ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سفر رائیگاں!؟
خود کو آج بھی وہیں کا وہیں کھڑا محسوس کرنے والوں کے لئے سال دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل اور بعد کی صورتحال زیادہ مختلف نہیں! کردار (چہرے) بدل گئے ہیں لیکن ’سیاسی تماشا‘ اور ’تماش بینوں‘ کا ایک دوسرے سے (دیکھدا جاندا رے جیسا) تعلق وہیں کا وہیں ہے‘ یہی سبب ہے کہ ’خیبرپختونخوا‘ کے ’وسائل اور مسائل‘ کی الجھن میں ہر ’بجٹ‘ کے ساتھ اِضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے!
خوداحتسابی کے کم سے کم معیار کے ساتھ بھی اگر مالی و انتظامی نظم وضبط لاگو کرنے کی زحمت گوارہ کی جاتی‘ طرز حکمرانی کی بنیاد ’اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے‘ جیسی صورت اختیار کی جاتی تو ’الفاظ کے گورکھ دھندے‘ پر مبنی صوبائی آمدن و اخراجات کا سالانہ میزانیہ (بجٹ) ہر سال بہتری و تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا۔ یادش بخیر سال 2013ء میں خیبرپختونخوا حکومت نے ’بلدیاتی حکومتوں سے متعلق قانون سازی (لوکل باڈیز ایکٹ)‘ کے ذریعے اِس عزم کا اظہار کیا تھا کہ صوبائی حکومت ہر مالی سال کے آغاز پر 30 فیصد ترقیاتی بجٹ (اینول ڈویلپمنٹ پروگرام) عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندوں (ضلعی ترقی) کے حوالے کرے گی لیکن سات جون کو صوبائی وزیرخزانہ مظفر سید نے مالی سال دوہزار سترہ و اٹھارہ کا بجٹ پیش کیا‘ جس سے قبل اُمید تھی کہ اپنی آئینی مدت کے آخری سال مقامی سطح پر ترقی کے لئے زیادہ مالی وسائل مختص کئے جائیں گے جس سے ایک ایسا مضبوط و توانا بلدیاتی نظام تشکیل پائے گا‘ جو نہ صرف دوسرے صوبوں کے لئے فقیلد المثال ہو گا بلکہ اس کے ذریعے خیبرپختونخوا میں ’’ترقیاتی عمل کی پیاس‘‘ کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ بناء تمہید قابل مذمت قرار دینا چاہئے کہ ’’ترقی کے عمل کو ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی کے اراکین اور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے اراکین کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے‘‘ جو اِس سے قبل بھی ’سیاسی‘ انتخابی اور ذاتی‘ ترجیحات کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقوں میں ترقی کے نام پر جوکچھ بھی سرانجام دیتے آ رہے ہیں اُس پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی ’تبدیلی‘ کے بارے میں عمومی رائے (تاثر) اگر یہ ہے کہ اِس کا معیار اور مقدار دونوں ہی تسلی بخش نہیں تو بلدیاتی نمائندوں کی اجتماعی فہم و فراست اور مقامی حکومتوں کے ذریعے مقامی مسائل کے حل کو زیادہ بڑا اور وسیع المعانی موقع دینا چاہئے تھا لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا تو درحقیقت تحریک انصاف نے موقع نہ دے کر اپنے آپ کو ملنے والا وہ موقع ضائع کر دیا ہے‘ جو آئندہ عام انتخابات کے نتائج کو اِس کے حق میں تبدیل کرنے کی صلاحیت (قدرت) رکھتا ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے نئے مالی سال کے لئے مجوزہ بجٹ ’سات جون‘ کو صوبائی اسمبلی اجلاس میں پیش کیا جس کا کل حجم 603 ارب روپے ہے اور اِس میں صوبائی خزانے سے ترقیاتی کاموں کے لئے 126 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں‘ جس میں بیرون ملک سے حاصل ہونے والی 82 ارب روپے کی مالی امداد شامل نہیں۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (اپنے ہی تخلیق کردہ قانون) کے تحت صوبائی اِس بات کی پابند تھی کہ وہ بلدیاتی حکومتوں کو تعمیروترقی کے لئے مختص مالی وسائل کا 30فیصد منتقل کر دیتی لیکن مجوزہ بجٹ میں بلدیاتی اداروں کا ترقیاتی حکمت عملی کے لئے مختص مالی وسائل میں حصہ 22.2 فیصد رہے گا یعنی ایک سو چھبیس ارب روپے میں سے قریب 28 ارب روپے اضلاع کی ترقیاتی حکمت عملیوں کے لئے مخصوص ہوں گے! کیا اِسے خیبرپختونخوا کے تین سطحی بلدیاتی نظام سے اِنصاف قرار دیا جاسکتا ہے؟
