ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تعلیمی کاروبار!
عرصہ ہوا ’موبائل فون‘ کے کسی مختصر پیغام (شارٹ میسج سروس‘ اَیس اَیم اَیس) کے ذریعے کوئی ’قابل ذکر معلومات‘ ہاتھ آئی ہو۔ اکثر پیغامات بے معنی اور گھسے پٹے لطیفوں یا صبح سے شب بخیر تک نیک تمناؤں اور دعاؤں پر مبنی ہوتے ہیں اور یہی مصرف ’واٹس ایپ‘ و دیگر موبائل میسنجنگ رابطوں کا بھی ہے جہاں گروپوں کی بھرمار میں مقصدیت نجانے کب فوت ہوئی اور دفن کے مقام کا تو کسی کو علم (احساس) بھی نہیں!
اُنیس جون کی شام یکے بعد دیگرے دو ’ایس ایم ایس‘ پیغامات کے ذریعے معلوم ہوا کہ امتحانی بورڈ میں سرکاری سکولوں کے طلباء و طالبات نے (اچانک) ایک طویل عرصے کے بعد پہلی بیس نمایاں پوزیشنوں میں اپنا نام درج کروایا ہے۔ سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم نصاب کی حد تک محدود اور درس و تدریس کے عمل میں طلباء و طالبات کی دلچسپی‘ رجحانات‘ قابلیت اور ذہنی سطح کو مدنظر نہ رکھنے کی وجہ سے یہ ادارے نجی سکولوں سے پیچھے چلے آ رہے تھے اور اِس بات کا حوالہ دیتے ہوئے صوبائی وزارت تعلیم کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے صحافیوں کو فخریہ طور پر خبر دی گئی کہ ’’حضرات نوٹ فرما لیں کہ تحریک انصاف کی تعلیمی پالیسی کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔‘‘
دوسرا ’ایس ایم ایس‘ پیغام بھی محکمۂ تعلیم ہی سے متعلق تھا‘ جس میں صوبائی حکومت کی جانب سے ’یکساں نظام تعلیم‘ رائج کرنے کے لئے ’نصاب پر نظرثانی‘ کے فیصلے اور اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا ثانوی و بنیادی تعلیم کے محکمے (ایلیمنٹری اینڈ سکینڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کی کارکردگی کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ فیصلہ سازوں نے سمجھ لیا ہے کہ جب تک تدریس کے عمل اور نصاب کی کتب کو جدید اصولوں کے قالب میں ڈھالا نہیں جاتا اُس وقت تک سرکاری تعلیمی اِداروں کی ’کارکردگی و معیار‘بصورت امتحانی نتائج بہتر نہیں ہوں گے لیکن کہیں یہ مشکل درپیش نہ آ جائے کہ نصاب کے الفاظ تبدیل کرنے کے بعد اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کی تربیت کا اہتمام کرنا پڑے اور یوں ’برٹش کونسل‘ کی پھر سے لاٹری نکل آئے! تعلیم کے نام پر ’بہتی گنگا میں نہانے‘ والے آخری مالی سال کی صورت ملنے والے موقع کو غنیمت سمجھ رہے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ جس طرح موجودہ حکومت نے ماضی کے حکمرانوں کی کارکردگی اور مالی وانتظامی امور کا احتساب نہیں کیا‘ بالکل اِسی طرح کی ’صلۂ رحمی‘ کا مظاہرہ آنے والے حکمران بھی کریں گے! محکمۂ تعلیم کی جانب سے آنے والی یہ وضاحت اپنی جگہ اہم ہے کہ پانچویں جماعت تک نصاب تعلیم پر نظرثانی کے عمل میں اسباق تبدیل نہیں کئے جا رہے بلکہ ماہرین تعلیم کے مشورے سے الفاظ کے انتخاب میں اِس بات کا بطور خاص جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ’بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق نہایت ہی سلیس انداز اختیار کیا جائے۔‘
نتائج پر مبنی درس و تدریس اور بنیادی وثانوی درجات پر تمام کی تمام تر مالی وسائل مرکوز کرنا (جھونکنا) کافی نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی توجہ سرکاری جامعات کی جانب بھی مبذول ہونی چاہئے کیونکہ آئندہ مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) کے بجٹ میں سرکاری یونیورسٹیز کی بجائے کالجوں کی بہتری پر زیادہ توجہ دی گئی ہے! اگر ہم آئندہ مالی سال کی ترقیاتی حکمت عملی (اِینول ڈویلپمنٹ پروگرام) کا جائزہ لیں تو چھ ارب (6.320 بلین) روپے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں پینسٹھ منصوبوں کے لئے مختص کی گئی ہے جس میں سے 3ارب (3.996بلین) روپے جاری جبکہ 2 ارب (2.323بلین) روپے سے زائد ستائیس نئے منصوبے شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا میں تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل میں گذشتہ مالی سال کے مقابلے پندرہ فیصد اضافہ اپنی جگہ لیکن اس کی تقسیم غیرمنصفانہ ہے کیونکہ نئے ترقیاتی منصوبوں میں سرکاری کالجز میں سہولیات کی فراہمی بنیادی نکتہ ہے۔ سرکاری جامعات کی سطح پر اہم فیصلہ یہ سامنے آیا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی اُور شرینگل یونیورسٹی چترال کو ضم کر کے مکمل (یونٹ) ’چترال یونیورسٹی‘ تخلیق و تشکیل دے دی جائے۔ سالانہ ترقیاتی حکمت عملی میں اگر یکساں توجہ جامعات کو نہیں دی جائے گی تو اِس سے سرکاری سرپرستی میں اعلیٰ تعلیمی ادارے خدمات کا معیار اور مقدار نہیں بڑھا پائیں گے اور لاٹری نجی اداروں کی نکل آئے گی جو پہلے ہی من مانی فیسیوں کے عوض تعلیم نہیں بلکہ ’امتحانی نتائج‘ فروخت (کاروبار) کر رہے ہیں!
خیبرپختونخوا میں ’تعلیم اُور کاروبار‘ کو الگ الگ کئے بناء محض مالی وسائل مختص و خرچ کرنے سے بہتری نہیں آئے گی۔ نجی اِداروں کو دی جانے والی غیرتحریری کھلی چھوٹ کا محرک حسن اتفاق بھی ہو سکتا ہے کہ قانون ساز صوبائی اسمبلی کے اراکین اور صوبائی کابینہ میں ایسے کردار موجود ہیں‘ جن کے ذاتی و کاروباری مفادات ’تعلیمی کاروبار‘ ہی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر سرکاری تعلیمی اداروں کو امتحانی کارکردگی کی کسوٹی پر ایک درجہ بلند کرتے ہوئے معیار تعلیم اور نظم وضبط مثالی بنا دیا جاتا ہے تو اِس سے نجی اِدارے ٹھپ ہو جائیں گے! وارے نیارے تو بس سانسیں چلنے (حیات) اور آمدنی کے وسائل قائم و دائم رہنے سے ہیں!
No comments:
Post a Comment