Sunday, May 28, 2017

May2017: KP Govt vs PTI on Power Load Shedding!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاست و اَنا کے کرشمے!
برداشت کی ’آخری حد‘ بھی عبور ہو چکی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو قانون بنانے والے یوں قانون ہاتھ میں نہ لیتے۔ گرمی کی شدت کے ساتھ بڑھنے والی بجلی کی طلب اُور رسد کے درمیان فرق ’لوڈشیڈنگ‘ کی صورت ظاہر ہوا تو شہری علاقوں کے رہنے والے تڑپ اُٹھے حالانکہ دیہی علاقوں میں بجلی کی زیادہ طویل لوڈشیڈنگ ہوتی ہے لیکن وہاں کا رہن سہن‘ کیمیائی اجزأ کی ملاوٹ سے پاک خوراک اور مکانات و تعمیرات موسمی اثرات کی شدت سے بچاؤ میں مدد دیتی ہیں جبکہ شہری علاقوں میں ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی سیمنٹ اور لوہے سے کثیرالمنزلہ زیادہ مضبوط و پائیدار گھر تو بنا لئے گئے ہیں لیکن نہ تو زمین کو سانس لینے کے لئے جگہ میسر ہے اور نہ ہی زرخیز مٹی کی قدروقیمت کا احساس کیا گیا ہے! اگرچہ یہ ایک ضمنی موضوع ہے لیکن اِس مرحلۂ فکر پر بطور تعارف و حوالہ عرض ہے کہ زندگی کی ہر ضرورت اور آسائش کا برقی رو پر انحصار سے پیدا ہونے والی صورتحال ایک ایسے ملک کو تو بالکل بھی زیب نہیں دیتی جہاں نہ تو بجلی حسب ضرورت (طلب) دستیاب ہے اور نہ ہی قیمت کے لحاظ سے یہ ایک سستا ذریعہ (نعمت) ہے۔ اگر ہمارے ہاں بڑے آبی ذخائر بنانے کی ضرورت پر سیاسی اتفاق رائے نہیں تو وہی (سیاسی) کردار جواب دیں کہ قوم مہنگے ایندھن (تیل و کوئلے) سے بننے والی جنس کس بھاؤ خریدے اُور اُس کے استعمال کی زیادہ سے زیادہ حد (احتیاط) کیا ہونی چاہئے! 

سیاست کا اصطلاحی مفہوم اور اِس کی دانش رکھنے والا ’سیاست دان‘ وہ ہوتا ہے جو معاشرے کی عمومی و خصوصی سطح پر پائے جانے والی اختلافات ختم کرے لیکن ہمارے ہاں سیاست ایک ایسے طرزفکروعمل (فن) کا نام ہے‘ جس میں اِختلافات کو ہوا دینے اُور تنازعات بڑھانے میں مہارت ہونی چاہئے۔ عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر میں بھی ’اصل رہنما‘ وہی ’شعلہ بیاں‘ ہے یعنی جس کے زبان و بیان سے ہر وقت آگ اُگلتی رہے!

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے خلاف اِحتجاج کی قیادت کرنے کی پاداش میں اراکین صوبائی اسمبلی فضل الہٰی (پی کے چھ) اُور عارف یوسف (پی کے فور) کے خلاف پولیس سے رجوع کیا گیا لیکن چھبیس مئی (بروز جمعہ) پیش آنے والے اِن واقعات میں ملوث افراد کے خلاف چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی قانونی کاروائی نہیں ہوسکی۔ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی سے زیادہ قانون کی سمجھ بوجھ اُور کسے ہو سکتی ہے۔ پیسکو ترجمان کے مطابق چھبیس مئی سے درجنوں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں نے ’’1: تین گرڈ اسٹیشنوں پر حملہ بشمول یونیورسٹی گرڈ اسٹیشن پر رات بھر قبضہ کئے رکھا۔ 2: قابضین نے اُن علاقوں کو بجلی کی فراہمی بحال رکھی جہاں چوری (لائن لاسیز) کے اعدادوشمار غیرمعمولی ہیں۔ 3: اندیشہ ہے کہ وفاقی حکومت کی تنصیبات پر سیاسی کارکنوں کے مزید حملوں (دراندازی) کا سلسلہ جاری رہے گا۔ 4: سادہ لوح عوام کو غنڈہ گردی اور قانون ہاتھ میں لینے کے لئے اکسایا جا رہا ہے جبکہ تصادم کی صورت خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ 5: اراکین صوبائی اسمبلی کی قیادت میں پرتشدد احتجاج کا جاری سلسلہ (رجحان) کی وجہ سے صورتحال گھمبیر شکل اختیار کر سکتی ہے۔ 6: قانون کو ہاتھ میں لینے کی روش مثالی نہیں اور صوبائی حکومت اگر راست اقدامات نہیں کرتی تو خدانخواستہ جانی یا پیسکو تنصیبات کو کسی بھی قسم کے نقصان کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوگی۔

