Tuesday, May 23, 2017

May2017: Social Media as Crime!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جبر مسلسل!
کبھی کبھار ’شاعرانہ تخیل‘ حقیقت کے اِظہار و بیان میں ضرب المثل بن جاتا ہے۔ ساغر صدیقی (وفات اُنیس جولائی اُنیس سو چوہتر) کا یہ مصرعہ شاید اَحباب نے بہت دن سے نہ پڑھا ہو کہ ’’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں!‘‘ اور اِس تخیل کی تمہید میں ایک ایسے ’جبرمسلسل‘ کا ذکر جوڑ دیا گیا‘ جو بطور سزا تجویز کرنے والوں نے گویا زندگی کے معنی و مفہوم ہی بدل کر رکھ دیئے ہوں۔ بالکل اِسی قسم کی ’خوف و دہشت پر مبنی صورتحال کا سامنا پاکستان میں ’سماجی رابطہ کاری‘ کے وسائل استعمال کرنے والوں کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائمز ونگ اور کاونٹر ٹریرازم ونگ سے درپیش ہے۔ عجب ہے کہ گذشتہ چند روز میں ملک بھر سے بائیس ایسے سوشل میڈیا صارفین کو طلب (گرفتار) اور سبھی کو بعدازاں بناء کسی سزا رہا کیا گیا‘ جنہوں نے پاکستان کے فوجی سربراہ اور فوج کے ادارے پر تنقید کی تھی۔ پاکستان کے آئین کی رو سے بیک وقت اِس بات کی آزادی بھی حاصل ہے کہ ہر پاکستانی جس کسی موضوع کے بارے میں اظہار خیال کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے اور اِسی آئین ہی میں کی گئی ایک ترمیم ضمنی طور پر ریاست کی نظر سے ناپسندیدہ اظہار رائے کرنے والا ’مجرم‘ کہلاتا ہے کیونکہ اگر ریاست کسی تبصرے پر ’معترض‘ ہوا تو یہ ایسا اظہار رائے قابل گرفت و سزا جرم بن جائے گا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے پہلے تو قانون کی تشریح اور پھر اُن تمام اَلفاظ‘ جملوں اُور اِستعاروں کے بارے میں وضاحت ہونی چاہئے کہ جن کا استعمال کرتے ہوئے اگر کوئی صارف تنقید کے نشتر چلائے گا‘ تو وہ ’مجرم‘ تصور ہوگا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ پر اکاونٹ بنانے کے لئے بالغ ہونے کی شرط ہوتی ہے لیکن کسی بھی ’فرضی نام‘ سے اکاونٹ (کھاتہ) تخلیق کرنے والے اپنی عمر کے بارے جھوٹ بول کر بھی ایک ایسی تیزرفتار دنیا کے باشندے بن جاتے ہیں جہاں کے باسی ’ہر ایک سکینڈ‘ میں چھ ہزار سے زائد پیغامات (ٹوئٹس) کا تبادلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یاد رہے کسی ایک دن‘ فی سکینڈ ٹوئٹر کے سب سے زیادہ پیغامات ’’1لاکھ 43 ہزار 999 ٹوئٹس‘‘ سال دوہزار تیرہ میں ریکارڈ ہوئے جبکہ عمومی حالات میں ہر دن اُوسطاً (کم سے کم) 50 کروڑ ٹوئٹر پیغامات اِرسال کئے جاتے ہیں اور یہی ٹوئٹر پاکستان کی حکومت کے لئے ’درد سر‘ بنا ہوا ہے‘ جس کا اِستعمال ہر سطح کے سیاست دانوں سے لیکر افسرشاہی اُور قومی اِداروں کی ترجمانی کرنے والے کر رہے ہیں لیکن وہ اپنی طرح دوسروں کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ وہ اُن سے اختلاف رائے کا اظہار کر سکیں۔ 

بنیادی مسئلہ اُور غلط فہمی اَلفاظ کے غلط چناؤ کی وجہ سے پیش آ رہی ہے۔ ہمارے ہاں نظام تعلیم کی خامی (کمزوری) یہ ہے کہ اِس میں الفاظ کا اِستعمال تو سکھایا جاتا ہے لیکن الفاظ کے ’’معنی و مفہوم اُور اَثرات‘‘ کے بارے طلباء و طالبات کو ’بہرہ مند‘ نہیں کیا جاتا۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور اپنے تعارف میں تعلیمی اسناد کی فہرستیں گردان کرنے والوں کے ہاں بھی الفاظ کا مضحکہ خیز استعمال سننے کو ملتا ہے تو تعلیمی نصاب کے گرد طواف کرنے والے بیچارے عام طلباء و طالبات سے کس طرح اُمیدیں (توقعات) وابستہ کی جا سکتیں کہ وہ ہر لفظ سوچ سمجھ کر بولیں گے یا ٹوئٹر سمیت سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے خاطرخواہ احتیاط کا مظاہرہ کریں گے۔ 

