Saturday, May 27, 2017

May2017: Downfall of PIA CAA, feeling the guilt!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
احساس جرم!
سیدھی سادی بات یہ ہے کہ اپنی حد (حق) سے تجاوز کرنے کی ابتدأ سے انتہاء تک کا عمل ’جرم‘ کہلاتا ہے جس کے منفی نفسیاتی اثرات کے بارے میں مشرق و مغرب اور ماضی و حال کے ماہرین کا جس ایک پہلو پر حیرت انگیز طور سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’جرم کا ارتکاب کرنے والا سب سے پہلے اپنے آپ سے کٹ کر رہ جاتا ہے‘ اُسے اپنے لہجے کی کرختگی اور چہرے پر معصومیت برقرار رکھنے کے اداکاری سیکھنا پڑتی ہے لیکن اُس کے قول و فعل میں تضاد رہتا ہے۔ اُسے اطمینان و یقین نصیب نہیں ہوتا۔ اچھے عمل سے بھی اُسے ’اخلاقی جرأت (دلی مسرت)‘ نہیں ملتی اور اُس پر انسانوں کے مرتب کردہ قوانین کے تحت بھلے ہی دفعات کا اطلاق نہ بھی ہو سکے لیکن وہ اپنے ضمیر کے سامنے (مسلسل ایک جیسی حالت میں) شرمسار رہنے کے باعث اندر ہی اندر کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اُور حتمی طور پر جرائم کی پاداش سے ملنے والا ’اِحساس جرم‘ اُسے دیمک کی طرح چاٹ کھاتا ہے۔‘‘ لیکن جب ہم اپنے معاشرے‘ اردگرد کے ماحول کو دیکھتے ہیں تو ’ہر خوش قسمتی کے پیچھے نہ تو جرم ثابت ہو رہا ہے‘ اور نہ ہی راتوں رات سرمایہ دار بننے والوں کو درپیش ندامت اُس انتہاء پر دکھائی دیتی ہے جہاں اُس کے بوجھ سے مجرموں کی آنکھیں اُور سر جھک جائیں!

لوٹ مار اور چیخ و پکار جاری ہے لیکن کوئی نہیں سن رہا‘ نہ سوچ رہا ہے کہ آخر دہائیوں سے خسارے کا شکار قومی جہاز راں ادارہ ’پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے)‘ کے زوال میں اچانک (یک بہ یک) تیزی کیسے آ گئی ہے اور طویل عرصے سے جاری بحران (کرائسیز) کا ذمہ دار جو بھی ہو لیکن اِسے حل نہ کرنے اور موجودہ حالات کو ’جوں کا توں‘ برقرار رکھنے کے ذمہ دار (غفلت کے مرتکب) کون ہیں؟ ایک ایسا وقت بھی تھا جب ’پی آئی اے‘ کا موجودہ ادارہ جسے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی موجودہ وفاقی حکومت ختم یعنی نجکاری کو ’بچت‘ کی واحد صورت قرار دے رہی ہے‘ دنیا کی بہترین ’ائرلائن‘ ہوا کرتی تھی۔ اِس میں تھائی لینڈ کا شاہی خاندان سفر کرتا تھا۔ اِس میں ہالی وڈ کے فنکار سوار ہونا اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔ یہ ایسی شاندار ائرلائن ہوا کرتی تھی کہ امریکہ کی خاتون اوّل جیکولین جب پاکستان کے دورے پر آئیں تو برطانیہ جانے کے لئے انہوں نے دنیا بھر کی ائرلائنز میں سے ’پی آئی اے‘ کا انتخاب کیا۔ پی آئی اے ہی ’ایشیاء کی ایسی پہلی ’ائرلائن‘ تھی‘ جس نے جدید مسافر طیارے (بوئنگ 707‘ 737 اور 771) خریدے اور اِسے امریکن و یورپی شہری ہوا بازی (سول ایوی ایشنز) کے اِداروں نے اجازت نامے (کلیئرنس سرٹیفیکٹس) دیئے اور پی آئی اے دنیا کی پانچ بڑی ائرلائنز کا بانی ادارہ بھی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی ’ایمریٹس ائرلائن‘ کا پہلا جہاز 1985ء میں پاکستانی پائلٹ کیپٹن فضل غنی نے اُڑایا تھا اور اُس جہاز کا تمام عملہ پاکستانی تھا۔ ’پی آئی اے‘ بطور مضمون ’مالٹا (تین سو سولہ مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل وسط بحیرہ روم کے کنارے جنوبی یورپی ملک)‘ کے تدریسی نصاب میں شامل ہے لیکن آج ماضی کا وہ عظیم اِدارہ کہاں ہے؟ افسوس کہ آج ہماری فضائی میزبان (ائرہوسٹسیز) بیرون ملک چوری کرتے ہوئے پکڑی جاتی ہیں! اِن کے دستی سامان (بیگز) سے ممنوعہ منشیات برآمد ہوتی ہیں! پائلٹ جہاز اُڑتا چھوڑ کر سو جاتے ہیں! اِس کا عملہ شراب نوشی کا مرتکب پایا جاتا ہے۔ اِس کے پائلٹ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کاک پٹ میں خوبصورت‘ جوانسال غیرملکی خواتین کو جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اِسی ’پی آئی اے‘ کے پائلٹ من پسند ائرہوسٹس کے ہمراہ نہ ہونے پر جہاز اُڑانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پائلٹ سمیت عملے کی تعلیمی اسناد جعلی ثابت ہوتی ہیں اور یہ نشے کے عالم میں بیرون ملک کے ائرپورٹس پر لڑکھڑاتے (ڈگمگاتے) نظر آتے ہیں! پھر چشم فلک نے وہ دن بھی دیکھا کہ جب ’پی آئی اے‘ کی ایک عالمی پرواز کے عملے کے ’پاسپورٹس‘ ضبط کر لئے گئے‘ عملے کی انگلیوں کے نشانات لینے کے بعد انہیں کئی گھنٹوں تک تفتیش کے لئے زیرحراست رکھا گیا کیونکہ طیارے سے ’ہیروئن‘ برآمد ہوئی! ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے! پستی کا یہ سفر کہیں تو رُکنا چاہئے۔ کوئی تو ہو جو اُس ادارے کو مزید تباہی سے بچائے جس پر ’پاکستان کا قومی جھنڈا‘ لگا ہوا ہے!

