (جرأت) کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ جب اُسامہ بن لادن کی ’قیام گاہ‘ رہے مکان کو مسمار کیا جا رہا تھا تو سب سے پہلا تاثر یہ سامنے آیا کہ اِس مقام پر پبلک پارک بنایا جائے گا۔ دوسرا مطالبہ اِس مقام پر عوامی قبرستان بنانے کا تھا اور حال ہی میں اہل علاقہ کی جانب سے تیسرا مطالبہ یہ سامنے آیا ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومت اِس مقام پر سرکاری سکول تعمیر کرے۔
چھ سال گزر گئے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں جس معاملے کو ’رفع دفع‘ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں‘ وہ اپنی جگہ اہمیت بھی رکھتا ہے اور باریک بینی سے زیربحث بھی آنا چاہئے لیکن ’اُسامہ کمپاؤنڈ‘ پر خدشات کے بادل بدستور چھائے ہوئے ہیں!
حقائق کیا ہیں کوئی نہیں جانتا لیکن بلال ٹاؤن (ٹھنڈا چوہا) کے رہائشی اُسامہ سے ایک تعلق بنا بیٹھے ہیں اور اُس 900میٹر طویل گلی کا نام بھی غیرسرکاری طور پر اُسامہ ہی کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے جس کا چھ سو میٹر حصہ پختہ اور وہ تین سو میٹر خستہ حال ہے‘ جہاں سے اُسامہ سے منسوب چاردیواری کی حدود شروع ہوتی ہے۔ سفید ریش زین لالہ اور اسلم لالہ کا بیشتر وقت اُن درجنوں بچوں کی طرح اُس قطعہ اراضی پر گزرتا ہے‘ جو ایک وسیع وعریض سبزہ زار میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ بزرگ درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر دھیمی آواز میں ایک دوسرے سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہیں لیکن کسی اجنبی (بالخصوص) صحافیوں کو قریب پا کر اُن کی آنکھوں میں وحشت پھیل جاتی ہے! ’’انکل یہاں پلے گراؤنڈ تعمیر ہونا چاہئے‘‘ ایک نوجوان لڑکے نے قریب آ کر کہا لیکن جب اُس کا نام پوچھا تو تیز قدموں سے واپس پلٹتے ہوئے اُس نے کہا ’’ابو نے کسی بھی صحافی سے بات کرنے سے منع کیا ہے۔‘‘ چھ سال گزر گئے ہیں لیکن بلال ٹاؤن کے سبھی رہنے آج بھی خوف و ہراس کا شکار ہیں اور اُن کا رویہ ایک جیسا ہے کہ وہ اپنے ہمسائے میں ہونے والی سرگرمیوں نہ تو دو مئی سے قبل کے حالات پر بات کرنے کو اپنے لئے محفوظ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اِس معاملے کے بارے اپنی شناخت کے ساتھ کسی محتاط یا غیرمحتاط تبصرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں!
حسن اتفاق ہے کہ ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی مبینہ موجودگی اور امریکی فوج کے شب خون کی چھ سال مکمل ہونے کے موقع پر وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب ایبٹ آباد تشریف لائیں اور اِس موقع پر صحافیوں کی جانب سے دو الگ الگ استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے جو چند سوالات اُن سے بار بار پوچھے گئے وہ بتدریج ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ‘ پانامہ لیکس پر کمیشن کی تشکیل اُور ڈان لیکس کے حوالے سے قائم کمیشن کی رپورٹ سے متعلق تھے۔ ایبٹ آباد الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن کے ایک رکن نے چھبتا ہوا یہ سوال بھی پوچھ لیا کہ ’’آخر پاکستان میں تحقیقاتی کمیشن قائم ہی کیوں کئے جاتے ہیں جبکہ اُن کی رپورٹس منظرعام پر نہیں لائی جاتیں؟‘‘ مریم اورنگزیب کی جانب سے بس یہی کہا گیا کہ ’’کچھ چیزیں قومی مفاد سے ہوتی ہیں!‘‘ اُن کا مقصود تھا کہ ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں کمیشن رپورٹ جاری نہیں کی جارہی! دو مئی دو ہزار گیارہ کی ’سیاہ اندھیری رات‘ کا سورج طلوع نہیں ہوا‘ چھ سال گزر گئے اور چار سال سے کمیشن رپورٹ جو معلوم حقائق کے اعتراف میں سوچ بچار کا ناقابل یقین اُور طویل عرصہ ہے! دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی کا تعلق (مستقبل) ’ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ‘ میں بین السطور ہے ’وسیع تر قومی مفاد‘ آخر ’’سچ‘‘ کیوں نہیں ہوسکتا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سیاسی اقتدار کو طول دینے کے لئے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ جاری نہ کی جا رہی ہو؟
No comments:
Post a Comment