ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
محدود و مشکوک ترقی!
خیبرپختونخوا میں سستی (پن) بجلی کے پیداواری منصوبوں کے لاتعداد امکانات کی موجودگی سے زیادہ یہ بات ’خبر‘ ہے کہ حکومت کو اِس بات کا احساس ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت آئندہ مالی سال میں توانائی بحران کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار اِس کا حل پیش کرنے کی صورت قوم کے سامنے رکھنا چاہتی ہے لیکن مسئلہ مالی وسائل کی کمی اور وفاق کے سوتیلے پن کا ہے۔
خیبرپختونخوا میں پن بجلی کے منصوبوں سمیت جملہ تعمیروترقی کے لئے مالی وسائل کی فراہمی اور تکنیکی سرپرستی کی بجائے ’وفاقی حکومت‘ کا رویہ شروع دن ہی سے ’غیرشاعرانہ‘ رہا ہے اور بالخصوص جب سے ’پانامہ پیپرز‘ کی صورت حکمراں خاندان کی مشکوک مالی حیثیت کے بارے عدالتوں میں سوالات اُٹھے ہیں تب سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (نواز) کے درمیان اختلاف کی خلیج میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اختیارات اور حدود میں کس طرح عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات پس پشت رکھ سکتی ہیں‘ لیکن اگر ’سیاسی عناد‘ (مخالفت) کے سبب ایسا ہو رہا ہے تو کم سے کم اِس خواہش کا اظہار تو کیا جا سکتا ہے کہ ’برائے مہربانی ایسا نہ کیا جائے!‘
خیبرپختونخوا کو سزا دینے والوں میں خود ’تحریک انصاف‘ کی صوبائی قیادت بھی پیش پیش ہے‘ جس نے پارٹی کی قومی پالیسی کے آگے ’سب سے قیمتی شے‘ کی قربانی پیش کر دی اور اب اُسے ’پانامہ کیس‘ کے کسی ایسے فیصلے کا انتظار ہے جو آئندہ عام انتخابات کا نعرہ بن سکے۔ خیبرپختونخوا کو درپیش مسائل اور بالخصوص امن و امان کی صورتحال اس بات کی متقاضی تھی کہ کسی دوسرے صوبے میں مرکز اور قومی امور میں سیاسی دلچسپیاں رکھنے والوں کی اندھا دھند تقلید نہ کی جائے بلکہ صوبے کے اپنے وسائل اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا درمیانی راستہ تلاش کرنے میں عافیت تھی جس سے وفاقی حکومت سے تصادم کی بجائے ’افہام و تفہیم‘ اور ’باہمی احترام‘ کی بنیادوں پر اُس ’نئے خیبرپختونخوا‘ کے تصور کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا جو کسی صوبے یا وفاق کے خلاف سازش کے طور پر نہیں بلکہ ایک مضبوط و مستحکم پاکستان کی آج بھی اولین ضرورت ہے۔
آئندہ ’مالی سال برائے 2017-18ء کے صوبائی بجٹ‘ میں تعلیم و صحت کے بعد بجلی کے پیداواری منصوبوں کو اہمیت دی گئی ہے اور اِس مقصد کے لئے کل 57 ترقیاتی منصوبوں کو خیبرپختونخوا کے ترقیاتی منصوبہ بندی میں شامل کیا گیا ہے جن میں چوبیس نئے اور تینتیس جاری منصوبوں کے لئے ’دوسو ارب روپے‘ سے زائد مختص کئے گئے ہیں‘ ان میں 50ارب جاری اور 159 ارب روپے ایسے نئے منصوبوں کے لئے جاری ہوں گے جن سے خیبرپختونخوا کو مستقبل میں آمدنی کا ایک پائیدار ذریعہ بھی حاصل ہوگا۔ ماضی میں ’ہائیڈل ڈویلپمنٹ فنڈ‘ کا محکمہ ’خیبرپختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ فنڈ‘ کے نام سے کام کر رہا ہے جو صوبائی خزانے اور غیرملکی وسائل سے حاصل ہونے والے سرمائے سے بجلی کے پیداواری منصوبوں کی کھوج اور انہیں عملی جامہ پہنانے جیسی ذمہ داریاں رکھتا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ صوبائی حکومت کی آئینی مدت کے آخری مالی سال کے بجٹ میں جس انداز کا ’ترقیاتی نقشہ‘ پیش کیا گیا ہے اگر یہی فکروعمل‘ جذبہ‘ توانائی‘ جنون اُور کارکردگی پہلے مالی سال سے دیکھنے کو ملتی‘ تو آج جس 1123 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی اُمیدیں ظاہر کی جا رہی ہیں آج ہم اِن اہداف کے حصول کے بہت قریب ہو چکے ہوتے! بہرحال حکمت عملی بجلی کے صوبائی پیداواری مجوزہ منصوبوں میں پن بجلی‘ تیل و گیس اور شمسی توانائی سے استفادہ کیا جائے گا۔ قابل ذکر پن بجلی کے تین بڑے منصوبوں میں 300میگاواٹ کا بالاکوٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ‘ 47میگاواٹ کا بریکوٹ پیٹراک ہائیڈرو پراجیکٹ اور 22 میگاواٹ کا پٹراک شیرنگل ہائیڈرو پاور شامل ہیں جن میں سے بالاکوٹ منصوبے کے لئے ایشین ڈویلپمنٹ بینک 80فیصد جبکہ دیگر دو منصوبوں کی مالی ضروریات کے لئے ورلڈ بینک کل اخراجات کا 80فیصد ادا کرے گا۔ نئے مالی سال میں خیبرپختونخوا حکومت ایک ہزار مساجد کو شمسی توانائی سے روشن کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے جس کے لئے 96 ارب سے زیادہ (967.6ملین) روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔
اٹھائیس مئی کو پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر انجنیئر امیر مقام نے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے سوال کیا کہ ’’صوبائی حکومت اُس ایک میگاواٹ بجلی کے بارے میں پہلے بتائیں جو اُنہوں نے چار سال میں تیار کی ہے!‘‘ یہ ایک چھبتا ہوا سوال (اعتراض) ہے اور اب صوبائی حکومت کے فیصلہ سازوں کو احساس ہو رہا ہوگا کہ اُنہوں نے کس قدر تیزی سے وقت ضائع کیا! ترقی کا کوئی بھی خاکہ (تصور) اور کسی بھی درجے کی حکمت عملی کے خاطرخواہ عملی نتائج کا تعلق اُن کی حسب منصوبہ بندی تکمیل پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ جس طرح ماضی کے کئی ترقیاتی منصوبوں کو موجودہ صوبائی حکومت نے جاری رکھنا مناسب نہیں سمجھا‘ بالکل اسی روش پر چلتے ہوئے مستقبل کی حکومتیں بھی اُن تمام منصوبوں کی بساط لپیٹ سکتی ہیں‘ جو تحریک انصاف کے انتخابی منشور کا حصہ ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں طرز حکمرانی ہر پہلو سے اِس حد تک ’سیاسی‘ ہو چکاہے کہ اِس نے ترقی کے عمل اور اِس کے بارے میں پرخلوص کوششوں کو بھی مشکوک و محدود بنا کر رکھ دیا ہے۔
No comments:
Post a Comment