Friday, May 26, 2017

May2017: Tracking budget with a sense of responsibility!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِصلاح اَحوال: ذمہ داریاں!
جمہوریت کے لغوی معنی ’’لوگوں کی حکمرانی‘‘ کے ہیں۔ یہ اصطلاح دو یونانی الفاظ ڈیمو (Demo) یعنی لوگ اور کراٹوس (Kratos) یعنی حکومت کا مجموعہ ہے۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس (Herodotus) کے بقول ’’جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں۔‘‘ امریکہ کے صدر ابراہم لنکن کی دانش میں ’’عوام کی حاکمیت‘ عوام کے ذریعے اور عوام پر ہوتی ہے‘‘ لیکن جمہوریت کو ’شفاف‘ اور ’جوابدہ‘ بنانے کے لئے دنیا کے ہر جمہوری ملک کے اپنے تجربات اور اُن کے حاصل ہونے والے نتائج الگ الگ ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت سے جڑی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے غیرملکی امداد سے کئی تنظیمیں (این جی اُوز) کام کر رہی ہیں جن کی ’’سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو (سی پی ڈی آئی)‘‘ بھی شامل ہے‘ جس نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی آمدن واخراجات کے میزانیئے (بجٹ) کی معلومات کو موبائل فون ایپ (اینڈروائڈ سافٹ وئر) کے ذریعے عوام تک پہنچانے کا وسیلہ مہیا کیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی منفرد ’موبائل ایپلی کیشن‘ کے ذریعے گویا سمندر کو ایک کوزے میں بند کر دیا گیا ہو۔ کم و بیش پانچ میگابائٹس کی ’بجٹ ٹریکر‘ (Budget Tracker) نامی بلاقیمت ’ایپلی کیشن‘ درجہ بندی کے لحاظ سے ’ایپل سٹور‘ کے ’شعبۂ تعلیم‘ میں رکھی گئی ہے‘ جہاں سے اِسے تین ماہ کے دوران ایک سو سے زائد افراد ’ڈاؤن لوڈ‘ کر چکے ہیں جن میں سے 66 صارفین نے 5 میں سے 4.9 سٹارز دے کر پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ یہ ’نئی ایپلی کیشن‘ انگریزی زبان میں تخلیق کی گئی ہے جس سے استفادہ کرنے کے لئے صارف کا بنیادی انگریزی سے خواندہ ہونا ضروری ہے اور چونکہ دفتری زبان بالخصوص اقتصادی اصطلاحات ابھی اُردو یا علاقائی زبانوں میں ترجمہ (ٹرانسلیٹ) نہیں ہوئیں‘ اِس لئے تکنیکی اور فنی وجوہات کی بناء پر عام الرائج ’انگریزی‘ زبان ہی اِس موقع پر درست (دانشمندانہ) انتخاب (فیصلہ) ہے لیکن سب کچھ زیادہ ٹھیک اور مثالی بھی نہیں!

خیبرپختونخوا کے لئے ’سی پی ڈی آئی‘ کے صوبائی کورآرڈینیٹر شمس الہادی کے بقول بجٹ کے اعدادوشمار موبائل فون کے ذریعے عوام تک پہنچانے کا تصور کئی سال سے زیرغور تھا لیکن اِس کے لئے درکار مالی وسائل دستیاب ہونے کے بعد سافٹ وئر کی تیاری میں ’چار ماہ‘ لگے۔ کسی سافٹ وئر کی تخلیق سے زیادہ اُس کے بیٹا (beta) ورژنز کی جانچ کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور اگر ’بجٹ ٹریکر‘ کی تیاری میں بھی عجلت سے کام نہ لیا گیا ہوتا 1: مذکورہ ایپلی کیشن اینڈرائرڈ کے تمام سافٹ وئرز کے لئے قابل استعمال ہوتی۔ پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے زمینی حقائق پیش نظر رکھنا ضروری تھے‘ کیونکہ لازمی نہیں کہ ہر موبائل صارف کے پاس غیرملکی امداد سے خریدے یا تحفتاً ملنے والا کوئی ’جدید موبائل فون‘ ہی ہو! پرانے ماڈل کے اینڈرائڈ فونز رکھنے والوں پر مشتمل اکثریت کا بھی خیال کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ بجٹ اعدادوشمار عوام سے زیادہ صحافیوں کے لئے کارآمد ہو سکتے ہیں‘ جن کے لئے ہر وقت اپ ڈیٹ رہنا‘ مختلف دفاتر کے چکر اور سالہا سال کے اعدادوشمار ہر وقت ساتھ رکھنا ممکن نہیں ہوتا لیکن اگر ایسے صحافیوں کے پاس جدید انڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم نہ ہوئے اور اُن کا موبائل فون چند سال پرانے ماڈل کا ہوا تو ’بجٹ ٹریکر‘ سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اِسی طرح عام آدمی کے لئے بجٹ کے اعدادوشمار سمجھنا مشکل ہوتا ہے جنہیں صحافی خاص مہارت سے آسان بناتے ہیں تو اگر ’بجٹ ٹریکر‘ میں ’نیوز رپورٹس‘ اور ’بلاگز‘ کو بھی شامل کر لیا جائے تو اِنہیں اعدادوشمار سے لنک کر دیا جائے تو صارفین کو تکنیکی اصطلاحات یا بجٹ میں مختص مالی وسائل کے دیگر متعلقہ پہلوؤں سے بھی آگاہی ہو گی اگر وہ مزید جاننے کا خواہشمند ہو۔ 2: بجٹ ٹریکر ایپلی کیشن اینڈرائڈ سسٹم کے لئے بنائی گئی ہے جبکہ اِسے بیک وقت آئی فونز‘ آئی پیڈز اُور ونڈوز آپریٹنگ سسٹمز رکھنے والوں کے لئے تخلیق کیا جاسکتا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر اِس حکمت عملی کو کسی دوسرے مرحلے (شاید مزید فنڈنگ) تک کے لئے مؤخر کر دیا گیا ہے۔ 

سمجھا جا سکتا ہے کہ ’این جی اُوز‘ کے ہاتھ پاؤں بندھے بھی ہوتے ہیں انہیں ڈونر ایجنسیوں کو متاثر کرنے کے لئے بھی بہت کچھ نمائشی طور سے کرنا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں بہت سے ’این جی اوز‘ صرف اِس لئے فعال دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس ’رپورٹ رائٹنگ‘ کرنے کی مہارت ہوتی ہے! این جی اُوز معروف (مہنگے) ہوٹلوں میں تقاریب کا انعقاد کر کے اپنی کارکردگی اصلاً کی بجائے واجبی اور رپورٹوں کی صورت دکھانا کی حد تک محدود رہتے ہیں تو اِس میں بھی مجبوری (ضرورت) کا عنصر شامل ہوتا ہے لیکن ’سی پی ڈی آئی‘ کاغذی شیر نہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ نمائشی محرکات (ضروریات) کے باعث ’بجٹ ٹریکر‘ بنانے والوں نے ’عجلت‘ کا غیرضروری مظاہرہ کیا وگرنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ مختلف ’پلیٹ فارمز‘ پر موافقت (compatibility) کی جانچ کئے بناء ’ایپلی کیشن‘ پنجاب (لاہور) کے بعد خیبرپختونخوا (پشاور) میں لانچ کی جاتی۔ 

یہ اَمر بھی افسوسناک ہے کہ لاہور میں متعارف (لانچنگ) کرنے کے 2 ہفتوں بعد پشاور میں ’فخریہ پیشکش‘ تک کے عرصے میں کہیں سے بھی فیڈبیک میں ’موافقت‘ کی بات سامنے نہیں آئی۔ دیکھنا ہوگا کہ جن عام صارفین نے ’بجٹ ٹریکر‘ کو انتہائی پسندیدگی سے نوازہ ہے وہ کہیں سافٹ وئر ڈویلپئرز یا ’سی پی ڈی آئی‘ کے ملازمین ہی تو نہیں! جس طرح ہم حکومت اور سرکاری ملازمین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرض شناس ثابت ہوں بالکل اِسی طرح غیرسرکاری تنظیموں سے بھی ذمہ دارانہ طرزعمل کی توقع کرتے ہوئے اُمید ہے کہ بیرونی امداد سے ملنے والی ہر ایک پائی کو عام آدمی (ہم عوام) کی امانت سمجھتے ہوئے خرچ کیا جائے گا۔ صحافیوں کی جانب سے بازگیری (فیڈبیک) نہ ملنے کی بنیادی وجہ بھی غورطلب ہے کہ پاکستان میں ’ٹیکنالوجی سے متعلق صحافت (جنرلزم)‘ پروان نہیں چڑھی۔ اُردو اخبارات پر سیاسی موضوعات حاوی رہتے ہیں اور ٹیکنالوجی جیسی بوریت کے لئے اشاعتوں بھی ایجادات متعارف کرانے تک محدود رہتی ہیں۔ 

خوش آئند ہے کہ ’سی پی ڈی آئی‘ کی جانب سے ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع صحافیوں کے لئے حفاظتی تدابیر سے آگاہی‘ غیرمعمولی حالات میں صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی‘ صحافتی اصولوں اور اقدار سے متعلق وقتاً فوقتاً تعارفی و تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے لیکن اگر آئندہ تربیتی ورکشاپوں کا نصاب (لائحہ عمل) مرتب کرتے وقت ٹیکنالوجی اور مرکوزیت (convergence)‘ کے مضامین کو بھی نصاب میں شامل کر لیا جائے تو اِس سے الیکٹرانک میڈیا اور صحافت کے بدلتے اسلوب و مستقبل پر دور رس (مثبت) اثرات مرتب ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment