Friday, June 2, 2017

Jun2017: Fruit boycott - Social Media Drive!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مہنگائی کا علاج!
’سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) کے ذریعے ملک گیر سطح پر تین روزہ مہم آج (دو جون) سے شروع ہو رہی ہے‘ جس کا عام فہم بنیادی خیال (مطالبہ) یہ ہے کہ ’’تین دن پھل (فروٹ) نہ خریدے جائیں۔‘‘ 

مہنگائی کی ’حوصلہ شکنی‘ کرنے کے لئے اپنی نوعیت کی اِس منفرد (انوکھی) مہم کا تصور کراچی سے شروع ہوا‘ جہاں ماہ رمضان المبارک کے دوران پھل و سبزی کی قیمت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن مہنگائی کا یہ رجحان صرف کراچی کی حد تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اِس میں ملک کے دیگر حصوں بشمول خیبرپختونخوا سے ’سوشل میڈیا فعالیت پسند (ایکٹوسٹ) بھی احتجاجی تحریک‘ کا حصہ بن گئے ہیں اور مرکزی شہری و دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اِن سوشل میڈیا صارفین کے پیغامات اور بڑھتی ہوئی حمایت (عزم) سے اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ ’پاکستان کی تاریخ کی یہ پہلی ہڑتال (بائیکاٹ) اگر سوفیصد کامیاب نہ بھی ہو لیکن اِس کے مثبت اثرات ضرور ظاہر ہوں گے۔ سوفیصد کامیابی نہ ہونے وجہ اِس تحریک سے کسی کا اختلاف نہیں بلکہ پھل و سبزی کے تمام خریداروں کا ’سوشل میڈیا‘ سے منسلک نہ ہونا ہے۔ اِس سلسلے میں نجی ٹیلی ویژن چینلز اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز (الیکٹرانک میڈیا) کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے جہاں سردست قومی سیاست سے متعلق موضوعات رواں ہفتے بھی حاوی دکھائی و سنائی دے رہے ہیں اور جب سے ’پانامہ کیس‘ کے سلسلے میں وزیراعظم کے صاحبزادوں کو تحقیقاتی کمیشن نے طلب کیا ہے تب سے ’فوکس‘ وہ مقدمہ بن گیا ہے‘ جس کا فیصلہ آنے تک قوم کو صبر کرنا چاہئے اور اگر مگر سے شروع ہونے والی خبروں اور تبصروں پر کان دھرنے کی بجائے اُن امور کی جانب توجہات مبذول کرنی چاہیءں‘ جن سے وہ ’لٹ‘ رہے ہیں اور ناجائز منافع خور ملک کی ابتر سیاسی حالات (غیریقینی) کا مسلسل فائدہ اُٹھا رہے ہیں!

صرف تین روز پھل نہ خریدنے سے کیا ہوگا؟ پورا سال مہنگائی کی منصوبہ بندی اور مارکیٹ (اجناس کی طلب و رسد) کنٹرول کرنے والوں (اڑھتیوں) کا تجربہ دہائیوں پر محیط ہے اور وہ پھلوں کی ’شیلف لائف (عمر)‘ بڑھانے کے لئے ادویات اور سردخانوں کا استعمال بھی کرتے ہیں‘ چونکہ تین روزہ مہم اعلان کرکے شروع کی گئی ہے‘ اِس عرصے میں سردخانوں اور ذخیروں سے مارکیٹ میں پھل مارکیٹ میں نہیں لائے جائیں گے اور سارے کا سارا نقصان چھوٹے پیمانے پر پھل فروش ہتھ ریڑھی بانوں اور دکانداروں کا برداشت کرنا ہوگا۔ عوام چاہے جتنے بھی متحد اور باشعور ہو جائیں اُور چاہے سوشل میڈیا کے ذریعے طوفان در طوفان بھی برپا کر دے لیکن جب تک ضلعی انتظامیہ (کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر‘ محکمۂ فوڈ‘ انسداد بدعنوانی وغیرہ) کے دفاتر و محکمے (عوام کے حق میں) فعال نہیں ہوں گے‘ جب تک منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور ایوان بالا کے اراکین عوام کے شانہ بشانہ کھڑے نہیں ہوں گے‘ اُس وقت تک مہنگائی کے خلاف ایسی کوئی بھی مہم خاطرخواہ انداز میں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی۔ 

آخر کوئی یہ سوال کیوں نہیں اُٹھا رہا کہ مہنگائی کے معلوم اسباب (مصنوعی قلت کے ذریعے طلب و رسد میں فرق پیدا کرنے کے ذمہ دار) معلوم ہونے کے باوجود بھی یہ کردار قانون کی گرفت میں نہیں لائے جا رہے؟ عام آدمی (ہم عوام) کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ہر سال ماہ رمضان اور مہنگائی کے آپسی تعلق کا نوٹس کیوں نہیں لیتے؟ 

سوشل میڈیا کے ذریعے صارفین کے حقوق کی تحریک کو پلیٹ فارم (پھلنے پھولنے کا وسیلہ) ضرور ملا ہے لیکن اِس کی وساطت سے ملنے والی کامیابی کا حجم اگرچہ کم لیکن نہ ہونے سے بہتر ثابت ہوگا۔ سوشل میڈیا نے ایک سوچ دی ہے‘ ایک سمت معین کرکے گویا پورے پاکستان کو متحد کردیا ہے اور سارا سال ماہ رمضان المبارک کا انتظار کرنے والے ’ناجائز منافع خوروں‘ کے خلاف اگر عوامی سطح پر اتحاد ہو سکتا ہے اور یہ تین روزہ ہڑتال کسی بھی درجے کامیاب ہو جاتی ہے تو اِس سے دیگر شعبوں میں فیصلہ سازی اور بالخصوص صارفین کے حقوق کی ذیل میں ایسی نمایاں کامیابیاں حاصل کرنا ممکن ہو جائے گا‘ جن کا تعلق کم و بیش سبھی اجناس کی قیمتوں اور معیار سے ہے۔ 

باعث خیروبرکت ہے کہ بالآخر عام آدمی (ہم عوام) نے متحد ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو عین ممکن ہے کہ سوشل میڈیا کا اگلا نشانہ انتہاء پسندی‘ فروعی اختلافات کو ہوا دینے اور مذہبی یا نسلی لسانی بنیادوں پر منافرت پھیلانے والے ہوں جو داخلی طور پر ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment