ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جوابدہ کون؟
پشاور کی ضلعی حکومت نے ’چپلی کباب‘ کے نرخ مقرر کرتے ہوئے سادہ کبابوں کی قیمت 360 جبکہ خصوصی (اسپیشل) کباب کی قیمت 380روپے فی کلوگرام اور بروز منگل ہفتہ وار تعطیل مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ چار مئی کو ڈپٹی کمشنر ثاقب رضا اسلم کی جانب سے جاری ہونے والے اِس حکمنامے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں ’جوابدہ کون ہوگا؟‘ اُور اِس کا تعین بھی ہونا چاہئے کیونکہ ضلعی انتظامیہ کا کام صرف قیمتیں مقرر کرنا ہی نہیں بلکہ اِس کے ذیلی شعبوں اور ماتحت عملے کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ نہ صرف ’ضلعی نرخ نامے‘ پر عمل درآمد یقینی بنائیں بلکہ اشیاء کے معیار پر بھی نظر رکھیں۔
کیا ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ چپلی کباب کی تیاری میں استعمال ہونے والے گوشت (بنیادی جز) اُور چکناہٹ صحت مند اور حلال جانوروں سے حاصل کی گئی ہوتی ہے؟ علاؤہ ازیں مصالحہ جات اور کباب کی دکانوں پر گوشت‘ قیمہ اور دیگر ضروریات ذخیرہ کرنے کے لئے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق سہولیات و ضروریات دستیاب ہوتی ہیں؟
چپلی کباب صرف پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے کئی دیگر اضلاع کی بھی ’خاص ڈش‘ ہوا کرتی تھی لیکن کتوں‘ گدھوں اور مردہ جانوروں کا گوشت ’پشاور کے چند نہایت ہی مشہور چپل کباب فروشوں‘ کو فراہم کرنے کا انکشاف سامنے آنے کے بعد یہ کاروبار کافی متاثر ہوا اور اُمید تھی کہ قوانین و قواعد کا مذاق اڑانے والے اور اِس گھناؤنا کاروبار میں شریک تمام (جملہ) کرداروں (نیٹ ورک) کو قرار واقعی سزائیں دینے کے علاؤہ ایسے کباب ہاؤس ختم کر دیئے جائیں گے لیکن چند روز اخبارات کے صفحہ اوّل پر شائع ہونے والی خبریں‘ صفحہ آخر اور پھر اندرونی صفحات پر شائع ہونے کے بعد غائب ہو گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ’غیرمعیاری‘ اشیائے خوردونوش اُور ملاوٹ شدہ اَجناس کی فروخت کا دھندا جاری تھا اور جاری ہے۔ مصالحہ جات اور خشک چائے (پتی) فروش کی دکانوں پر ہر طرح کی ’ورائٹی‘ کھلے عام فروخت ہوتی ہے۔ ملاوٹ شدہ اجناس سے صرف دکانیں ہی نہیں بلکہ ’گوداموں کے گودام‘ بھرے ہوئے ہیں جو کسی ’علاقہ غیر‘ میں نہیں بلکہ ’پیپل منڈی‘ جیسے پشاور کے وسطی و مرکزی علاقے میں ہیں اور اِس بات کا ثبوت ہیں کہ کس طرح مالدار اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے ’نیک نام‘ تاجر اور دکاندار بشمول تاجر رہنماؤں کو متعلقہ تھانے اور ضلعی انتظامیہ کی آشیرباد حاصل ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ چائے کے ہوٹلوں سے استعمال شدہ پتی کے خریدار کون ہیں اور وہ اِس پتی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لئے مذبح خانوں کی نالیوں سے اکٹھا کیا جانے والا خون‘ گندگی اور کیمیائی مادے انسانی صحت کے لئے کتنے مضر ہیں! ضلعی انتظامیہ کے دفاتر سے اگر عمائدین کی فہرست طلب کی جائے تو اکثریت ایسے ہی صاحبان ثروت کے ناموں سے مرتب ملے گی‘ جن کے لئے اپنے منافع سے زیادہ کچھ اہم نہیں۔ راتوں رات امیر ہونے والے پشاور کے ایسے تاجر قوانین میں موجود سقم اور قوانین پر اطلاق کرنے والوں کی حرص و طمع سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں!
تصور کیجئے ایک ایسے پشاور کا جہاں اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کچھ بھی خالص نہیں رہا۔ جس شہر میں خالص دودھ تو بہت دور کی بات‘ سرکاری ٹیوب ویلوں سے صارفین تک پہنچنے والے پانی کی ایک بوند بھی بناء آلودگی نہ ملے۔ جہاں حلال گوشت کا حصول وثوق سے ممکن نہ رہا ہو۔ جہاں ملاوٹ بطور فعل جرم ہی نہ سمجھا جاتا ہو۔ جہاں اشیاء کی نقول اِس حد تک عام ہوں کہ اُن کی شناخت دو اُور تین نمبروں سے کی جاتی ہو! جہاں جان بچانے والی ادویات کا دھندا عام ہو‘ جہاں ڈاکٹر سے لیکر ادویہ ساز ادارے اور ادویات فروشوں کے لئے انسانی جان سے زیادہ کمائی قیمتی ہو‘ جہاں سرکاری نرخ ناموں کی حیثیت کاغذ کے پُرزوں سے زیادہ نہ ہو‘ اُس شہر کا مرثیہ لکھنے کی بجائے درباری چاہے ضلعی اِنتظامیہ کی جس قدر چاہیں تعریف و توصیف لکھ ڈالیں لیکن برسرزمین حقائق اُور تاریخ اُن تمام مجرموں کو معاف نہیں کرے گی‘ جو عام آدمی (ہم عوام) کی صحت (پبلک ہیلتھ) کو لاحق پریشانیوں اور خطرات کے لئے ذمہ دار ہیں اُور جنہوں نے جنت نظیر ’پھولوں کے شہر‘ پشاور کی ’صحت مند آب و ہوا‘ اور یہاں کے رہن سہن کی جملہ خوبیوں کو ڈس لیا ہے۔
پشاور جنت تھا‘
جسے جہنم جیسا اَذیت ناک بنا دیا گیا لیکن نہ تو قصوروار اور نہ ہی ذمہ دار جوابدہ ہیں!
No comments:
Post a Comment