Friday, June 16, 2017

June2017; Exposed corruption with incamera (hidden) investigation!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لطیف لطائف!
تصویر کا پہلا رخ یہ ہے کہ ’’وزیراعظم ’مشترکہ تحقیقاتی کمیشن (جے آئی ٹی)‘ کے سامنے پیش ہوئے اور عملاً دکھا دیا کہ وہ اِداروں کا کس حد تک احترام کرتے ہیں۔‘‘ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کیا وزیراعظم کے پاس ’جے آئی ٹی‘ کے روبرو پیش ہو کر اُن الزامات کا دفاع کرنے کے سوأ کیا کوئی دوسری ایسی صورت تھی‘ جو اُنہیں مالی بدعنوانی کے الزامات سے نجات دلا سکے؟

اقتدار کی طاقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ سیاسی جماعتوں کی ہمیشہ سے کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے اپنے دور حکومت کے دوران ہی ہر قسم کی آئینی و ادارہ جاتی مقدمات و تحقیقات سے گلوخلاصی کروا لیں۔ اصولی اور اخلاقی طور پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم ’جے آئی ٹی‘ کے سامنے پیش ہونے سے قبل مستعفی ہو جاتے تاکہ اُن کے سیاسی مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ہی نہ ملتا کہ وہ تحقیقات پر اَثرانداز ہو رہے ہیں۔ کیا وزیراعظم کسی دوسرے ملک کی عدالت کے روبرو پیش ہوئے ہیں جس سے پاکستان کے وقار پر حرف آیا ہے یا وہ اپنے ہی ملک (ماتحت) ادارے کی طلبی پر ’حاضر جناب‘ ہو کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو آئین و قانون سے کوئی بالاتر نہیں؟ ’جے آئی ٹی‘ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پیش کردہ ناموں کو سپرئم کورٹ نے منظور کرکے پاناما لیکس کے معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کو حتمی شکل دی تھی اور اس میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل امیگریشن (اکیس گریڈ کے) واجد ضیاء سربراہی کر رہے ہیں جن کا تعلق ’’پولیس سروس‘‘ سے ہے۔ آپ دو مرتبہ خفیہ ادارے انٹلی جنس بیورو (آئی بی) اور موٹروے پولیس میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ واجد ضیاء ایف آئی اے کے اکنامک کرائم ونگ سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں‘ اگرچہ ان کا پولیس جیسے ادارے میں تجربہ محدود ہے لیکن وہ حج اسکینڈل کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل تھے کہنے کا مطلب ہے کہ وہ سیاستدانوں سے نمٹنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اِن کے علاؤہ کمیٹی کے دیگر اراکین میں ملٹری انٹلی جنس (ایم آئی) کے بریگیڈئر کامران خورشید‘ انٹر سروسز انٹلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈئر نعمان سعید‘ قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ بیس کے افسر عرفان نعیم منگی‘ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔ عامر عزیز بھی اکیس گریڈ کے سرکاری افسر ہیں جو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس کے مینجنگ ڈائریکٹر مقرر ہونے کے بعد گذشتہ سات برس سے بینکنگ سے الگ ہیں۔ این آئی بی ایف‘ بینکنگ اور فنانس کے پیشہ ور افراد کا تربیتی ادارہ ہے‘ جو بینکاری کے اصول‘ عملی مظاہرے اور اس سے ملحقہ موضوعات کے مطالعے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ عامر عزیز سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں قومی احتساب بیورو (نیب) کا بھی حصہ رہ چکے ہیں۔ بلال رسول سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعینات ہیں جو اس وقت ایس ای سی پی سیکرٹریٹ کے میڈیا کارپوریٹ کمیونیکیشن اور ٹرانسلیشن ڈیپارٹمینٹ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے انیس سو ترانوے میں کارپوریٹ لاء اتھارٹی میں شمولیت اختیار کی‘ جہاں انہوں نے اپیلیٹ بینچ کے رجسٹرار اور سیکرٹری کمیشن کے طور پر خدمات سرانجام دیں آپ اردو کے علاؤہ انگریزی‘ پنجابی اور عربی زبانیں روانی سے بول سکتے ہیں۔ جے آئی ٹی کا رکن عرفان نعیم منگی کا تعلق اُس قومی احتساب بیورو (نیب) سے ہے‘ جس کے بارے میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سپرئم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ ادارہ عملاً دفن ہو چکا ہے! عرفان منگی بیس گریڈ کے سرکاری افسر ہیں جو اس وقت کوئٹہ میں بطور ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان تعینات ہیں۔ نعیم منگیکے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اُنہیں ’’وائٹ کالر جرائم‘‘ کی تہہ تک پہنچنے کی مہارت حاصل ہے لیکن اب تک اُنہوں نے اپنی اِس مہارت سے کتنے ’وائٹ کالر مجرموں‘ کو کیفرکردار تک پہنچایا‘ یہ بیان تفصیل کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں! جے آئی ٹی کا رکن بننے کا قرعہ فال ریٹائرڈ بریگیڈئر محمد نعمان سعید کے نام بھی نکلا‘ جو آئی ایس آئی کے کسی ایک اندرونی سیکیورٹی ونگ کے ڈائریکٹر ہیں‘ آپ دوہزار سولہ میں فوج سے ریٹائر ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’جے آئی ٹی‘ کے اِن سبھی اراکین نے تحریری طور پر ’سپرئم کورٹ‘ کو آگاہ کیا ہے کہ اُنہیں‘ اُن کے اہل خانہ (بال بچوں) اور اُن کی ملازمتوں کو خطرہ درپیش ہے! 

پاکستان کی تاریخ میں اگر ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ وزیراعظم اور اُن کے اہل خانہ کسی تحقیقاتی کمیٹی کے مشکوک ذرائع آمدنی کی وضاحت اُور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کے طریقۂ کار کے دستاویزی ثبوت دینے کے لئے پیش ہو رہے ہیں تو یہ بات بھی پہلی مرتبہ ہو رہی ہے کہ ملک کے سب سے مضبوط سمجھے جانے والے خفیہ ادارے جس کی دھاک پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اُس کے اہلکاروں کو کسی ’گاڈ فادر‘ سے خطرات لاحق ہیں! اگر حکمراں خاندان نے دستاویزی ثبوت دینے ہوتے تو وہ پہلے ہی سپرئم کورٹ کے طلب کرنے پر پیش کر دیتے‘ جو زیادہ بااختیار‘ باوقار اور حسب حیثیت سپرئم فورم ہے۔ یوں کسی ملک کے حکمران کی بیس‘ اکیس گریڈ کے (ماتحتوں کے سامنے پیش ہوکر شہ سرخیوں کا حصہ بننے سے ایک اسلامی جمہوریہ کے حکمرانوں اور مالی بدعنوانیاں کیا نیک شگون قرار دیا جاسکتا ہے! 

نجانے یہ امر ’قومی مشغلہ‘ کیسے بن گیا ہے کہ ہم اپنا اور دوسروں کا ’قیمتی وقت‘ ضائع کرنے سے لطف پاتے ہیں!؟

No comments:

Post a Comment