Saturday, June 10, 2017

June2017: Budget & Education - Financial Resources not just enough!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
کارکردگی: حاوی حقائق!
برسرزمین حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ ’انسانی وسائل کی ترقی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی‘ جیسی ترجیحات سرفہرست رکھی جائیں۔ خیبرپختونخوا کے بجٹ برائے مالی سال دوہزار سترہ اٹھارہ سے وابستہ توقعات بھلا کیسے پوری ہو سکتی ہیں جبکہ اُن جملہ امور کا خاتمہ نہیں کیا گیا‘ جن کے باعث گذشتہ مالی سالوں کے دوران مختص وسائل ضائع ہوتے رہے ہیں۔ ’سفررائیگاں‘ کے عنوان سے ’نو جون‘ کو ’نئے مالی سال اُور بلدیاتی نظام‘ کے حوالے سے جائزہ پیش کیا گیا‘ تاکہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو اُن کا یہ انتخابی وعدہ یاد دلایا جا سکے کہ ۔۔۔ ’’قانون ساز اَراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کئے جائیں گے اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام کو مضبوط بنایا جائے گا۔‘‘ لیکن اگر ایسا عملاً نہیں ہو پا رہا تو فکروعمل کی اصلاح ضروری ہے۔

مالی سال دوہزارسترہ اٹھارہ کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے ’شعبۂ تعلیم‘ کے لئے 136 ارب روپے مختص کئے جو گذشتہ مالی سال کے مقابلے ’’پندرہ فیصد‘‘ زیادہ ہیں! قابل ذکر ہے کہ صوبے کی مجموعی ترقیاتی حکمت عملی (اے ڈی پی) کا حجم 208ارب روپے میں سے 9.77 فیصد (بیس اعشاریہ بتیس ارب روپے) پرائمری اور ہائر ایجوکیشن میں ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کئے گئے ہیں! 

سرکاری تعلیمی اداروں کے لئے مالی وسائل مختص کرنے میں ’بہادری (فراخدلی) کا مظاہرہ‘ کرنے میں موجودہ صوبائی حکومت کا جواب نہیں لیکن کیا اب تک کے تجربات سے ثابت نہیں ہوا کہ محض مالی وسائل پانی کی طرح بہانے ہی سے بہتری نہیں لائی جا سکتی؟ تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ جن تین مدوں میں خرچ ہو رہا ہے اُن کا تعلق غیرترقیاتی اخراجات سے ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں و مراعات اور دیگر اخراجات مختص مالی وسائل کے قریب نوے فیصد کو چھو رہے ہیں! پرائمری (بنیادی) تعلیم کے شعبے میں اساتذہ کی بذریعہ برطانوی ادارے ’برٹش کونسل‘ پندرہ روزہ تربیت پر ایک ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرنا اور تربیتی عمل مقررہ مدت میں مکمل نہ ہونے آنے والے وقت میں ایک ایسا ’اسکینڈل‘ ثابت ہوگا‘ جس میں بڑے بڑے نام ’ملوث پائے جائیں گے۔‘ حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی تعلیمی پالیسی اور مختص مالی وسائل سے یا تو براہ راست ’برٹش کونسل‘ یا پھر ’برٹس کونسل‘ سے وابستہ رہے ملازمین کو زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے خیبرپختونخوا کے تعلیمی ڈھانچے کی بہتری کے لئے جس قدر ذیلی شعبے تخلیق کئے اُن میں حیرت انگیز طور پر برٹش کونسل سے سابق اور حاضر سروس ملازمین کی خدمات بھاری تنخواہوں اور مراعات کے عوض حاصل کی گئیں۔ حتیٰ کہ تشہیری مہمات کو ڈیزائن (تخلیق) کرنے پر کروڑوں روپے خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی قرار دی جاسکتی ہے!؟ سوال یہ ہے کہ ماضی میں اساتذہ کی تربیت پر ایک ارب سے زائد خرچ کرنے سے کیا نتائج حاصل ہوئے اور نئے مالی سال میں 30 کروڑ (300ملین) روپے مزید مختص کرنے سے کیا بہتری آئے گی؟ دوسروں پر تنقید اور بلند بانگ دعوؤں پر مبنی بیانات جاری کرنے سے ایک ’سیاسی ضرورت‘ تو ’بخوبی پوری‘ ہو رہی ہے لیکن اگر خیبرپختونخوا کے سیاسی فیصلہ ساز کبھی اپنے آپ سے بھی باتیں کریں تو اُن کے علم میں اضافہ ہوگا۔

سیاسی تجزیہ کار ’محمود جان بابر‘ سے اگر یہ نتیجۂ خیال مستعار لیا جائے کہ ’’تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی قیادت نے چیئرمین عمران خان کو ’اَندھیرے میں رکھتے ہوئے‘ ترقی اور تبدیلی کا جو نقشہ اُن کے سامنے پیش کیا ہے‘ وہ سوفیصد حقائق پر مبنی نہیں اور تبدیلی کی گنجائش موجود ہونے کے باوجود اگر بہتری کے لئے عملی کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو پا رہے تو ’’طرزحکمرانی کی اصلاح‘ اِحتساب اُور تبدیلی‘‘ کے نام پر برسراِقتدار آنے والوں کو اپنے طرزفکروعمل پر غور کرنا چاہئے کہ ’حائل رکاوٹیں‘ کیا ہیں اور اُن سے چھٹکارہ پانے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جانی چاہیءں لیکن جو ایک بنیادی سوال نہیں اُٹھایا جا رہا وہ یہ ہے کہ ’’کیا چیئرمین عمران خان کی خیبرپختونخوا کے امور میں دلچسپی اُسی درجے (مقام بلند) پر فائز ہے جو مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے (حیران کن) نتائج کے وقت تھی؟‘‘ 

تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا سے بناء ’ہیوی ویٹ (ایلیکٹ ایبلز)‘ مئی دوہزارتیرہ کا انتخابی معرکہ اپنے نام کیا لیکن کیا آئندہ بھی ایسا کر پائے گی جبکہ تحریک انصاف کا تنظیمی ڈھانچہ اور کارکنوں کے آپسی اختلافات و تعلقات (بداعتمادی) کم ترین درجے پر ہے!؟ 

صوبائی حکومت کی کارکردگی اور سیاسی معاملہ فہمی‘ بصیرت اور قدکاٹھ اپنی جگہ لیکن خیبرپختونخوا کی زیرنگرانی ’’تعلیم‘ صحت اُور بلدیاتی نظام‘‘ کا قبلہ بطور ترجیح درست کئے بناء ہر سال زیادہ سے زیادہ‘ بلکہ اور بھی زیادہ مالی وسائل سے کام لینا اُس وقت تک ’کارگر ثابت نہیں ہو گا‘ جب تک تعریف و توصیف کی ماہر ’افسرشاہی‘ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے دھوکے (سراب) سے بچا نہیں جاتا‘ جب تک خود کو ’عقل کل‘ سمجھنے کی بجائے مشاورتی عمل کو وسعت نہیں دی جاتی‘ اور جب تک بلدیاتی نظام کو مضبوط و توانا نہیں کیا جاتا کیونکہ مسائل اور دستیاب وسائل (جمع پونجی) کا اِدارک رکھتے ہوئے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کردار ’نمائشی اقدامات‘ سے گریز کئے بناء ترقی کو پائیدار و معیاری نہیں بنایا جا سکے گا! 

تندوتلخ سہی لیکن حقیقت پر حقیقت (حاوی) ہی رہے گی کہ ’’خوش رنگ اقتدار کے ساتھ جڑی ذمہ داریوں کا ذائقہ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے!‘‘

No comments:

Post a Comment