ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
وارداتیں!
پاکستان تحریک اِنصاف خیبرپختونخوا کے ’سوشل میڈیا‘ دفتر (ڈینز سنٹر‘ پشاور) میں چوری کی ’اَنوکھی واردات‘ ہوئی ہے‘ جس پر ’اِنٹرنیٹ‘ کے ذریعے اِظہار خیال (سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس سے استفادہ) کرنے والے حلقوں کی جانب سے ’آن لائن اور آف لائن‘ تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ چوری کے لئے آنے کسی بیش قیمت کمپیوٹر آلات کی بجائے صرف وہی آلات (ہارڈوئرز) ’نہایت مہارت‘ سے کیوں اُتار لے گئے جن کی ’فرانزک جانچ‘ ممکن ہے؟ اگر یہ چوری کی ’عمومی واردات‘ ہوتی تو اِس میں نفاست کا اِس قدر عملی مظاہرہ دیکھنے کو نہ ملتا۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی جانب سے اِس واردات کو ’وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)‘ کی کارستانی (خفیہ کاروائی) بیان کیا گیا ہے‘ جبکہ ’ایف آئی اے‘ کی جانب سے تردید اور مقامی پولیس کی جانب سے مقدمہ درج نہیں کیا گیا! یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں حکمران ہی نہ ہو کہ اُس کے ایک دفتر پر کاروائی سے متعلق اگر وضاحت آئی بھی تو مرکزی عہدیداروں کی جانب سے! کیا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اِس قسم کے حوصلے (برادشت) کی کوئی دوسری مثال پیش کی جا سکتی ہے؟
بنیادی قضیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف ہو یا کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت‘ فرضی ناموں سے سوشل میڈیا اکاونٹس استعمال ہو رہے ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اِن فرضی اکاونٹس کے ذریعے جس نکتۂ نظر کی تشہیر ہو رہی ہے‘ وہ ایک محدود سرکل میں ہونے کے باوجود بھی تاثیر کے لحاظ سے اِس لئے زیادہ ہے کیونکہ خطیب اور مخاطب دونوں ’صائب الرئب‘ بھی ہیں اور اِس بات پر اتفاق بھی رکھتے ہیں کہ اُن کا آپس میں کسی بھی معاملے پر اتفاق نہیں!
سوشل میڈیا پر انفرادی حیثیت میں بھی جو کچھ لکھا جا رہا ہے یا کسی گروہ (تحریک) کی صورت اجتماعی طور پر مقصد و نظریات کا پرچار ’اندھا دھند‘ اور ’تقلید‘ کے سبب ہے‘ جس کی جہتیں نفسیاتی اور سماجی و ثقافتی دباؤ کی مظہر ہیں! اِس پورے ماحول سے الگ وفاقی حکومت کے اداروں نے (شاید حسب حکم) سہل پسندی سے کام لیتے ہوئے ’ضابطۂ اخلاق‘ وضع کرنے بجائے قانون سے فائدہ اٹھانے پر اکتفا کر لیا اور سمجھ لیا کہ جہاں اُور جس کسی پر چاہے گرفت کی جا سکتی ہے وگرنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بات اور کسی بھی فکر و تصور کا کوئی زاویہ نیا نہیں ہوتا۔ جس بات پر کسی ایک ’صارف‘ کی گرفت کی جا رہی ہوتی ہے‘ وہی بات سینکڑوں کی تعداد میں دوسرے صارفین بھی کر رہے ہوتے ہیں! سمجھ داری اِسی میں ہے کہ سوشل میڈیا سے ٹکراؤ کی بجائے پاکستان کو اُس آنے والے ’ہائی ٹیک‘ دور کے لئے تیار کیا جائے‘ جس میں ممالک کی سرحدیں آج کی طرح اہمیت کی حامل نہیں ہوں گی۔
بنیادی قضیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف ہو یا کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت‘ فرضی ناموں سے سوشل میڈیا اکاونٹس استعمال ہو رہے ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اِن فرضی اکاونٹس کے ذریعے جس نکتۂ نظر کی تشہیر ہو رہی ہے‘ وہ ایک محدود سرکل میں ہونے کے باوجود بھی تاثیر کے لحاظ سے اِس لئے زیادہ ہے کیونکہ خطیب اور مخاطب دونوں ’صائب الرئب‘ بھی ہیں اور اِس بات پر اتفاق بھی رکھتے ہیں کہ اُن کا آپس میں کسی بھی معاملے پر اتفاق نہیں!