وفاقی وزارت داخلہ کو بھی سمجھنا ہوگا کہ زمانہ تبدیل ہو گیا ہے اور انٹرنیٹ صارفین کی حفظ مراتب کے لحاظ سے درجہ بندی نہیں کی جاسکتی ہے تو بہتری اِسی میں ہے کہ متنازعہ امور کو ہوا دینے والوں سے ’منطق (عقلی دلیل)‘ سے بات کی جائے اُور اگر کوئی صارف متفق نہ بھی ہو تب بھی حکومت پاکستان کا مؤقف ہر پیغام کے ساتھ منسلک ہوتا چلا جائے گا‘ جس سے عالمی سطح پر پاکستان یا قومی اداروں اور اہم شخصیات (بالخصوص پاک فوج کے سربراہ) کے بارے پھیلنے والا تاثر زائل کرنے میں مدد ملے گی یا پھر حکومت کے نکتۂ نظر سے جو حقائق ہیں اُنہیں عام کیا جا سکے گا۔ سماجی رابطہ کاری کے وسائل یا اظہار رائے پر پابندی عائد کرنے کی بجائے وزارت داخلہ اور دیگر اداروں کو فعال ’سوشل میڈیا حکمت عملیاں‘ تشکیل دینا پڑیں گی تاکہ ہر حملے کا بروقت (مستعدی) اُور پوری طرح مقابلہ (دفاع) عملاً ممکن بنایا جا سکے۔

منظرنامہ ملاحظہ کیجئے کہ پاکستان میں سماجی رابطہ کاری کے وسائل سے اِستفادہ کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق ’تحریک انصاف‘ سے ہے یا وہ قومی سلامتی سمیت ریاستی اِداروں کے بارے میں وہی رائے رکھتے ہیں یا اُنہی ملتے جلتے نظریات کا پرچار کرتے ہیں‘ جن کی تحریک انصاف تائید کرتی ہے۔ پاکستان میں سخت گیر مالی نظم و ضبط کے قیام‘ احتساب‘ مالی و انتظامی امور میں بدعنوانیوں کے خاتمے اور طرزحکمرانی کی اِصلاح پر مبنی ’تحریک انصاف‘ کے مؤقف (سیاسی منشور) کی تائید کرنے والے کی بڑی تعداد ہر وقت ٹوئٹر اور فیس بک پر ’حاضر جناب (آن لائن)‘ رہتی ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی صارف تحریک انصاف کے حق یا اس کے خلاف کچھ لکھے اور اُسے ترکی بہ ترکی (فوراً) جواب نہ ملے۔ 

وفاقی حکمراں جماعت ’نواز لیگ‘ کو سوشل میڈیا پر فعال (متحرک) ہونے میں اگرچہ دیر ہوئی تاہم اُن کا ’سوشل میڈیا سیل‘ زیادہ منظم اور ہر دن پھل پھول رہا ہے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے ’سوشل میڈیا شعبے‘ ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لئے جس طرح سرگرم ہیں اور جس طرح رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ’سوشل میڈیا وسائل‘ میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں ’سوشل میڈیا‘ بھی ذرائع ابلاغ کے دیگر وسائل کی طرح کسی فرد یا جماعت کو ہیرو یا زیرو بنانے میں غیرمعمولی کردار ادا کریں گے۔ 

سوشل میڈیا کو پاکستان کی سیاست میں وہ مقام مل چکا ہے جہاں اِس کے ’’معنوی وجود‘‘ سے نہ تو انکار ممکن ہے اور نہ ہی اِسے غیراہم قرار دیتے ہوئے ’نظرانداز‘ کیا جاسکتا ہے‘ لہٰذا بہتری (عافیت) اِسی میں ہے کہ عصری تقاضوں (تبدیلیوں) کا (کماحقہ) ادراک کیا جائے۔ قواعد و ضوابط کے اطلاق میں سختی اور پابندیاں عائد کرنے کی بجائے ’سوشل میڈیا صارفین‘ کی تعلیم و رہنمائی کے لئے تربیت کا اہتمام و انتظام کیا جائے۔ ’سوشل میڈیا‘ خیر محض ہے جس کا تعمیری (اپنے حق میں) استعمال کا لائحہ عمل وقت کی ضرورت اُور اس کے ذریعے ’شرارت‘ تخریب کاری‘ یا معصومیت میں خطا کاروں کی نیت (پس پردہ عزائم) بھی پیش نظر رہنی چاہئے!

No comments:

Post a Comment