Monday, May 22, 2017

May2017: The input without output!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اختیارات کی جنگ!
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کے اِنتخاب و قیام کو دو سال جبکہ تین سطحی نظام کی تشکیل کے تین برس مکمل ہونے پر ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہر مرحلے پر درپیش مشکلات اور بالخصوص بدنیتی پر مبنی اُن اقدامات کا جائزہ لیا جائے‘ جن کی وجہ سے (بہ امر مجبوری) ’مقامی حکومتیں باوجود اپنے قیام‘ بھی خاطرخواہ فعالیت (آزادی) سے کام نہیں کر پا رہیں اور اِس حقیقت کو بھی سمجھا اور زیرغور لایا جائے کہ صرف دنیا کی بہترین اور تیزرفتار قانون سازی کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ قوانین اور قواعد پر عمل درآمد بھی یکساں اہم و ضروری ہوتا ہے۔

عملی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں کہیں بھی جمہوری نظام حکومت سے جڑی عوام کی توقعات پوری ہو رہی ہیں تو وہ صرف جامع قانون سازی کی وجہ سے نہیں بلکہ ’’تبدیلی‘‘ کا ایک تعلق قوانین کے اطلاق اور اُس عمومی ماحول سے بھی ہے جس میں قانون ساز ایوانوں کی دانش کے سامنے خود فیصلہ سازوں نے سرتسلیم خم کیا۔ اکیس مئی کو ’شریک اقتدار‘ کے عنوان سے چند ایسی باریکیاں (رکاوٹیں) بیان کی گئیں‘ جن کے باعث ضلعی حکومتوں کے نمائندے ’شریک اقتدار‘ تو ہیں لیکن اُن کی فعالیت اِس حد تک محدود کر دی گئی ہے کہ اُن کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اپنی مثال آپ ہیں کہ ہمارے ہاں حکمرانوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی اور اگر اُن کی تعداد میں مزید اضافہ کر بھی دیا جائے تو اِس سے مسائل حل نہیں ہوں گے (جیسا کہ نہیں ہوئے) بلکہ عام آدمی (ہم عوام) کو درپیش بحران کی صورت مسائل کے حل اور بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسی ضروریات کی قیمت بڑھتی چلی گئیں۔ سالانہ آمدن و اخراجات کا میزانیہ (بجٹ) مرتب کرتے ہوئے جو مالی وسائل مختص ہوں گے اُن کا بڑا حصّہ تنخواہوں‘ مراعات اُور انتظامی امور (غیرترقیاتی اَخراجات) کی نذر ہو جائیں گے اور یہی خیبرپختونخوا سمیت پاکستان کی کہانی ہے‘ کہ حکومتیں سیاسی ہوں یا غیرسیاسی‘ سادگی(اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے) کی بجائے شاہانہ طور طریقوں سے ’اَمور مملکت‘ چلانے کے لئے قومی خزانے بشمول قرض مانگ مانگ کر نمودونمائش پر غیرضروری اخراجات اَدا کئے جاتے ہیں۔

ضرورت اِس طرزفکروعمل کے تبدیل کرنے کی ہے‘ جس میں ایک غریب ملک کے حکمران اور غریبوں کے بارے میں سوچنے والوں کا رہن سہن‘ بودوباش اور طورطریقے سادگی کی عملی تصویر ہوں۔ بصورت دیگر اربوں روپے ترقی اور ترقیاتی عمل کے نام پر خرچ کے باوجود بھی جو کچھ حاصل ہوگا‘ وہ ہمیشہ ناکافی اور نامکمل ہی رہے گا۔

