Thursday, June 22, 2017

July2017: Unhealthy trends in health sector reforms!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بگڑا منظر: شعوری کوششیں!
تحریک اِنصاف کے چیئرمین عمران خان کی مداخلت نہ ہوتی تو ’’خیبرپختونخوا حکومت کسی بھی صورت اِحتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ’ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘ کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے اُن تمام مسائل کا حل تلاش کرنے پر رضامند نہ ہوتی‘ جس کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں ’علاج معالجے کا نظام‘ متاثر ہو رہا ہے۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے مذاکرات کی دعوت ملنے کے بعد ’ینگ ڈاکٹروں‘ نے اپنی احتجاجی تحریک مؤخر کر دی ہے۔ جمہوریت کا حسن ’اختلاف رائے‘ ہوتا ہے اور اس میں حکمران بولنے سے زیادہ سننے اور مسئلے مسائل حل کرنے میں اپنی ’اَنا‘ کی قربانی پیش کرتے ہیں! رعایا کی بات سن کر اُن کے تحفظات دور کئے جائیں تو اسے ’ہار ماننا (گھٹنے ٹیک دینا)‘ قرار نہیں دینا چاہئے بلکہ ریاست کی شفقت و عنایات اور سزأ و جزأ کے درمیان توازن کی وجہ سے ایک ایسا مربوط نظام تشکیل پاتا ہے جس میں عام آدمی (ہم عوام) کے لئے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔

ڈپٹی سیکرٹری صحت اَیڈمن زبیر اَحمد کی جانب سے تحریر کئے گئے ’مذاکراتی دعوت نامے‘ کا متن نہایت ہی دلچسپ ہے کہ ’’وزیرصحت کی جانب سے آپ کے گوش گزار کیا جاتا ہے کہ حکومت ’ینگ ڈاکٹرز‘ کے مسائل کو عوامی مفاد میں حل کرنے اور مختلف سطح پر جاری احتجاج ختم کرنے کے لئے بات چیت (ڈائیلاگ) کرنا چاہتی ہے تاکہ صوبائی سطح پر علاج معالجے کا نظام فعال رہ سکے۔‘‘ حکومت کی جانب سے ’ینگ ڈاکٹرز‘ کو اپنے حتمی مطالبات تحریری طور پر داخل دفتر کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے یقیناًاِس تدبیر کا مقصد یہی ہوگا کہ ڈاکٹروں کے نمائندے مذاکراتی عمل کے دوران کسی نئے مطالبے کا اضافہ نہ کر سکیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ’ینگ ڈاکٹر‘ کی احتجاجی تحریک کے درپردہ سیاسی مقاصد بھی ہیں اور کچھ ’سینئر ڈاکٹرز‘ نے اپنی لوٹ مار اور عہدوں کے ناجائز استعمال پر ’ضرب‘ لگنے کے بعد انتقاماً ’ینگ ڈاکٹرز‘ کو حکومت کے خلاف استعمال بھی کیا ہے۔ ’ینگ ڈاکٹرز‘ اگر احتجاج کی بجائے دانشمندی کا ثبوت دیتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اُن کے مسائل جن میں بیشتر کا تعلق انتظامی ڈھانچے سے ہے بتدریج حل ہوتے چلے جاتے۔ ’’کوششیں مجھ کو منانے کی بھلے ہوں کامیاب۔۔۔ مٹتے مٹتے بھی میں‘ مٹنے کا مزہ لے جاؤں گا (کمار وشواس)۔‘‘ ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال کا ایک سبب صوبائی فیصلہ سازوں کا شاہانہ مزاج بھی ہے کہ وہ خود کو ’عقل کل‘ اور مشاورت کو اپنی توہین سمجھتے ہیں! تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اگر ’ینگ ڈاکٹر‘ احتجاج پر مجبور ہوئے تو اِس ہڑتال کی نوبت آنے اور متعدد علامتی ہڑتالوں کا نوٹس پہلے ہی کیوں نہیں لیا گیا؟

’ینگ ڈاکٹرز‘ کے بنیادی مطالبات میں کوئی ایک نکتہ بھی ایسا نہیں جس میں کچھ نہ کچھ مصلحت کی گنجائش پیدا نہ کی جاسکتی ہو جیسا کہ سرکاری ہسپتالوں کی ’پوسٹ گریجویٹ‘ حیثیت کی بحالی‘ ٹرینی میڈیکل آفیسرز کے لئے انڈومنٹ فنڈ کی تشکیل‘ ڈاکٹروں کے لئے سیکورٹی‘ ٹائم سکیل کے مطابق محکمانہ ترقیاں‘ ڈاکٹروں کے لئے رہائشی سہولیات میں اضافہ‘ اور دوران ڈیوٹی یا ملازمت فوت ہونے والے ڈاکٹروں کے لواحقین کے لئے معاوضے (مالی معاونت) کا مطالبہ کسی بھی صورت ناجائز نہیں۔

’ینگ ڈاکٹروں‘ اگر ہسپتالوں میں دستیاب علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے‘ ادویات کی کمی‘ اپنے سینئر ڈاکٹروں اور انتظامی عہدوں پر فائز کرداروں کی بدعنوانیوں کے بارے تحقیقات اور کارکردگی کے احتساب کو بھی مطالبات کا حصہ بنا لیں تو اِس سے اُنہیں عوام کی نظروں میں ’ہیرو‘ بننے کا ’اخلاقی جواز‘ بھی ہاتھ آ جائے گا اور اگرچہ حق تو یہ ہے کہ حق پھر بھی ادا نہیں ہوگا لیکن کم سے کم ’ینگ ڈاکٹرز‘ اپنے ضمیر کی عدالت میں تو سرخرو ہو ہی جائیں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری ’ینگ ڈاکٹروں‘کی ہڑتال کے دوران قریب ستر فیصد مطالبات حکومت پہلے ہی حل کرنے کی یقین دہانی کروا چکی ہے لیکن جیسا کہ پہلے اشارتاً کہا گیا کہ ’ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال‘ کے کچھ سیاسی اہداف بھی ہیں تو جب ’ینگ ڈاکٹرز‘ اور حکومت کے درمیان امور طے پا رہے تھے تو اچانک پشاور کے ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس‘ (ہسپتال) میں چند ینگ ڈاکٹر پرتشدد احتجاج پر اُتر آئے اور قانون نافذ کرنے والوں نے اُن کے خلاف طاقت کا استعمال کر ڈالا! جس سے احتجاجی تحریک پھر سے ’جاگ اُٹھی۔‘ کیا مسئلہ اتنا سادہ ہے کہ ڈاکٹر مذاکرات کا حصہ بن کر چند گھنٹوں میں اِسے حل کر لیں گے؟ 

’ینگ ڈاکٹروں‘ کو اِس بات پر بھی اعتراض ہے کہ خیبرپختونخوا میں محکمۂ صحت کے تمام فیصلے ’ڈاکٹر نوشیروان برکی‘ کو سونپ دیئے گئے ہیں اور جب تک تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے مقرر کردہ اِس منظور نظر ’ڈاکٹر برکی‘ کا فیصلہ سازی میں حتمی کردار موجود رہے گا‘ اُس وقت تک ینگ ڈاکٹرز کے بقول نہ تو اُن کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی سرکاری ہسپتالوں کے مالی و انتظامی معاملات (معمولات) میں بہتری آئے گی! یقیناًتحریک انصاف کے چیئرمین اپنے بارے میں اِس قوی لیکن ’منفی تاثر‘ کو زائل کرنے کا یہ نادر موقع ضائع نہیں کریں گے کہ وہ صوبائی معاملات میں بیجا مداخلت کر رہے ہیں اُور جس اہلیت (میرٹ) پر مبنی ’نئے پاکستان‘ کا تصور اُن کی جانب سے اکثر پیش کیا جاتا ہے‘ اُس کا عملی اطلاق و مظاہرہ (نکتۂ آغاز) ’خیبرپختونخوا‘ میں دیکھا جا سکتا ہے! ’’شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں۔۔۔ وہی بھلا ہے جو بے ساختہ بنا ہوا ہے! (شاہد ذکی)۔‘‘ 

No comments:

Post a Comment