ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کام سے کام!
پشاور کے سرتاج علمی و روحانی گھرانے آستانہ عالیہ حسنیہ کے چراغ پیرطریقت سیّد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی سرکاررحمۃ اللہ علیہ (المتوفی چودہ سو پچیس ہجری) کی صحبت بابرکات میں ایک مرتبہ خیروشر کی بحث میں برسبیل مثال سُوال زیربحث آیا کہ ’اللہ تعالیٰ نے شیطان کو (شر کی) آزادی کیوں دی؟‘ آپؒ نے فرمایا (جس کا تلخیص یہ ہے) کہ ’’خیر کا اصطلاحی مفہوم سمجھنے سے شر کے معانی خودبخود واضح ہو جائیں گے کیونکہ ہمارے ہاں بہت سے الفاظ‘ کلمات اور اصطلاحوں کی علمی سطح پر الگ الگ تعریفات ماخوذ ہیں یعنی علمی و عرفی سطح پر لفظ کا مفہوم کچھ اُور ہوتا ہے لیکن عرف عام میں اُسے مختلف انداز میں سمجھا جاتا ہے۔ اِس لئے سب سے پہلے تو یہ بات ضروری ہے کہ علمی اور عرفی سطح پر الفاظ کے درمیان مطالب کے اِس فرق کو معمولی نہ سمجھا جائے اور دوسرا اِس بذریعہ تحقیق اِس فرق کی تہہ تک جایا جائے۔ جس کے ضروری ہے کہ جس کسی بھی علم کی بحث ہو‘ اُس کے متعلقہ ماہر (اہل) سے رائے لی جائے۔ اگر کوئی شخص چند بیماریوں کے نام سیکھ لے اور اُن بیماریوں کے بارے میں اپنے ذہن میں تصور قائم کر لے جیسا کہ عام طور پر مفہوم رائج ہوجاتا ہے اور پھر اپنے یقین کی بنیاد اُسی ناقص مفاہیم و تصورات پر رکھ لے تو وہ توہمات میں مبتلا رہے گا اور اُس کی زندگی ناپائیدار ہو جائے گی لیکن اگر یہی شخص کسی ڈاکٹر (متعلقہ شعبے کے ماہر) سے رہنمائی چاہے تو نہ صرف بہت سے مظالعے دور ہوتے چلے جائیں گے بلکہ کم سے کم یہ تو ضرور ہو گا کہ وہ شخص ’وہم میں مبتلا‘ نہ رہے۔ ممکن ہے کہ وہ خود کو کسی سنگین بیماری میں مبتلا سمجھ رہا ہو لیکن ڈاکٹر مسکرا کر کہے کہ آپ کو ایسی کوئی بیماری لاحق ہی نہیں اُور جس علامت (کیفیت و حال) کو آپ بیماری سمجھ رہے ہیں اُس کا سبب (وجہ) کچھ اُور ہی ہے۔ جب ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو ایسی سینکڑوں مثالیں بکھری ملتی ہیں‘ جن میں عمومی تصورات کی وجہ سے مغالطے عام ہو جاتے ہیں۔ اِسی لئے قرآن حکیم نے اکیسویں ’سورۂ انبیاء‘ کی ساتویں آیت کے ایک حصے میں یوں رہنمائی فرمائی ہے کہ (ترجمہ عرفان القرآن) ’’(لوگو!) تم اہل ذکر سے پوچھ لیا کرو‘ اگر تم (خود) نہ جانتے ہو۔‘‘ لیکن یہ بات صرف دینی علوم کی حد تک ہی محدود نہ سمجھی جائے بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی ’درست رہنمائی‘ کے لئے ’اہل‘ ہی کے پاس جانا پڑے گا۔ کسی اہل ہی کی بات کو سننا پڑے گا۔ دنیا کو امن کی ضرورت ہے تو جس طرح ’خیر اور شر‘ کے اصطلاحی مفہوم کی تلاش کرنی ہے‘ اسی طرح ’امن‘ کی کھوج (ابتدأ) بھی اُس کے اصطلاحی مفہوم ہی سے ممکن ہو گی۔
الفاظ کے اصطلاحی و عرفی مفہوم اُور متعلقہ شعبے کے اہل افراد سے رجوع کرنے پر مبنی تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے دوسری مثال ملاحظہ کیجئے۔ عراق میں مئی دوہزار تین سے جون دوہزار چار تک تعینات رہنے والے امریکہ کے سفارتکار ’’لوئس بال بریمر سوئم ( Lewis Paul Bremer III) جو کہ یکم نومبر دوہزار تین سے اٹھائیس جون دوہزار چار تک عراق کے نگران سربراہ (ایڈمنسٹریٹر) بھی رہے نے عراق کے حوزہ علمیہ قم (نجف اشرف) کے معلم اور روحانی پیشوا ’سیّد علی حسینی السیستانی‘ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن جب باوجود کوشش بھی وقت نہ ملا تو اُنہوں نے درجن سے زائد (پندرہ) صفحات پر مبنی تحریر میں عراق کی صورتحال اور قیام امن کے لئے امریکہ کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے تبادلۂ خیال کو ناگزیر قرار دیا۔ اِس طویل خط کا جواب آقائے سیستانی نے ’بناء القابات‘ صرف تین جملوں میں دیا۔ ’’باسمہ تعالیٰ۔ آپ امریکی ہیں‘ میں اصلاً ایرانی ہوں۔ عراقیوں کا مسئلہ عراقی عوام پر چھوڑ دیں۔‘‘ اِس جواب کے بعد امریکی سفارتکار بغداد سے نجف اشرف (170 کلومیٹرز فاصلہ طے کر کے) بناء اطلاع آقائے سیستانی کے دروازے پر حاضر ہوا اور صرف ’دو منٹ‘ ملاقات کے لئے وقت مانگا لیکن اُنہیں ایک منٹ بھی نہیں دیا گیا! آخر اِس درجہ یقین واطمینان کہاں سے حاصل ہوتا ہے کہ جس کی بنیاد پر کردار و فکر مستحکم ہو جائیں اور انسان دنیا کا طلبگار ہی نہ رہے؟ دنیاوی علوم کا سراب یہ ہے کہ اکثریت ’دنیا طلبی‘ کا شکار ہو کر درخواست گزار رہتی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اُس کی جانب متوجہ رہے اور بالخصوص امریکہ کا کوئی صدر‘ وزیر‘ مشیر‘ نمائندہ شرف ملاقات دے کر عزت افزائی کرے!
کون نہیں جانتا کہ ’واحد سپرپاور‘ ہونے کے بعد سے طاقت کا نشہ امریکہ کے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور امریکہ ہی کی سیاسی اور عسکری حکمت عملیوں کا نشانہ یا تو ’اسلامی دنیا کی دولت اور وسائل‘ ہیں یا پھر مسلمان کہ جنہیں توہین آمیز لہجوں میں ’بنیاد پرست‘ دہشت گرد‘ انتہاء پسند‘ قرار دیا جاتا ہے۔ آج کی حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلم دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو اِن متعصبانہ امریکی پالیسیوں سے براہ راست متاثر نہ ہو رہا ہو اور اِسی وجہ سے مسلمان ممالک کو ایک ’ملت قرآن‘ ہونے کے باوجود بھی اپنے ہی ہم مذہب کے خلاف دفاعی اتحاد بنانے پر اُکسایا گیا‘ تاکہ امریکہ کی دفاعی مارکیٹ (اسلحہ ساز اداروں) کا ’بزنس‘ بڑھے۔ امریکہ کے صدر نے اپنے پہلے غیرملکی دورے کے لئے سعودی عرب اور دوسرے کے لئے ’غاصب اسرائیل‘ کا انتخاب کرکے ایک ’ناجائز مملکت‘ کو ’جائز‘ بنانے کی کوشش کی ہے۔
مسلم ممالک کے سربراہوں کو ’شاطرانہ چال‘ کے درپردہ ’سازش‘ کے جملہ پہلوؤں پر مل بیٹھ کر غور کرنا چاہئے بشمول اِس نتیجہ خیز بحث پر مسلمان ممالک میں استصواب رائے عامہ (ریفرنڈم) کیوں نہیں ہوسکتا کہ ۔۔۔ ’’آج کی دنیا میں امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ کون ہے؟
دہشت گردی اور دہشت گردوں کا سرپرست کون ہے؟ بنیاد پرستی اُور دوستی کی آڑ میں دشمنی کرنے کی مہارت کون رکھتا ہے؟
مسلمان ممالک کو آپس میں اُلجھا کر سیاسی‘ کاروباری اور تجارتی فوائد کون حاصل کر رہا ہے؟ مسلم دنیا کی غربت و جہالت اُور امن و امان کی آگ بھڑکائے رکھنے کا درپردہ ذمہ دار کون ہے؟
عراق کے چھیاسی سالہ بزرگ آقائے سیستانی خدائی مخلوق نہیں وہ نہ تو معصوم ہیں اور نہ خطاؤں سے محفوظ لیکن اُن کے کردار کے پیچھے ’’اسلامی تعلیمات کا نور‘‘ ہے‘ جو اُن کے قول و فعل اور استحکام سے جھلک کر رہا ہے‘ یقیناًعالمی سطح پر امن کا قیام صرف اسی صورت ممکن ہے جبکہ ہر ملک اپنے کام سے کام رکھے اور سیاسی یا دفاعی سمیت جملہ معاملات میں کسی بھی دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت سے عملاً باز (الگ) رہے۔
No comments:
Post a Comment