ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دیوانے کا خواب!
اُور جب کھیل سے پہلے ہی ہار مان لی گئی۔ خیبرپختونخوا میں نجی تعلیمی اِداروں سے متعلق ’قانون سازی‘ 23 مئی کے روز کی گئی‘ تاہم ابھی یہ قانون پوری طرح لاگو بھی نہیں ہو پایا تھا کہ ’16 جون‘ (بجٹ پر غوروخوض کے جاری اجلاس کے دوران ہلاگلہ میں) صوبائی اسمبلی نے مذکورہ قانون میں متعدد ترامیم منظور کر لیں‘ جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اب صوبائی حکومت کسی بھی ایسے نجی سکول کو جزوی یا مکمل طور پر بند یا سربمہر نہیں کر سکے گی‘ جو صوبائی حکومت کے مقررہ کم سے کم معیار پر پورا نہیں اُترے گا۔ اِس ترمیم سے قبل قانون کے تحت متعلقہ حکام کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اگر کوئی نجی سکول ضروریات و سہولیات کے مقررہ پیمانے (معیار) پر پورا نہیں اُترتا تو اُس کا اجازت نامہ منسوخ کرتے ہوئے اُسے بند کیا جا سکتا تھا لیکن اِس شق کو تبدیل کرتے ہوئے قانون میں متبادل کے طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ خلاف ورزی کے مرتکب تعلیمی ادارے کے خلاف ’تعزیری کاروائی (Punitive action)‘ کی جائے گی! اِس لمحۂ فکر پر ’دو امور‘ لائق توجہ ہیں۔ نجی تعلیمی اِدارے ’مادرپدر آزاد‘ ہیں‘ جن پر حکومت یا سرکاری قواعد و ضوابط کا خوف طاری نہیں اُور یہ خالصتاً کاروباری اَصولوں پر فعال ہیں۔ اگر سرکاری سکولوں میں نظم وضبط اُور معیار تعلیم بلند ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ سرمایہ داروں کی یوں شعبۂ تعلیم پر ’اجارہ داری‘ قائم ہوتی اور وہ اپنی اِس اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لئے عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرتے! جمہوریت اور قانون سازی کے عمل ہی کو یرغمال بنا لیا جاتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی نجی تعلیمی ادارے کے خلاف ’حکومتی تعزیری کاروائی‘ کی کوئی ایک ’عملی مثال‘ بھی موجود ہوتی تو نئی قانون سازی کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے ’خیبرپختونخوا پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ 2017ء‘ کا شمار اُن ’اچھے (مثالی) قوانین‘ میں ہو سکتا تھا‘ جن کا مقصد اجتماعی بہبود اور عوام کے مفادات کا تحفظ ہوتا لیکن صوبائی قانون ساز اسمبلی کی یہ ’شرمناک کارکردگی‘ تاریخ کا حصہ رہے گی کہ پہلے قانون منظور کیا گیا اور پھر اُسے لاگو کرنے سے قبل ہی ’غیرمؤثر‘ کر دیا گیا یعنی قانون کے دانت نکال دیئے گئے جس سے بجا طور یہ تاثر عام ہوا ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے اراکین ’نجی تعلیمی اداروں کے مفادات کے محافظ‘ بن کر سوچ رہے ہیں اُور اِنہیں ’نجی تعلیمی اداروں کی دن دیہاڑے کھلم کھلا لوٹ مار‘ دکھائی نہیں دے رہی!
