ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ڈبوتی کشتی!
پاکستان تحریک اِنصاف کی قیادت میں ’خیبرپختونخوا‘ کی موجودہ حکومت کے چار سال یہ یقین دلانے میں گزار دیئے کہ ’پشاور کو تیزرفتار ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سروس (بس ریپیڈ ٹرانزٹ)‘ دی جائے گی‘ اور آخری (پانچویں) مالی سال کے آغاز پر ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ منصوبے میں تاخیر کی بنیادی وجہ (قصوروار) وفاقی حکومت کو قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ اِس عوامی منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے خصوصی مشیر برائے ’امورِ ٹرانسپورٹ‘ شاہ محمد وزیر چاہتے ہیں کہ اُن کا یقین کرتے ہوئے مان لیا جائے کہ ’’مذکورہ منصوبے کے لئے وفاقی حکومت سے دو سال قبل ریلوے کی اراضی لیز پر دینے کی درخواست کی گئی تھی جسے مسترد کرتے ہوئے معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا جہاں عرصہ دو سال سے زیرالتوأ اِس درخواست کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جا رہا!‘‘ اگر ہمارے مشیر و معاونین ’لابنگ‘ کے ذریعے وفاقی حکومت کو قائل نہیں کرسکتے تو ایسے کردار کس مرض کی دوا ہیں؟
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کس بنیاد پر یہ تصور بھی کر سکتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی وفاقی حکومت ایک ایسے ماحول میں خاطرخواہ دردمندی (صلۂ رحمی) کا مظاہرہ کرے گی جبکہ اُسے ’پانامہ کیس‘ میں نااہلی کے قریب اور بند گلی میں دھکیلنے والوں میں پیش پیش اُور سب سے زیادہ سرگرم تحریک انصاف ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا بالخصوص پشاور کو اِس بات کی سزا دی جارہی کہ اِس نے مئی دوہزارتیرہ کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہی کیوں!؟ یاد رہے کہ پشاور سے خیبرپختونخوا اسمبلی کی گیارہ نشستوں میں سے دس اور قومی اسمبلی کی اکثریتی نشستوں پر تحریک انصاف نے انتخابی کامیابیاں حاصل کی تھیں اُور ماضی جیسی مقبولیت نہ سہی لیکن ’تحریک اِنصاف‘ کا ووٹ بینک ہر اِنتخابی حلقے میں مدمقابل کسی بھی سیاسی جماعت کو ’ٹف ٹائم‘ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اَگر شروع دن سے ’سیاسی پختگی (معاملہ فہمی)‘ بصیرت و دانشمندی سے کام لیا جاتا اُور مقامی قیادت (کارکنوں) پر اِعتماد کرتے ہوئے ’تحریک اِنصاف کی تنظیمیں‘ مضبوط کی جاتیں تو ایک ایسی صورتحال یقیناًپیش نہ آتی جس میں وفاق خیبرپختونخوا حکومت اور خیبرپختونخوا کے رہنے والوں کو دو الگ الگ اکائیوں کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ طاقت کا سرچشمہ بہرحال عوام ہی ہوتے ہیں! وزیراعظم سمیت وفاقی حکومت کے ہر کردار کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہوگا کہ وہ ’وفاق پاکستان‘ کی علامت ہیں اور محض سیاسی وجوہات و مخالفت کی بناء پر کسی ایک صوبے کے رہنے والوں کو یوں ترقی سے محروم نہیں رکھ سکتے! جبکہ یہ طرزعمل آئین کی عملی خلاف ورزی کے زمرے میں بھی شمار ہوتی ہے۔
پشاور کے ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کے لئے ریلوے کی اراضی نہ دینے کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت پشاور سے طورخم (افغانستان سرحد) تک ریلوے لائن کو دو رویہ کرنا چاہتی ہے اور اِس توسیعی منصوبے کی وجہ سے ریلوے کی اراضی اجارے (لیز) پر نہیں دے سکتی جبکہ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پشاور سے طورخم ریل پٹڑی (ریلوے لائن) کی بطور معمول دیکھ بھال تک نہیں کی جاتی اور خیبرایجنسی کے سنگلاخ پہاڑی علاقوں سے گزرنے والی پٹڑی کئی مقامات پر ہوا میں معلق دکھائی دیتی ہے! جہاں ریلوے کا ’سنگل ٹریک‘ ہی موجود نہیں وہاں ’ڈبل ٹریک‘ کی باتیں کرنا ایک ایسے مفروضے کو پیش کرنے جیسا ہے جو کسی بھی صورت ایک ایسے ادارے کے لئے عملاً قابل عمل نہیں جو مالی بحران سے دوچار ہواور جس کے پاس ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں اَدا کرنے کے لئے بھی مالی وسائل نہ ہوں! اگر وفاقی حکومت ریلوے اور پی آئی اے کو ’بیل آؤٹ پیکجز‘ نہ دے تو یہ ادارے کب کے دیوالیہ (ختم) ہو چکے ہوتے! وفاق کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ سیاسی بدنیتی پر مبنی اُن کے فیصلے کہ ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کے لئے اراضی نہ دینے کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے عوام میں ’نواز لیگ‘ کے بارے کوئی ’فقیدالمثال‘ تاثر پیدا نہیں ہو رہا جو اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے وسائل پر صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکمران کس طرح مسلط ہیں اور یہ بات چھوٹے صوبوں میں پائے جانے والے احساس محرومی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ کیا آئندہ عام انتخابات میں ’نواز لیگ‘ کو خیبرپختونخوا سے حمایت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں؟
جاننے کے باوجود بھی نہایت ہی بیدردی سے وقت ضائع کیا گیا اُور اب پشاور کے لئے تیزرفتار بس سروس منصوبہ ’تحریک انصاف‘ کی مجبوری بن گئی ہے‘ جس کے پاس ’پشاور‘ کے سامنے اپنی کارکردگی رکھنے کی دوسری کوئی بھی صورت (کارکردگی) باقی نہیں رہی! یاد رہے کہ ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کی تعمیر پرلاگت کا کل تخمینہ ’49 ارب (49.346بلین) روپے‘ لگایا گیا ہے جس کے لئے 41 ارب (41.86بلین) روپے ’ایشیائی ترقیاتی بینک‘ سے پچیس سال کی آسان اقساط (سافٹ لون) کی صورت حاصل ہوں گے۔ صوبائی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ پشاور کا ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ منصوبہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے سستا ایسا منصوبہ ہوگا جس کا موازنہ اگر لاہور (صوبہ پنجاب کے درالحکومت) سے کیا جائے تو اسی نوعیت کے ترقیاتی منصوبے پر فی کلومیٹر لاگت ’82 فیصد‘ کم آئے گی! شفافیت شرط ہے۔ ترقی کے عمل سے متعلق ادارہ جاتی حکمت عملی ہو‘ سیاسی بیان بازی ہو یا پھر اعدادوشمار پر مبنی تفصیلات‘ ہر مرحلہ ’شکوک و شبہات‘ سے بالاتر ہونا چاہئے۔ پشاور کے لئے بس منصوبے پر کل لاگت کے تخمینے سے متعلق کئی قسم کے دعوے اور اعدادوشمار پر مبنی دستاویزات زیرگردش ہیں اور اگر صوبائی حکومت کی بجٹ دستاویز کو حتمی تسلیم کرتے ہوئے یقین کیا جائے تو رواں برس (دوہزار سترہ) میں اِس منصوبے پر کام کا آغاز ہو جانا چاہئے جس کی تکمیل کے لئے چھ سے آٹھ ماہ درکار ہوں گے یعنی ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ (کا پھل) ایک ایسے وقت میں (پک کر) تیار ہو جائے جب ’عام انتخابات‘ سر پر ہوں گے! اُمید کی جاسکتی ہے کہ دوہزار پندرہ سے منصوبے کی حکمت عملی (فزیبلٹی) تیار کرنے کے بعد رواں برس مرحلہ وار ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔ خیبرپختونخوا وفاق کے روئیوں پر نہیں بلکہ ووٹ (اپنی حمایت) کارکردگی کی بنیاد پر دے گا۔ تحریک انصاف تسلی بخش جواب دے کہ آئندہ عام انتخابات میں کیوں نہ ’نواز لیگ‘ یا اُن کے اتحادیوں کو ووٹ دیا جائے‘ جو کم سے کم خیبرپختونخوا اُور بالخصوص پشاور کے مسائل و مشکلات میں کمی کرنے کی ٰزیادہ بہتر پوزیشن میں ہوں گے!
’’اب نزع کا عالم ہے مجھ پر‘ تم اپنی محبت واپس لو۔۔۔
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں! (اُستاد قمر جلالوی)‘‘
No comments:
Post a Comment