سال دوہزار تیرہ میں جب خیبرپختونخوا حکومت نے ’لوکل گورنمنٹ ایکٹ (قانون)‘ منظور کیا تو ہر طرف سے ’واہ واہ‘ کی صدائیں آئیں۔ اقوام متحدہ بھی تعریف کئے بناء نہ رہ سکا‘ جس کے ایک ذیلی ادارے یونائٹیڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) نے اِسے ترقی کا ایک جامع لائحہ عمل قرار دیا اور اِس اُمید کا اظہار بھی کیا کہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی سے نہ صرف ’’ترقی کا معیار‘‘ بہتر ہوگا بلکہ ’فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت کے ثمرات سے جمہوریت مضبوط ہوگی لیکن اقتدار برائے نام نچلی سطح پر منتقل ہوا اُور اختیارات جزوی طور پر بلدیاتی نمائندوں کے حصے میں آئے! صوبائی اسمبلی سے منظوری کے کے بعد سے آج تک کے عرصے میں بلدیاتی نظام کی ’نوک پلک سنوارنے‘ کے نام پر اِس کی ’فعالیت‘ کم سے کم اُس درجے تک پہنچانا ہی مقصود و مطلوب دکھائی دیتا ہے جہاں یہ نظام مفلوج (اپاہج) ہو کر اپنی موت آپ مر جائے! یعنی عوام کی دلچسپی ’مقامی حکومتوں کے نظام سے ختم ہو جائے۔‘ آئین پاکستان کے آرٹیکل ’چالیس اے‘ کے تحت وفاق پاکستان کی ہر ایک اکائی (صوبے) کے لئے لازمی قرار ہے کہ وہ اپنے ہاں نہ صرف مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرے بلکہ عوام کے اِن براہ راست منتخب نمائندوں کو سیاسی و انتظامی اور اقتصادی اختیارات بھی منتقل کئے جائیں‘‘ لیکن کیا مقامی حکومتوں کی قانون سازی (خوبصورت الفاظ) سے زیادہ اِس سلسلے میں کوئی پیشرفت ہو پائی ہے؟

صوبائی حکومت کے ترجمان اور خیبرپختونخوا کابینہ کے اراکین ’اقوام متحدہ‘ کے ذیلی ادارے ’یو این ڈی پی‘ کی جانب سے تعریف و توصیف کا حوالہ تو دیتے ہیں لیکن اُن تفصیلات کے بیان سے گریز کرتے ہیں جس میں ’یو این ڈی پی‘ نے نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل نہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اگر ہم خیبرپختونخوا کی حد تک بات کریں تو صوبائی حکومت نے حال ہی میں ایسی ترامیم کی ہیں جن کے ذریعے کیمونیکشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو)‘ ضلعی سڑکوں‘ عمارتیں اور پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کا محکمہ صوبائی حکومت کو واپس مل گئے ہیں! اِس ’کھینچا تانی‘ کے سبب نہ صرف اِن محکموں کی کارکردگی بلکہ وقت اُور مالی وسائل بھی خرچ ہوئے ہیں۔ ضلعی سطح پر سڑکیں اور دیگر تعمیرات سمیت اگر سرکاری عمارتوں کی دیکھ بھال کی نگرانی اگر مقامی حکومتوں کے پاس رہتی تو اِس میں مضائقہ ہی کیا تھا؟ ’صوبائی خزانے‘ سے مقامی حکومتوں کو نمائندوں کو تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں اُن کے لئے عملہ اور دفاتر کی ضروریات بھی حکومت ہی ادا کرتی ہے لیکن جب اُن سے کام لینے کا مرحلہ آیا تو اختیارات محدود کر دیئے گئے! تعجب خیز امر یہ ہے کہ جب صوبائی قانون ساز اسمبلی مقامی حکومتوں کے اختیارات کم کر رہی تھی تو اِس ’ترمیمی قانون سازی‘ کے عمل میں صرف حکومتی ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین کی اکثریت بھی پیش پیش رہی‘ گویا اِس سے زیادہ ضروری اور ثواب کا کوئی دوسرا کام باقی ہی نہ رہا ہو! المیہ نہیں تو کیا ہے کہ صوبائی قانون سازوں کو تعمیراتی ٹھیکیداروں کے مفادات تو عزیز اور اُن کی مشکلات کا احساس ہے لیکن اِن تعمیرات کے معیار‘ پائیداری اور سرکاری خزانے سے خرچ ہونے والی ہر ایک پائی کے درست مصرف اور نگرانی کے تہہ دار نظام پر اعتماد (یقین) نہیں۔ درحقیقت فیصلہ ساز نہیں چاہتے کہ اُن کے اختیارات کم ہوتے چلے جائیں اور وہ اپنے بنیادی کام یعنی قانون سازی کے عمل یا قوانین میں موجود سقم دور کرنے اور سرکاری محکموں کے معاملات کی اصلاح جیسے امور پر غور کرنے تک محدود ہو جائیں!

انتخابی حلقوں کی سیاست کرنے والوں کی ذاتی و سیاسی ترجیحات مقامی حکومتوں کی فعالیت و اختیارات کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اصولی طور پر ایک غیرسیاسی نظام اگر سیاست سے الگ ہی رہتا تو اِس کے زیادہ مفید نتائج حاصل ہو سکتے تھے لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی‘ اگر ہمارے شاہانہ مزاج رکھنے والے سیاسی فیصلہ ساز اپنی غلطیوں کا اِحساس اُور برسرزمین حقائق (مالی و اِنتظامی بدعنوانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے) ضروریات کا ادراک کرلیں!

No comments:

Post a Comment