صوبائی بجٹ دستاویز (ڈاکیومنٹ) کئی لحاظ سے دلچسپ ہے لیکن اگر موضوع کو ’بلدیاتی اداروں‘ کی حد تک محدود کر کے اِسے پڑھا جائے تو صوبائی حکومت نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں بلدیاتی ادارے اہم مقام رکھتے ہیں اور اِن کی اہمیت مسلمہ ہے۔‘‘ ساتھ ہی اِس بات کا بھی ذکر تحریری طور پر موجود ہے کہ صوبائی حکومت کی مالی ذمہ داریوں میں یہ امر شامل ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کے لئے ترقیاتی بجٹ کا ’30فیصد‘ مختص کرے گی تو پھر کیا وجہ تھی کہ عملی طور پر ایسا نہیں کیا گیا تو اِس قریب ’آٹھ فیصد‘ کمی جیسے ’کھلے تضاد‘ کی وضاحت (حساب) کون دے گا؟
خیبرپختونخوا کے زمینی حقائق اِس بات کے متقاضی تھے کہ ’فسکل ائر دوہزار سترہ اٹھارہ‘ کے بجٹ میں کم سے کم 30فیصد کی آئینی حد سے زیادہ (بڑھ کر) مالی وسائل فراہم کئے جاتے لیکن عجب ہے کہ صوبائی حکومت نے تو اِس مرتبہ گذشتہ مالی سال (2016-17ء) کے بجٹ سے بھی کم مالی وسائل مختص کئے ہیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ مالی سال میں 33.9 ارب روپے اضلاع کے ترقیاتی منصوبوں کو دیئے گئے تھے جو اُس وقت کی کل ایک سو چھبیس ارب روپے کی صوبائی ترقیاتی حکمت عملی کا 27.1 (ستائیس اعشاریہ ایک) فیصد بنتا تھا اُور اُمید تھی کہ آئندہ مالی سال میں کم سے کم اِس تین فیصد کمی کو دور کرتے ہوئے مزید دس فیصد اِضافہ کیا جائے گا تاکہ نہ صرف ایک آئینی ذمہ داری کی ادائیگی ’خوش اسلوبی‘ کے ساتھ ممکن ہو سکے بلکہ کم ترقی یافتہ اضلاع کو زیادہ مالی وسائل فراہم کرکے اُس شعور و پختگی کو خراج تحسین پیش کیا جاسکتا تھا‘ جس نے مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا پر حکمرانی کرنے والی دیگر روائتی سیاسی جماعتوں کو مسترد کرتے ہوئے ’تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا تھا‘ لیکن آخری سال کے بجٹ اُور بلدیاتی اِداروں کے لئے کم ترین مالی وسائل مختص کرنے کے عمل نے گویا ’اک خواب سہانے‘ ہی کو روند ڈالا ہے!‘
کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن موجودہ خیبرپختونخوا حکومت کو پہلے دن سے ’مالی بحران‘ کا سامنا ہے اور اِس بحران سے نمٹنے کے لئے طرز حکمرانی میں سادگی اختیار کرتے ہوئے غیرترقیاتی اخراجات میں کمی ممکن تھی۔ ہر ایک پائی کو سوچ سمجھ کر خرچ کرنے سے ترقی کے جملہ اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکتا تھا۔
مالی سال 2017-18ء کے لئے خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ’لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ‘ کو مجموعی طور پر ’175.58ارب روپے‘ دیئے جائیں گے۔ جس میں 28 ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لئے اور 121.37 ارب روپے ملازمین کی تنخواہیں مراعات اور دیگر غیرترقیاتی اخراجات کی نذر ہوں گے لیکن بس یہی نہیں بلکہ تعمیر و ترقی کے لئے 28 ارب روپے اور غیرترقیاتی امور پر 121 ارب روپے کے علاؤہ لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے لئے (مختص ایک سو پچھتہر اعشاریہ اٹھاون ارب روپے میں سے) 20 ارب روپے اُن غیرترقیاتی اخراجات کے لئے رکھے گئے ہیں جو ملازمین کی تنخواہوں کے علاؤہ ہیں!
بیس ارب روپے معمولی رقم نہیں کہ یوں ہوا میں اُڑا دی جائے! کسی محکمے میں ملازمین کی زیادہ سے زیادہ تعداد کا میزانیہ اِس اصول پر ہونا چاہئے کہ غیرترقیاتی امور کی بجائے زیادہ مالی وسائل ترقی پر خرچ ہوں۔ اگر صوبائی حکومت ’بلدیاتی نمائندوں‘ کے دم کرم سے اِستفادہ کرے تو ’محکمۂ بلدیات‘ کے غیرترقیاتی اخراجات میں بڑی حد تک کمی لا سکتی ہے‘ لیکن اِمکانات و ممکنات کی دلدلی زمین پر پاؤں رکھنے والوں کو اَندیشہ ہے کہ وہ اپنا (سیاسی) توازن یعنی اَراکین اسمبلی اپنی اہمیت ہی کھو بیٹھیں گے! لیکن اگر اپنی ہستی (اَنا اور مفادات) کی قربانی دینے کا حوصلہ (ہمت) کا عملی مظاہرہ نہیں ہوگا‘ تو اُس وقت تک کوئی بھی دانہ خاک میں مل کر ’گل و گلزار‘ نہیں ہوگا۔
No comments:
Post a Comment