Thursday, May 4, 2017

May2017: National Policy on Water!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاست اور مخالفت!
کیا کوئی کسی ایسے شعبے کا نام بتا سکتا ہے جس پر پاکستان میں سیاست نہ ہو رہی ہو؟ سیاست برائے تعمیر تو بہت دور کی بات‘ ریاستی حقوق کے لئے بھی سیاست اور مخالفت کے الگ الگ انداز ہیں! یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دریاؤں کا قیمتی پانی سمندر میں گر کر ضائع ہونا تو سب کو قبول ہے اور سیلاب فصلیں مکانات مال مویشیوں اور انسانوں سمیت اربوں کھربوں کی ترقی بھی بہا لے جائے لیکن بڑے آبی ذخائر کی تعمیر اِس لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ ’سیاسی اتفاق رائے‘ نہیں ہوسکتا اور جب کسی ملک کی قیادت داخلی محاذ پر ایسے قومی امور پر یک سو نہیں کہ جن کا تعلق اُس کی بقاء و مستقبل کی ضروریات سے ہے تو ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہمسایہ یا دیگر ممالک ہمارے مفاد کو ترجیح دیں گے؟ حکومت پاکستان نے ’واٹرشیڈ مینیجمنٹ‘ اُور ’سرحد پار ایکیوفر‘ پر مل کر کام کرنے کے لئے بھارت اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ میکانزم کی تیاری پر غور شروع کردیا تاکہ ہمسایہ ممالک کے ترقیاتی منصوبوں کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ 

’واٹر شیڈ مینیجمنٹ‘ سے مراد آبی و زمینی دیکھ بھال کے وہ رائج طریقے ہیں جن کے ذریعے پانی کے معیار کے تحفظ اور بہتری کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جبکہ ’ایکیوفر‘ سے مراد زیرزمین موجود پتھروں اور معدنیات کی وہ تہہ ہے جو پانی جمع کئے رکھتی ہے۔ یہ دونوں عمل قومی پالیسی برائے آب کا حصہ ہیں‘ جو اس بات کو بھی یقینی بناتی ہے کہ شہری علاقوں میں پانی (پینے کے پانی اور مختلف کاموں میں استعمال ہونے والے پانی) کے استعمال کی سو فیصد پیمائش ہوسکے۔

وفاق اور صوبوں کی جانب سے حتمی کی گئی یہ پالیسی ’مشترکہ مفادات کونسل‘ کے حالیہ اجلاس (دو مئی) کے ایجنڈے میں بھی شامل تھی تاہم وزیراعظم کی سیاسی مصروفیات کے سبب اس کو مؤخر کردیا گیا۔ کیا تصور ممکن ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو اُس کام کی فرصت ہی نہ ہو‘ جو آنے والے دنوں میں سب کو جھنجوڑ سکتا ہے!؟ مذکورہ پالیسی کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق ’سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لئے بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کا نظام پیش کیا گیا ہے لیکن اس معاہدے میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ ہائیڈرو پاور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے موجود دفعات‘ پانی کے کم بہاؤ والے دنوں میں پاکستان کو پانی کو فراہمی میں ایک خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ دوسری جانب سندھ طاس معاہدہ مشرقی دریاؤں سے پانی کے بہاؤ سے متعلق یہ وضاحت نہیں دیتا کہ بھارت میں موجود ان دریاؤں سے ہونے والا اخراج نیچے رہنے والی آبادی کے لئے سنگین خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس نئی پالیسی کے مطابق خطے میں ایسے میکانزم پر عملدرآمد جس کا حصہ دو سے زائد ہمسایہ ہوں‘ پاکستان کے لئے بڑھتے ہوئے ہائیڈرو میٹرولوجیکل مسائل کے حل میں مددگار ہوگا۔ اس حوالے سے یہ تحقیق بھی کی جائے گی کہ مشرقی دریاؤں پر شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبے کن چیلنجز کا باعث بن رہے ہیں اور سندھ طاس معاہدے اور بین الاقوامی قوانین کے فریم ورک میں رہتے ہوئے ان کے اثرات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے۔ نئی پالیسی میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ ’پانی کو کم قیمت شے‘ سمجھا گیا اور ’آبیانہ‘ کے ذریعے سے حاصل قیمت اس قدر نہیں کہ زرعی انفرااسٹرکچر کے اخراجات کو برداشت کیا جاسکے تو کیا حکومت آنے والے دنوں میں زرعی شعبے پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے کا سوچ رہی ہے؟ 

زرعی ضروریات کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار (زمیندار) کو اُن کی فصل کا وہ معاوضہ بھی نہیں ملتا‘ جس سے لاگت ہی پوری ہو سکے! 

زرعی شعبے کو ’ٹیکس فری‘ کرنے اور غذائی تحفظ کے لئے اُن کاشتکاروں کے مفادات کا تحفظ ضروری ہے‘ جن کی معیشت و معاشرت کا انحصار ہی محنت ومشقت سے ہے۔ زراعت کے نام پر ووٹ مانگنے اور مزدوروں کسانوں کی بات کرنے والوں کو اپنے قول اور فعل سے ابھی بہت کچھ ثابت کرنا ہے۔

No comments:

Post a Comment