ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خیر کی توقعات؟
خیبرپختونخوا میں اَمن و امان کی صورتحال میں غیرمعمولی بہتر (تبدیلی) کا دعویٰ کرنے والوں کا عمل ’’قول وفعل میں تضادات کا مجموعہ‘‘ ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ’اہم شخصیات (وی آئی پیز اُور وی وی آئی پیز) کی ذاتی حفاظت کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد یوں تعینات نہ ہوتی۔ اِس بیک وقت تشویشناک‘ مضحکہ خیز اور خودغرضی پر مبنی طرز عمل کی جانب توجہ دلاتے ہوئے معروف وکیل ’محمد خورشید خان‘ نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے تاکہ صوبائی حکومت اور بالخصوص محکمۂ داخلہ‘ پولیس اُور قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے دیگر فیصلہ سازوں سے جواب طلبی کی جاسکے کہ آخر کیا جواز (ضرورت) ہے کہ ’خیبرپختونخوا میں قریب ’پانچ ہزار پانچ سو‘ پولیس اہلکار صرف اور صرف گنتی کے اہم شخصیات کے حوالے کر دیئے گئے ہیں جو اُن کی سیکورٹی کے نام پر شخصی ملازم (غلام) بنے ہوئے ہیں جو اپنے آقاؤں کی جان و مال کے محافظ بناتے اجتماعی عوامی مفادات کی قربانی دے دی گئی ہے۔‘‘
منطقی مؤقف ہے کہ پولیس اہلکاروں کی بھرتیوں اُور تعیناتیوں کا ’اَصل (مرکزی و بنیادی) مقصد‘ عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت اور قانون نافذ کرنا ہوتا ہے لیکن پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد سے غیرضروری اِستفادے سے نہ صرف اِس اہم فورس کے اہلکار ایک بے معنی کام (ایکسرسائز) میں مصروف (کا حصہ) ہیں اُور دوسرا سرکاری خزانے سے اَدا ہونے والی تنخواہوں اُور مراعات کے عوض بااثر سیاسی و غیرسیاسی شخصیات کو اہم قرار دیتے ہوئے اِس قدر بیجا مصرف کہاں کا انصاف ہے؟ اپنی نوعیت کے اِس انوکھے مقدمے کے پیش ہوتے ہی پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اُور جسٹس عبدالشکور پر مبنی عدالت نے متعلقہ فریقین (بوساطت چیف سیکرٹری صوبائی حکومت) کو طلب کرلیا کہ وہ ڈویژنل بینچ (عدالت) کے روبرو حاضر ہو کر اپنا مؤقف (جواز) پیش کریں۔
منطقی مؤقف ہے کہ پولیس اہلکاروں کی بھرتیوں اُور تعیناتیوں کا ’اَصل (مرکزی و بنیادی) مقصد‘ عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت اور قانون نافذ کرنا ہوتا ہے لیکن پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد سے غیرضروری اِستفادے سے نہ صرف اِس اہم فورس کے اہلکار ایک بے معنی کام (ایکسرسائز) میں مصروف (کا حصہ) ہیں اُور دوسرا سرکاری خزانے سے اَدا ہونے والی تنخواہوں اُور مراعات کے عوض بااثر سیاسی و غیرسیاسی شخصیات کو اہم قرار دیتے ہوئے اِس قدر بیجا مصرف کہاں کا انصاف ہے؟ اپنی نوعیت کے اِس انوکھے مقدمے کے پیش ہوتے ہی پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اُور جسٹس عبدالشکور پر مبنی عدالت نے متعلقہ فریقین (بوساطت چیف سیکرٹری صوبائی حکومت) کو طلب کرلیا کہ وہ ڈویژنل بینچ (عدالت) کے روبرو حاضر ہو کر اپنا مؤقف (جواز) پیش کریں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ’اہم شخصیات‘ کو کسی بھی وجہ سے ’حفاظت (سیکورٹی)‘ کی ضرورت ہے تو چونکہ اِن اہم شخصیات کا تعلق معاشرے کے غریب غرباء سے نہیں اور عجیب حسن اتفاق ہے کہ ہمارے اردگرد کوئی ایک بھی ’اہم شخص (وی وی آئی پی)‘ ایسا نہیں جس کی (معلوم) مالی حیثیت مشکوک نہ ہو۔ عوام کے دکھ درد کا رونا رونے اور مگرمچھ کے آنسو (ٹسوے) بہانے والوں کی مہارت ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح نہایت خاموشی و رازداری سے ایک دوسرے کو نوازتے ہیں! اِن صاحبان ثروت کے اردگرد درجنوں کی تعداد میں اُن کے ذاتی ملازمین منڈلاتے تابع فرمان رہتے ہیں تو ایسی صورت میں ’اضافی سیکورٹی‘ کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے؟ اُور اگر ضرورت ہے تو پھر ’وی وی آئی پیز‘ کو اپنے ہی مالی وسائل سے اِس کا بندوبست کرنا چاہئے۔
لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ اگر فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کرداروں نے ’وی وی آئی پیز‘ کا تشخص برقرار رکھنا ہی ہے تو پھر ایک الگ سیکورٹی فورس کیوں تشکیل نہیں دی جاتی جو صرف اُور صرف اِن ’نام نہاد (خودساختہ)‘ وی وی آئی پیز کے لئے مخصوص ہو۔
عوام کے نام پر بھرتی کئے جانے والے پولیس اہلکاروں اور قومی وسائل کی بندربانٹ کسی بھی صورت ’امانت و دیانت‘ کے اصولوں (کسوٹی) پر پورا نہیں اُترتی۔ اِسی مقدمے کی ذیل میں اگر ’پشاور ہائی کورٹ‘ یہ جواب بھی طلب کرے کہ صوبائی وسائل سے کن کن اور جن جن اراکین قومی اسمبلی کو ’سیکورٹی‘ فراہم کی جا رہی ہے اور شخصی سیکورٹی کے علاؤہ وہ کون کون سے ’وی وی آئی پیز‘ ہیں کہ جن کی رہائشگاہوں پر مستقل پولیس اہلکار تعینات ہیں تو مزید دلچسپ حقائق اور حیران کن اعدادوشمار سامنے آئیں گے۔ تحریک انصاف نے مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ماضی کی روائتی سیاسی جماعتوں کی مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا باب ہمیشہ کے لئے بند کر دے گی لیکن عرصہ چار سال (مئی دوہزار تیرہ سے جون دوہزار سترہ تک) ایسا کچھ بھی عملاً دیکھنے کو نہیں ملا!
لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ اگر فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کرداروں نے ’وی وی آئی پیز‘ کا تشخص برقرار رکھنا ہی ہے تو پھر ایک الگ سیکورٹی فورس کیوں تشکیل نہیں دی جاتی جو صرف اُور صرف اِن ’نام نہاد (خودساختہ)‘ وی وی آئی پیز کے لئے مخصوص ہو۔
عوام کے نام پر بھرتی کئے جانے والے پولیس اہلکاروں اور قومی وسائل کی بندربانٹ کسی بھی صورت ’امانت و دیانت‘ کے اصولوں (کسوٹی) پر پورا نہیں اُترتی۔ اِسی مقدمے کی ذیل میں اگر ’پشاور ہائی کورٹ‘ یہ جواب بھی طلب کرے کہ صوبائی وسائل سے کن کن اور جن جن اراکین قومی اسمبلی کو ’سیکورٹی‘ فراہم کی جا رہی ہے اور شخصی سیکورٹی کے علاؤہ وہ کون کون سے ’وی وی آئی پیز‘ ہیں کہ جن کی رہائشگاہوں پر مستقل پولیس اہلکار تعینات ہیں تو مزید دلچسپ حقائق اور حیران کن اعدادوشمار سامنے آئیں گے۔ تحریک انصاف نے مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ماضی کی روائتی سیاسی جماعتوں کی مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا باب ہمیشہ کے لئے بند کر دے گی لیکن عرصہ چار سال (مئی دوہزار تیرہ سے جون دوہزار سترہ تک) ایسا کچھ بھی عملاً دیکھنے کو نہیں ملا!
کوئی یقین کرے یا نہ کرے لیکن تحریک انصاف کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ چار سال میں جادوئی طور پر ’خیبرپختونخوا پولیس کو غیرسیاسی‘ کر دیا گیا ہے لیکن عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے تبدیلی صرف اور صرف بیانات کی حد تک محدود ہے وگرنہ تھانہ کلچر اور پولیس کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکاروں کا مزاج و کارکردگی ’جوں کی توں‘ برقرار ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ چار سال کا وقت ضائع کر دیا گیا جس دوران پولیس کی صفوں (بھیس) میں کالی بھیڑوں کا صفایا سزا و جزأ کے ذریعے ممکن تھا اور اگر اختیارات و خودمختاری کے ساتھ‘ محکمانہ سطح پر احتساب بھی متعارف کرا دیا جاتا کہ ہر پولیس اہلکار کی مجموعی تنخواہوں اور برسرزمین مالی حیثیت (اثاثوں) کے بارے چھان بین کا عمل شروع ہوتا تو کیا ہی بات ہوتی!
کھلی حقیقت ہے کہ اضلاع میں دہائیوں سے تعینات پولیس اہلکاروں نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے کاروباری و ذاتی مفادات کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے اور یہ ’پیٹی بند‘ اتنے ’طاقتور و متحد‘ ہیں کہ عام آدمی اُن کے سامنے آج بھی بے بس و لاچار دکھائی دیتا ہے!
کھلی حقیقت ہے کہ اضلاع میں دہائیوں سے تعینات پولیس اہلکاروں نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے کاروباری و ذاتی مفادات کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے اور یہ ’پیٹی بند‘ اتنے ’طاقتور و متحد‘ ہیں کہ عام آدمی اُن کے سامنے آج بھی بے بس و لاچار دکھائی دیتا ہے!
ترجیحات اور خیر اندیشی ملاحظہ کیجئے کہ صوبائی دارالحکومت کے لئے پولیس اہلکاروں کی کل تعداد 6 ہزار 200 ہے جن میں سے 1 ہزار 529 اہم شخصیات کے حوالے ہیں! عجیب منطق ہے کہ اِسی ضلع پشاور میں صرف 25 ’وی وی آئی پیز‘ کے ہمراہ 178 پولیس اہلکار ’شاہانہ مزاج‘ کی تسکین کا سامان ہیں جبکہ ایک ہزار پانچ اہلکار اہم شخصیات کی رہائشگاہوں یا حکومتی دفاتر پر الگ سے تعینات ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ پشاور کے لئے 6200 پولیس اہلکاروں میں سے صرف 3 ہزار ہی باقی بچتے ہیں جن کے کندھوں پر ذمہ داری ہے کہ قریب ستر لاکھ کی آبادی کے شہر کو ہرقسم کے داخلی و خارجی خطرات سے محفوظ رکھیں!
پشاور میں حسب آبادی تھانہ جات اور پولیس اہلکاروں کی افرادی تعداد کون بڑھائے گا؟ اعدادوشمار چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا پولیس کے وسائل و افرادی قوت سے خاطرخواہ استفادہ نہیں ہو رہا۔ ملاکنڈ میں 271‘ مردان میں 172‘ ڈیرہ اسماعیل خان میں 52‘ ایبٹ آباد میں 59‘ کوہاٹ میں 38‘ ہنگو میں 10‘ لوئر دیر میں 101 اور کرک میں 9 پولیس اہلکاروں کا کام صرف اور صرف ’اہم شخصیات‘ کی حفاظت ہے! علاؤہ اَزیں ڈھیروں ڈھیر ’اہم شخصیات‘ کی حفاظت کرنے والے ہزاروں پولیس اہلکار اِس بات کو ’اِستحقاق‘ سمجھتے ہیں کہ وہ ’خانصاحب بہادروں‘ کی آمدورفت کے موقع پر سڑکیں بند کر دیں‘ جس سے عام آدمی (ہم عوام) کے لئے غیرمعمولی مشکلات پیدا ہوتی ہیں! کیا ’پشاور ہائی کورٹ‘ ایک ایسی گھتی سلجھا پائے گی‘ جس کا بنیادی تعلق ’احساس اور ضمیر‘ سے ہے اور اِن جیسے بہت سے لطیف محسوسات کی نجانے کب سے موت ہو چکی ہے!
پشاور میں حسب آبادی تھانہ جات اور پولیس اہلکاروں کی افرادی تعداد کون بڑھائے گا؟ اعدادوشمار چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا پولیس کے وسائل و افرادی قوت سے خاطرخواہ استفادہ نہیں ہو رہا۔ ملاکنڈ میں 271‘ مردان میں 172‘ ڈیرہ اسماعیل خان میں 52‘ ایبٹ آباد میں 59‘ کوہاٹ میں 38‘ ہنگو میں 10‘ لوئر دیر میں 101 اور کرک میں 9 پولیس اہلکاروں کا کام صرف اور صرف ’اہم شخصیات‘ کی حفاظت ہے! علاؤہ اَزیں ڈھیروں ڈھیر ’اہم شخصیات‘ کی حفاظت کرنے والے ہزاروں پولیس اہلکار اِس بات کو ’اِستحقاق‘ سمجھتے ہیں کہ وہ ’خانصاحب بہادروں‘ کی آمدورفت کے موقع پر سڑکیں بند کر دیں‘ جس سے عام آدمی (ہم عوام) کے لئے غیرمعمولی مشکلات پیدا ہوتی ہیں! کیا ’پشاور ہائی کورٹ‘ ایک ایسی گھتی سلجھا پائے گی‘ جس کا بنیادی تعلق ’احساس اور ضمیر‘ سے ہے اور اِن جیسے بہت سے لطیف محسوسات کی نجانے کب سے موت ہو چکی ہے!
No comments:
Post a Comment