Saturday, June 3, 2017

July2017: Inflation & consumers awareness are co-related!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جنگل کی آگ!
مہنگائی کا توڑ بناء صارفین (عوام) کے عملی تعاون ممکن نہیں لیکن چونکہ قوت خرید (مالی حیثیت) کے اعتبار سے رہن سہن اُور بودوباش الگ الگ ہیں‘ اِس لئے آبادی کے بڑے مراکز کسی بھی جنس کی طلب یا اُس کی قدر میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ملک گیر سطح پر قیمتوں کو اعتدال پر لانے کی کوئی بھی کوشش اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اِس کی نگرانی کرنے والے حکومتی اِدارے کاروباری طبقات کی بجائے ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کے مفادات کا تحفظ کریں اور اُن تمام (جملہ) محرکات پر نظر رکھیں جن کی وجہ سے بالخصوص کھانے پینے کی اشیاء اور بنیادی ضروریات کی قیمتیں اچانک یا بتدریج بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اقتصادیات کا سیدھا سادا اصول ہے کہ کسی بھی جنس کی طلب اُور رسد (مارکیٹ میں فراہمی) کے درمیان اُونچ نیچ کا فوری اثر ’’پرچون قیمتوں‘‘ پر پڑتا ہے۔ 

دو سے چار جون (تین دن) ملک گیر سطح پر شروع ہونے والی مہم میں ’’پھل (فروٹ) خریدنے سے انکار‘‘ کے ثمرات اور اثرات چاہے معمولی ہی ہوں لیکن غیرمعمولی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ’’صارفین کے حقوق کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش‘‘ کا آغاز اور بتدریج کامیابی ایک ایسے ’نئے پاکستان‘ کی بھی نوید ہے‘ جس میں اِنٹرنیٹ اور سماجی رابطہ کاری کے وسائل استعمال کرنے والے رنگ‘ نسل‘ قوم‘ قبیلے‘ مذہب و مسلک اور دیگر امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک قومی مسئلے کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں! ’فروٹ بائیکاٹ‘ کے حوالے سے دو جون کو شائع ہونے والے کالم میں ’جنگل کی اِسی آگ‘ کو متعارف کرایا گیا تھا‘ جو آندھی کی صورت پھل و سبزی کی قیمتوں پر حاوی ناجائز منافع خور آڑھتیوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد دیگر غذائی اجناس کے ذخیرہ اندوزوں اور بعدازاں اُس طرزحکمرانی پر مبنی متعصب (سیاسی و انتظامی) نظام کو بھسم کرنے کی (بھرپور) صلاحیت رکھتا ہے‘ جس کی وجہ سے کم آمدنی اور متوسط طبقات کے لئے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رمضان کے آغاز (اٹھائیس مئی) سے ٹماٹر بیس کی بجائے پچاس اور ساٹھ روپے‘ کیلا سو روپے سے ایک سو اسی۔ سیب ایک سو پچاس سے تین سو پچاس‘ چین سے درآمد سیب دوسو سے تین سو اور اسی طرح دیگر پھلوں کی قیمتوں میں بھی پچاس سے ڈیڑھ سو فیصد اچانک اضافے کی وجوہات سوائے ناجائز منافع خوری اُور کچھ نہیں ہوسکتا۔

اقتصادی اصطلاح ’فری اکنامی (آزاد معیشت)‘ کے مفہوم اور عملی اطلاق کا جس بدترین انداز میں ہمارے ہاں استعمال کیا جا رہا ہے‘ اُس کی مثال شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ملتی ہو۔ باغبانوں‘ کسانوں اُور بالخصوص چھوٹے کاشتکاروں کو اُن کی محنت و سرمایہ کاری (فصل) کی اُتنی قیمت بھی نہیں ملتی جس سے اُن کی اصل لاگت ہی وصول ہو سکے اور یہی سبب ہے کہ موجودہ حکومت کے چار سالہ دور میں زراعت مسلسل گرواٹ کا شکار رہی اور اب صورتحال یہ ہے کہ زراعت نہ تو منافع بخش پیشہ رہا ہے اور نہ ہی اِس سے وابستہ ’خون پسینہ ایک کرنے والوں کا مستقبل محفوظ دکھائی دے رہا ہے اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے زمینداروں اور پھل سبزی و دیگر اجناس کی منڈیوں کو کنٹرول کرنے والے آڑھتیوں (بڑے تاجروں) کے ایک جیسے کاروباری مفادات پر حکومت ضرب نہیں لگاتی۔ بات صرف ماہ رمضان المبارک یا عید الفطر و دیگر خوشی و غم کے مواقعوں پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اچانک اضافے کا نہیں بلکہ اُس معیار کا بھی ہے‘ جس کی وجہ سے صارفین کی اکثریت کو گھی‘ کولنگ آئل‘ آٹا‘ چینی‘ دودھ‘ ادویات‘ مصالحہ جات‘ خشک چائے اور دیگر ڈبہ بند یا میدہ و ٹھوس حالتوں میں اجناس خالص تو کیا حفظان صحت کے کم ترین (قابل قبول) درجے پر بھی نہیں مل پا رہیں! پھل سبزی یا دیگر غذائی اجناس کی قیمتیں اور مارکیٹ پر اثرانداز ہونے والے عوامل (حسب قانون و قواعد) کنٹرول کرنے کی سراسر ذمہ داری حکومت کی ہے‘ جس نے اِس پوری صورتحال میں تجاہل عارفانہ اختیار کر رکھا ہے! 

یہی سبب ہے کہ سیاسی فیصلہ سازوں (قانون ساز ایوانوں) میں کیا ہوتا ہے‘ کون خطاب کر رہا ہے اور کون احتجاج‘ اِس سے عام آدمی (ہم عوام) کو دلچسپی نہیں رہی۔ آج کی تاریخ میں جس ایک بات پر ملک گیر سطح پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے منتخب حکومت کی دلچسپی اور کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا جمہوریت اِسی طرز حکمرانی کا نام (خلاصہ ہوتا) ہے‘ جس میں عہدوں کے ساتھ جڑی ذمہ داریاں کا ادراک و اطلاق نہ ہوتا ہو؟ جس میں حکمران دروغ بیانی سے کام لیں۔ جس میں انتخابات سے دوسرے عام انتخابات تک عوام پر ایسے قوانین‘ قواعد اور انتظامیہ مسلط کی جائے‘ جو اُن کے مفادات کی محافظ نہ ہو؟ نئے پاکستان کا ’بیانیہ‘ تشکیل پا رہا ہے‘ جس میں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ حکومت کرنے والوں کو نہ صرف جوابدہ ہونا پڑے گا بلکہ اُنہیں سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازی کے اُن منفی اثرات کی ذمہ داری عائد کرنے کے ساتھ ’قصوروار‘ بھی ٹھہرایا جائے گا کہ کس طرح سیاسی‘ ذاتی اُور منجملہ انتخابی مفادات کے لئے اُنہوں نے عام آدمی (ہم عوام) کو منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور دور بیٹھے عام آدمی کی لوٹ مار کا تماشا دیکھ رہے ہیں!

No comments:

Post a Comment