Sunday, May 28, 2017

May2017: TRANSLATION: Robin Hood by Dr Farrukh Saleem

Reverse Robin Hood
نجات دہندہ!
خوشخبری یہ ہے کہ ایک دہائی (دس برس) کے دوران پاکستان کی مجموعی خام اقتصادی ترقی (جی ڈی پی) کی شرح نمو 5.28 فیصد جبکہ مہنگائی کی شرح 4 فیصد کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔ مہنگائی کی اِس صورتحال کا موازنہ اگر پاکستان پیپلزپارٹی کے ’دور حکومت‘ سے کیا جائے تو صورتحال میں بہتری غیرمعمولی دکھائی دیتی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مہنگائی کی شرح پچیس فیصد تک جا پہنچی تھی اور یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں قریب آٹھ سال پہلے ہی تو بات ہے جب پیپلزپارٹی دور حکومت تھا۔ یہ امر بھی قابل بیان ہے کہ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں کم ترین شرح سود مقرر ہے لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ بیان کرنے کو بس یہی چند خوشخبریاں دامن مضمون میں سما سکتی ہیں!

پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہ اہے کہ قومی ترقیاتی حکمت عملی کے لئے دو اعشاریہ ایک کھرب روپے جیسی خطیر رقم مختص کی گئی ہے اور اِس رقم کی تقسیم صوابدیدی طریقے سے کیا جائے گا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مالی سال 2017-18ء کے لئے وفاقی حکومت کا بجٹ عام انتخابات کو ذہن رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے جس سے مسلم لیگ (نواز) کو وفاقی حکومت کے خزانے سے ایک کھرب جبکہ پنجاب حکومت کے خزانے سے 500 ارب روپے ملیں گے‘ جسے پارٹی اپنی سیاسی ترجیحات کے مطابق خرچ کرے گی۔

غور کیجئے کہ 2.1 (دو اعشاریہ ایک) کھرب روپے قومی ترقیاتی حکمت عملی کے لئے مختص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ 40ہزار روپے ہر پاکستانی ووٹر کے تناسب سے علیحدہ کر لئے گئے ہیں۔ غور کیجئے کہ دواعشاریہ ایک کھرب روپے کی رقم اگر سال 2013ء میں مسلم لیگ (نواز) کے لئے ووٹ کرنے والوں پر تقسیم کی جائے تو یہ فی ووٹر ڈیڑھ لاکھ روپے بنتے ہیں۔ غور کیجئے کہ دو اعشاریہ ایک کھرب روپے اگر پاکستان کے ہر خاندان پر تقسیم کئے جائیں تو یہ 75 ہزار روپے بنیں گے! اب کسی ایسی سیاسی جماعت کو عام انتخابات میں کوئی کیسے شکست دے سکے گا‘ جس نے قومی خزانے کو سیاسی ترجیحات اور عام انتخابات مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اِس انداز میں خرچ کرنے کا عزم کر رکھا ہو کہ یہ رقم تحلیل (خرچ) بھی ہو جائے لیکن ناکافی رہے!

پاکستان کے وفاقی بجٹ 2017-18 کا سب سے بڑا اور بنیادی خرچ یہی ’’2.1 کھرب روپے‘‘ ہیں جن کا 70فیصد حصہ ایسے منصوبوں پر خرچ ہوگا جن میں سیمنٹ اور سریا استعمال ہو۔ 20فیصد گاڑیوں کی خرید اور چار فیصد انسانی ترقی جبکہ قریب چار ہی فیصد دیگر متفرق اخراجات کی نذر ہوگا۔ اندازہ ہے کہ اِن ’2.1کھرب روپوں‘ کا زیادہ سے زیادہ چھ سو ارب اور کم سے کم دوسو ارب روپے جیسا خطیر حصہ مالی و انتظامی بدعنوانیوں یا ادارہ جاتی نااہلیوں کے سبب ضائع ہو جائے گا۔

بجٹ 2017-18ء کا تعلق کسی بھی طرح ہمارے معاشرے کے اُس طبقے سے نہیں جو سب سے زیادہ مستحق ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان دو کھرب روپے ایک ایسی ترقی کے نام پر خرچ کرنے جا رہا ہے جس سے اُس کی اکثریتی آبادی کے مشکلات بھرے روزوشب (معمولات) پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیا ہمارے حکمران نہیں جانتے کہ پاکستان کی قریب 30فیصد آبادی یعنی 6 کروڑ لوگوں کی معاشی حالت کچھ ایسی ہے کہ وہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں یعنی تیس فیصد پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی دوسو روپے سے کم ہے! اگر یہ بھی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وفاقی بجٹ میں کم آمدنی اور بالخصوص غربت کے شکار طبقات کے لئے براہ راست کچھ مختص نہیں۔ وہ لوگ جو غذائی قلت کا شکار ہیں‘ جنہوں بھوک پیاس لاحق ہے‘ جنہیں بیماریوں نے آ گھیرا ہے اور جنہیں اپنی بقاء کے مراحل درپیش ہیں‘ اِس وفاقی بجٹ کے حساب سے شمار ہی نہیں ہوئے!

کسی بھی اقتصادی ترقی کا انحصار‘ کسی ملک میں پیدا ہونے والی بجلی پر ہوتا ہے۔ اقتصادی جائزہ برائے سال 2016-17ء کے تحت دیئے گئے اعدادوشمار کو اگر قابل بھروسہ سمجھا جائے تو پاکستان میں بجلی اور گیس کے شعبوں میں 3.5فیصد کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) بھلا کیسے 5.3فیصد ہو سکتی ہے!؟

اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق سال 2017ء میں ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 22.9ملین سے بڑھ کر 25.1 ملین میگاواٹ رہی لیکن بجلی کی پیداوار کم ہوئی۔ کہنے کا مطلب ہے کہ پیداواری صلاحیت موجود ہے لیکن حکومت اِس قابل نہیں کہ وہ ملک کی مجموعی پیداواری صلاحیت سے خاطرخواہ استفادہ کر سکے۔

مالی سال کے لئے ’آمدن و اخراجات‘ کا سالانہ میزانہ (بجٹ) ’خیالی من گھڑت تصورات‘ پر نہیں بلکہ مستقبل کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرتب ہونا چاہئے لیکن یہ الفاظ کا گورکھ دھندا اور مقصدیت سے خالی دکھائی دیتا ہے جس میں اعدادوشمار کے ذریعے کچھ ایسا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا عملی زندگی اور برسرزمین حقائق سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ بجٹ معیار کے لحاظ سے عوام کی توقعات اور ضروریات کا احاطہ نہیں کر رہا۔ بجٹ 2017-18ء اُس کردار (رابن ہڈ) کی کہانی کا الٹ ہے جو اپنے وقت کے امیروں سے سرمایہ چھین کر اُسے غریبوں میں تقسیم کر دیا کرتا تھا۔ بجٹ میں پہلے سے عائد اُن تمام ٹیکسوں (محصولات) کو نہ صرف برقرار بلکہ اُن کی شرح بھی بڑھا دی گئی ہے جس میں ملک کے کم آمدنی رکھنے والے طبقات سے نسبتاً زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ چونکہ حکومت سرمایہ دار طبقات سے خاطرخواہ ٹیکس وصول کرنے میں عملاً ناکام ثابت ہو رہی ہے اِس وجہ سے اپنی اِس نااہلی کی سزا غریبوں کو دی جا رہی ہے اور اُن سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ کسی رحم دل ’رابن ہڈ‘ کے عمل کی یہ برعکس مثال اپنی جگہ دلچسپ و عجیب اور منفرد ہے۔ آج کے پاکستان کی اقتصادی مشکلات و مسائل کے حل بارے توقعات اُس ’رابن ہڈ (نجات دہندہ)‘ جیسے کردار سے وابستہ ہیں‘ جو ملک کے سرمایہ داروں کی بجائے غریبوں پر رحم کرے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرجسین اِمام)

2 comments:

  1. First the good news: GDP growth at 5.28 bjpercent is at a 10-year record. The rate of inflation hovers at around 4 percent compared to a high of 25 percent during the PPP government, eight years ago. And we are in a low interest rate environment. Alas, that’s about it.

    For the first time in Pakistan’s history, our annual budget exercise has allocated an amount of Rs2.1 trillion to a totally discretionary component of the budget – euphemistically the Public Sector Development Programme (PSDP). Budget 2017-18 is truly an election-year budget. Yes, the PML-N government at the federal level now has an election purse of over Rs1 trillion plus the PML-N government in Punjab has Rs500 billion.

    Imagine: a Rs2.1 trillion election purse means Rs40,000 for each and every Pakistani voter. Imagine: a Rs2.1 trillion election purse means Rs150,000 for each and every Pakistani voter who voted for PML-N in 2013. Imagine: a Rs2.1 trillion election purse means Rs75,000 for each and every family that lives in Pakistan. Who can beat that?

    The single largest expense item in Budget 2017-18 is the Rs2.1 trillion PSDP. Of the Rs2.1 trillion, 70 percent goes into ‘steel and cement’ projects, 20 percent into the buying of vehicles and a mere 6 percent into human capital (other: 4 percent). Of the Rs2.1 trillion, estimates on how much leaks out in the form of corrupt practices ranges from a low of Rs200 billion to a high of Rs600 billion.

    ReplyDelete
  2. Budget 2017-18 has absolutely nothing for the most deserving segments of our population. Imagine: around 30 percent of our population or 60 million Pakistanis are managing to survive below the level of poverty – at or below Rs200 per day. Imagine: around 25 percent of our population or around 50 million Pakistanis are mentioned. There’s nothing in the budget for all the people that are below the poverty line or suffer from malnutrition.

    On the GDP growth front there’s an anomaly that I am trying to understand: The Economic Survey 2016-17 states that the electricity and gas sectors expanded by a mere 3.5 percent. How come the GDP expanded by 5.3 percent? Isn’t there always a correlation between economic growth and the amount of electricity produced?

    Here’s the hard reality about the energy sector: The Economic Survey states that the installed capacity has gone up from 22.9 million MW last year to 25.1 million MW in 2017. But power generation has gone down from 101,970GW/h (July-March) last year to 85,206 GW/h (July-March). In essence, there is a lot of generation capacity out there, but the government is not being able to generate electricity out of it. That’s really serious.

    A budget ought to be visionary. Our budgets are just numbers. A budget ought to have objectives. Our budgets are all about numerical targets. A budget has to be qualitative. Our budgets are all quantitative.

    Budget 2017-18 is another in a series of ‘reverse Robin Hood’ operations – ‘stealing from the poor and distributing among the rich’. Around 60 percent of all taxes in the budget are regressive in nature (a regressive tax is a ‘tax that takes a larger percentage of income from low-income earners than from high-income earners’). In essence, the poorest of the poor Pakistanis are being burdened more and more as the government fails to collect taxes from the rich. That’s a classic case of ‘reverse Robin Hood’.

    ReplyDelete