ترمیم کے ذریعے خیبرپختونخوا کے نجی تعلیمی اِداروں کو اِس پابندی سے بھی آزاد کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ رشتہ دار بچوں کو ’ٹیوشن فیس‘ میں ’پچیس فیصد‘ رعائت دیں گے۔ ترمیم کے ذریعے ’رشتہ دار (Kinship)‘ کی بجائے یہ رعائت صرف بہن بھائیوں (Siblings) کی حد تک محدود کر دی گئی ہے۔ اَگر قانون سازی عام آدمی (ہم عوام) کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہوتی اور آنکھوں میں دھول جھونکنا ہی مقصود نہ ہوتا تو ’ٹیوشن فیس‘ میں (حاتم طائی) رعائت پچیس کی بجائے پچاس فیصد مقرر کی جاتی۔ لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ پچیس فیصد رعائت صرف ’ٹیوشن فیس‘ کی مد میں دی گئی ہے اور نجی تعلیمی اداروں کو اِس بات کا پابند نہیں بنایا گیا کہ 1: وہ ٹیوشن فیس مقرر کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ 2: ٹیوشن فیس سے دیگر اخراجات کسی بھی صورت زیادہ نہیں ہوں گے۔ 3: سردست اگر کوئی نجی سکول ٹیوشن فیس میں رعائت نہیں دیتا تو اُس کے خلاف کاروائی صرف اُسی صورت ممکن ہے جبکہ والدین یا سرپرستوں کی جانب سے شکایت درج کی جائے۔ دانستہ طور پر ایسا کوئی بھی طریقۂ کار (میکانزم) قانون میں درج ہی نہیں کیا گیا جس کے تحت ’نجی اِداروں‘ کے انتظامی امور کی شفاف طریقے سے نگرانی ہو سکے بالخصوص نجی تعلیمی ادارے صرف مجبور والدین ہی کا نہیں بلکہ اَساتذہ (بالخصوص خواتین ٹیچرز) کا بھی اِستحصال کرتے ہیں اُور بھاری ٹیوشن فیسیں و مختلف ناموں سے دیگر وصولیاں کرنے کے باوجود ٹیچنگ و نان ٹیچنگ عملے کے نہ تو ملازمتی اوقات کار و حالات کار باسہولت ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کو ’’ملازمتی تحفظ‘‘ حاصل ہوتا ہے۔ نجی اداروں میں اساتذہ سے غلاموں اور لونڈیوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے اور بیروزگاری کے خوف سے اُن کے پاس سوائے یہ غیرقانونی بدسلوکی برادشت کرنے کے کوئی چارہ نہیں ہوتا! آخر یہ بات کیوں ممکن نہیں بنائی جا سکتی کہ کوئی بھی نجی سکول ٹیچنگ و نان ٹیچنگ سٹاف کی خدمات اور انہیں ملازمت سے برطرف کرنے کا فیصلہ بناء حکومتی منظوری (ریگولیٹری) نہیں کر سکے گا اُور کسی بھی صورت جز وقتی (عارضی) ملازمت کی آڑ میں ’ٹیچنگ و نان ٹیچنگ سٹاف (عملے)‘ کا اِستحصال کرنے کی غیرتحریری اجازت نہیں دی جائے گا؟ اِصلاح اَحوال (تبدیلی) و اِرتقاء قوانین بنانے سے نہیں بلکہ قوانین و قواعد پر اِن کی روح کے مطابق بلاامتیاز ’عمل درآمد‘ سے ہوتا ہے۔ اب تو موجودہ حکومت کی آئینی مدت کا صرف ایک سال ہی باقی بچا ہے صوبائی سطح پر ’مفادات سے متصادم‘ قانون کب منظور ہوگا؟ خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایسے معروف و معلوم کردار موجود ہیں جن کے ذاتی و کاروباری مفادات ’نجی تعلیمی اِداروں‘ سے وابستہ ہیں اور یہ کسی ’دیوانے کا خواب‘ ہی ہو سکتا ہے کہ وہ اُمید و یقین رکھے کہ ماضی کی طرح تبدیلی کے داعی موجودہ حکمران عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا محافظ بن کر سوچیں گے۔
ذرا سوچئے: یقین نہیں آ رہا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھارت کے خلاف ایک بڑے مقابلے کو جس مہارت سے اپنے نام کیا گیا‘ اُس پر اظہار مسرت‘ مبارک بادوں کا تبادلہ‘ ہوائی فائرنگ اُور شکرانہ اپنی جگہ فطری ردعمل ہیں لیکن کامیابی ٹھوس بنیادوں پر منطق اُور جواز چاہتی ہے۔ کیا ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی ’قابل بھروسہ‘ اور حقیقت میں فخریہ ہے؟ کیا پاکستان کی کرکٹ ٹیم مستقبل کے عالمی مقابلوں میں بھی ’پاک بھارت فائنل میچ‘ جیسے ’کھیل کا مظاہرہ (معیار برقرار)‘ رکھ پائے گی؟ کرکٹ کے منتظم ادارے ’پاکستان کرکٹ بورڈ‘ میں اعلیٰ عہدوں پر سیاسی بھرتیوں (منظورنظر افراد کو نوازنے کی پالیسی) کا خاتمہ کب ہوگا؟
No comments:
Post a Comment