مبارک بادوں کا تبادلہ ہوا جب رواں برس فروری (دوہزارسترہ) کی چودہ تاریخ وفاقی حکومت کے ’کیبنٹ ڈویژن‘ نے اعلامیہ (نوٹیفکیشن) جاری کیا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ کسی وفاقی وزیر کے مساوی مراعات و حیثیت کے ساتھ وزیراعظم کے لئے ایک عدد ’’مشیر‘‘ کی تقرری کی گئی ہے جو ’شہری ہوابازی (سول ایوی ایشن)‘ کے محکمے کی کچھ اِس انداز میں اصلاح کریں گے کہ وہ خسارے سے منافع بخش ادارے میں تبدیل ہو جائے۔ تالیاں بجائی گئیں جب مذکورہ ’’مشیر‘‘ نے اٹھارہ مئی کو ایوان بالا (سینیٹ) کی 18 رکنی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر تجویز دی کہ ’پی آئی اے کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے اِسے بند (ختم) کردینا چاہئے۔‘ سیاسی فیصلہ سازوں کو داد دینے کا مقام ہے کہ جن کے ذاتی کاروبار‘ اُن کے اہل وعیال کی مالی حیثیت میں دن دگنی اور رات چوگنی (progressing by leaps and bounds) ترقی ہو رہی ہے لیکن ’پی آئی اے‘ سے متعلق اُن کی تدابیر کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے اور اِن کا خسارہ 100 ارب روپے کی نفسیاتی حد عبور کر چکا ہے! پی آئی اے کی کارکردگی سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا غیرمعمولی اجلاس پندرہ مئی کے روز ہوا‘ جس میں ہیتھرو ائرپورٹ (لندن) پر پیش آنے والے واقعے کے محرکات اور حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کرنا تھا کہ برطانیہ میں ’پی آئی اے‘ کی پرواز ’PK-785‘ کے تمام مسافروں کے اُترنے کے بعد جہاز اُور عملے کی تلاشی لینے پر ہیروئن برآمد ہونا‘ عملے کے اراکین کو قریب ڈھائی گھنٹے حراست میں رکھنے سے پاکستان نے کیا سبق سیکھا کیونکہ یہ آخری واقعہ (سانحہ) ثابت نہیں ہوا‘ اُور بعدازاں اِسلام آباد ائرپورٹ پر ’پی آئی اے‘ کے برطانیہ جانے والے طیارے سے ہیروئن برآمد ہوئی! 

تصور محال ہے کہ اگر برطانیہ میں دوسری مرتبہ بھی ’پی آئی اے‘ سے منشیات برآمد ہوتیں‘ تب یہ اَمر پاکستان کے لئے کس قدر شرمندگی کا باعث بنتا؟ تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر دیکھنا یہ باقی ہے کہ دنیا ہمارے لئے کیا سزا تجویز کرتی ہے۔ ہمیں یقیناًایسی قوم کا لقب دیا جائے گا‘ جس پر اُس کے غلط ’انتخابی فیصلوں‘ کی وجہ سے ایسے نااہل افراد بطور حکمران مسلط ہوئے ہیں‘ جن کے ضمیر مردہ ہیں‘ جنہیں نہ تو قومی اِداروں کو تباہی سے دوچار کرنے جیسے قومی جرائم کی سنگینی کا اندازہ ہے اور نہ ہی اِن کے دل ’اِحساس جرم‘ کی وجہ سے بوجھل ہیں!

No comments:

Post a Comment