سوشل میڈیا پر انفرادی حیثیت میں بھی جو کچھ لکھا جا رہا ہے یا کسی گروہ (تحریک) کی صورت اجتماعی طور پر مقصد و نظریات کا پرچار ’اندھا دھند‘ اور ’تقلید‘ کے سبب ہے‘ جس کی جہتیں نفسیاتی اور سماجی و ثقافتی دباؤ کی مظہر ہیں! اِس پورے ماحول سے الگ وفاقی حکومت کے اداروں نے (شاید حسب حکم) سہل پسندی سے کام لیتے ہوئے ’ضابطۂ اخلاق‘ وضع کرنے بجائے قانون سے فائدہ اٹھانے پر اکتفا کر لیا اور سمجھ لیا کہ جہاں اُور جس کسی پر چاہے گرفت کی جا سکتی ہے وگرنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بات اور کسی بھی فکر و تصور کا کوئی زاویہ نیا نہیں ہوتا۔ جس بات پر کسی ایک ’صارف‘ کی گرفت کی جا رہی ہوتی ہے‘ وہی بات سینکڑوں کی تعداد میں دوسرے صارفین بھی کر رہے ہوتے ہیں! سمجھ داری اِسی میں ہے کہ سوشل میڈیا سے ٹکراؤ کی بجائے پاکستان کو اُس آنے والے ’ہائی ٹیک‘ دور کے لئے تیار کیا جائے‘ جس میں ممالک کی سرحدیں آج کی طرح اہمیت کی حامل نہیں ہوں گی۔
کیا ہمارے فیصلہ سازوں نے ’بٹ کوائن (Bitcoin)‘ کے استقبال کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں جو انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی کرنسی ہے؟ یاد رہے کہ 23 اپریل (دوہزارسترہ) کے روز عالمی مارکیٹ میں ایک ’بٹ کوائن‘ کا شرح تبادلہ پاکستانی کرنسی میں 2 لاکھ 35 ہزار 981 روپے اور آٹھ پیسے مقرر ہوئی! اور یہ دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے بڑھتی اور استعمال ہونے والی کرنسی ہے۔
’بٹ کوائن‘ کو سمجھنے کے لئے انسانی معاشرے کے ارتقائی مراحل اور معاشی واقتصادی اصولوں پر نظر کرنا ہوگی‘ جس میں سرمائے کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں نئے انداز کے سکے سامنے آتے رہے‘ اب چاہے وہ سونے کی اشرفی کی صورت میں ہو یا کانسی کا سکہ مگر موجودہ عہد ٹیکنالوجی کا قرار دیا جاتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا بھی اپنی کرنسی سے محروم رہے؟ یہی کمی ’بٹ کوائن‘ نے پوری کی‘ جو حالیہ عرصے میں تیزی سے اُبھرنے والی ’ڈیجیٹل ورچوئل کرنسی‘ ہے اور اِس کے ذریعے لوگ آن لائن کمپنیوں سے مصنوعات اور خدمات حاصل کر رہے ہیں تاہم کسی حقیقی کرنسی کے مقابلے میں بٹ کوائنز ہر طرح کے ضابطوں یا حکومتی کنٹرول سے آزاد ہے۔
بٹ کوائنز متعدد ممالک جیسے کینیڈا‘ چین اور امریکہ میں استعمال ہورہے ہیں تاہم دنیا میں انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والا ہر شخص یہ کرنسی خرید سکتا ہے‘ جس کے لئے ’بٹ کوائن والٹ اکاؤنٹ‘ چاہئے ہوتا ہے جو بذریعہ ’اپلیکشن‘ ڈاؤن لوڈ (حاصل) تخلیق کیا جا سکتا ہے اور ’والٹ اکاؤنٹ‘ کو پے پال‘ کریڈ کارڈز یا کسی بینک اکاؤنٹ کے ذریعے بٹ کوائنز خریدنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی کمپیوٹر کمپنی ’مائیکروسافٹ‘ سمیت انٹرنیٹ پر کاروبار کرنے والے سینکڑوں دیگر ادارے ’بٹ کوائنز‘ قبول کر رہی ہیں اور بالخصوص سوشل گیمنگ سائٹس جیسے زینگا‘ بلاگ ہوسٹنگ ویب سائٹس جیسے ورڈ پریس اور آن لائن اسٹورز جیسے ریڈیٹ اور ’اوور اسٹاک ڈاٹ کام‘ بھی ’بٹ کوائنز‘ قابل ذکر ہیں اور دنیا میں قریب ’ایک کروڑ بیس لاکھ (بارہ ملین بٹ کوائنز)‘ گردش کررہے ہیں جس کی قیمت سو ڈالر کی نفسیاتی حد پر پہنچنے کے بعد دوہزار دوسو ڈالر فی بٹ کوائن سے تجاوز کر گئی ہے! عالمی سطح پر ’بٹ کوائنز‘ کی ’اے ٹی ایم‘ مشینیں قائم کرنے کی بات ہو رہی ہے!
کیا ہمارے فیصلہ سازوں کو کچھ اندازہ ہے کہ پاکستان سے کتنا سرمایہ ’بٹ کوائنز‘ کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے؟ بڑے شہروں میں ’انٹرنیٹ گیمنگ کلبس‘ عالمی مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں اور طلباء و طالبات کی بڑی تعداد اِن ایک ایسے نشے کی عادی ہو رہی ہے جس سے جانی (صحت) و مالی نقصانات ہو رہے ہیں لیکن نہ تو وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کی اِس جانب توجہ مبذول ہے! جنگ جاری ہے۔ ممالک کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوششیں عروج پر ہیں اور ’انٹرنیٹ کی دنیا‘ میں زیادہ سے زیادہ حکمرانی میں حصہ داری کے لئے جہاں ہر ملک بطور حکمت عملی کوشش کر رہا ہے‘ وہیں پاکستان میں انٹرنیٹ ہی کے استعمال پر خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں! ’بٹ کوائنز‘ کی قدر بڑھنے کی ممکنہ وجہ امریکہ‘ یورپ اور چین میں اس کرنسی کی بڑھتی ہوئی قبولیت ہے جبکہ جاپان میں بٹ کوائنز کے حوالے سے ایک خرابی (بگ) سامنے آنے کے بعد سے لوگوں نے اسے ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے بھی بٹ کوائنز کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ ابھی تو ’انٹرنیٹ‘ کے ممکنہ اطلاق بارے بہت کچھ سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے یوں الگ نہیں ہو سکتی!
No comments:
Post a Comment