قانون کو ہاتھ میں لینے اُور تصادم کی صورتحال کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے اگر پیسکو حکام صوبائی کابینہ اور اسمبلی کو اعتماد میں لیتی تو اِس قسم کی ’بداعتمادی‘ کا جواز ہی پیدا نہ ہوتا۔ پیسکو حکام زیادہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے تو جن علاقوں سے صارفین بجلی بلوں کی اِدائیگیاں نہیں کر رہے‘ وہاں کے متعلقہ اَراکین اسمبلی اُور بالخصوص تحریک انصاف کے اَثرورسوخ سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن ’پیسکو‘ اُور ’خیبرپختونخوا حکومت‘ کے درمیان فاصلے خلیج کی صورت ہر گزرتے دن بڑھ رہے ہیں۔ قومی ادارے چاہے وفاقی ہوں یا صوبائی ’تعاون و ترقی‘ کے لئے عوام کی بہتری مقصود و مطلوب ہونی چاہئے۔ پیسکو حکام کو سوچنا چاہئے کہ اُن کے خلاف احتجاج کی نوبت ہی بھلا کیوں آئی اور اگر یہ سلسلہ قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں سے شروع ہوا ہے‘ تو عوام کے منتخب نمائندوں کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ عوامی دباؤ (غم وغصے) کے آگے بند باندھ سکیں۔ افسرشاہی کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام یا عوام کے نمائندوں کو جواب دینا پسند نہیں کرتے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے معاملات رازداری کی بناء پر بگڑ رہے ہیں۔ 

وفاقی حکومت کی ممکنہ خواہش پر صوبائی حکومت کے لئے سیاسی مشکلات پیدا کرنے کی بجائے پیسکو حکام اپنے کام سے کام رکھیں اور اپنی اُس نااہلی کا اعتراف کریں جس کی وجہ سے ’سوفیصد بجلی کے بل دینے والے علاقوں کے صارفین بھی مطمئن نہیں۔‘ پیسکو کا ادارہ ترسیلی نیٹ ورک کی خرابیاں دور کرنے کے لئے خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں کررہا۔ قابل غور ہے کہ ’نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)‘ کی رواں برس (دوہزارسترہ) ماہ فروری میں پانچ سالہ رپورٹ شائع میں کہا کہ ’’بجلی کی فراہمی کرنے والی جملہ کمپنیاں بشمول پیسکو کی کارکردگی مثالی نہیں۔ ’لائن لاسیز (T & D losses) کی ذیل میں پیسکو کو زیادہ سے زیادہ ’26 فیصد‘ خسارہ برداشت کرنے کی اجازت ہے لیکن پیسکو کے 34.8فیصد ’لائن لاسیز‘ نیپرا کی نظر میں ناقابل قبول ہیں اور ابھی اِس ادارے کے فیصلہ سازوں کو اپنی کارکردگی (ہنر) ثابت کرنا ہے!‘‘ رمضان المبارک‘ موسم گرما اُور بجلی کی لوڈشیڈنگ الگ الگ حقیقتیں نہیں۔ رمضان میں ویسے ہی ہر کس و ناکس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اور بجلی کی ’بحرانی کمی‘ تو کسی ایک شہر یا گاؤں کا نہیں بلکہ پورے ملک کا حل طلب مسئلہ ہے اور اِسے قومی تناظر ہی میں دیکھنا چاہئے۔ کسی بھی وفاقی یا صوبائی ادارے کو یہ بات قطعی زیب نہیں دیتی کہ وہ قومی و حساس معاملات پر سیاست کے کسی ایجنڈے کو آگے بڑھائے۔ 

تجویز ہے کہ عوامی احتجاج اور قومی تنصیبات پر مزید ممکنہ حملوں کے بارے خفیہ اطلاعات کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ صوبائی حکومت کی طرح امن و امان کے حالات مزید بگڑنے سے بچانے کی ذمہ داری ’پیسکو‘ حکام پر بھی عائد ہوتی ہے جنہیں اپنی اپنی انا اور سیاسی ترجیحات بالائے طاق رکھنا ہوں گی! اراکین اسمبلیوں کی قیادت ہو یا نہ ہو عوام سے تصادم کی بجائے ’افہام و تفہیم‘ کی راہ اختیار کرنے ہی میں عافیت ہے اور آج کی تاریخ میں دستیاب و موجود یہ موقع بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے‘ کہ جس میں ایک دوسرے کے نکتۂ نظر اور مؤقف سے اختلافات بذریعہ بات چیت طے (حل) ہو سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment