Saturday, July 22, 2017

July 2017: TV Production at it's best? "Bohay Barian episode on Gul Bahar Colony analyzed!"

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بووے باریاں!
صوبائی دارالحکومت پشاور کا یوں تو ہر مسئلہ اَپنی شدت کے لحاظ سے بحرانی صورت اِختیار کر چکا ہے جن کا ’عملی حل‘ ممکن بنانے کے لئے شہری و دیہی علاقوں کا الگ الگ اکائیوں کے طور پر مطالعہ کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر فصیل شہر کے اَندرونی رہائشی و تجارتی علاقوں کے مسائل ’سرکلر روڈ‘ سے متصل علاقوں سے مختلف جبکہ ’سرکلر روڈ‘ کی پٹی سے متصل ’رنگ روڈ‘ کے پار تیزی سے پھیلتے ’نئے پشاور‘ کی ضروریات اُور منصوبہ بندی کے فقدان سے پیدا ہونے والی صورتحال دیگر زوائیوں سے غور و خوض کی متقاضی ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ ’پشاور شناسی‘ عام ہونی چاہئے لیکن ایک ایسے موقع پر جبکہ عام اِنتخابات قبل اَزوقت یا مقررہ مدت پر بھی ایک سال سے کم فاصلے پر ہیں‘ دیکھنا ہوگا کہ پشاور کے بارے میں فکروعمل کی دعوت دینے والے اور اِس تاریخی شہر کے حقوق کی یادآوری کے درپردہ کہیں سیاسی عوامل تو کارفرما نہیں؟ کہیں پھر سے ہاتھ نہ ہو جائے۔ 

پشاور‘ پشاور کی گردان کرنے والے عام انتخابات لوٹنے کے لئے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نسلی لسانی اور گروہی وابستگیوں جیسے ہتھیاروں سے شکار تو نہیں کر رہے؟کہیں ایک مرتبہ پھر ’پشاور کی تباہی‘ بربادی اُور مسائل کی جانب توجہ مرکوز کرکے ’سیاسی فائدہ‘ اُٹھانے کی کوشش (سازش) تو نہیں ہو رہی؟ 

اہل پشاور کی یاداشت اب اتنی بھی کمزور نہیں کہ اِنہیں پشاور بچاؤ تحریک‘ پشاور سنوارو تحریک اُور جاگ پشاور جاگ جیسے پُرکشش ناموں سے ’تین پرعزم کوششوں‘ کے نتائج‘ یاد نہ ہوں۔ اِن نام نہاد تحریکیوں سے مالی و سیاسی طور پر مستفید ہونے والے معروف کرداروں کا ماضی و حال بھی اہل پشاور کی نظروں کے سامنے ہوگا لیکن پھر بھی احتیاط شرط ہے!

پشاور سے سیٹلائٹ ٹیلی ویژن نشریات کرنے والے ایک ’نجی ٹیلی ویژن چینل‘ نے ہندکو زبان‘ کے پروگرام ’بووے باریاں‘ کے تحت ’گل بہار کالونی‘ کے مسائل اُجاگر کئے۔ 'بووے باریاں' کا اصطلاحی مفہوم گردوپیش یا حالات حاضرہ کیا جاسکتا ہے اور اس کا محاورۃ استعمال اہل پشاور میں عام ہے۔ معروف گلوکارہ حدیقہ کیانی کے ایک گانے نے اس خاص اصطلاحی لفظ کو عام کیا۔ اِس پروگرام کا دورانیہ 43 منٹ رہا‘ جس میں کل پانچ افراد کی ماہرانہ رائے کی بنیاد پر پروگرام کے اختتامی کلمات کا پہلا جملہ یہ تھا کہ ۔۔۔ ’’گل بہار مختلف فیزوں پر مشتمل ہے جس طرح حیات آباد ہے۔‘‘ یہاں انگریزی زبان کے لفظ ’فیز (phase)‘ کے استعمال سے یہ تاثر منتقل کرنے کی کوشش کی گئی کہ ’گل بہار میں آبادکاری مرحلہ وار انداز میں ہوئی۔‘ لیکن کیا گل بہار کو حیات آباد کا مماثل قرار دیا جاسکتا ہے؟ دوسرے جملے میں کہا گیا کہ ’’یونیورسٹی ٹاؤن میں حکومت نے کمرشل سرگرمیوں پر پابندی عائد کی ہے لیکن گل بہار میں ہر قسم کی کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں۔ شاید حکومت کو گل بہار‘ یونیورسٹی ٹاؤن یا حیات آباد کی طرح (اَہم) ٹاؤن نظر نہیں آتا یا (پھر) گل بہار کا کوئی والی وارث نہیں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ یونیورسٹی ٹاؤن میں کمرشل سرگرمیوں کا نوٹس لینا صوبائی حکومت کی کارکردگی نہیں بلکہ یہ عدالتی حکمنامے کے تحت ہوا اور باوجود عدالتی حکمنامے کے بھی یونیورسٹی ٹاؤن سے تاحال 100فیصد کمرشل سرگرمیاں ختم نہیں کی جاسکی ہیں! یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ پشاور کے قبرستان اور تجاوزات کے بارے عدالتی حکم تو موجود ہے لیکن برسرزمین حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ قبرستانوں کا رقبہ کم ہو رہا ہے۔ گل بہار کے ایک حصے پر بھی قبرستان ہوا کرتا تھا‘ جسے موضوع نہیں بنایا گیا کیوں؟ جہاں تک پشاور کے کسی ’والی وارث‘ کے ہونے یا نہ ہونے کا سوال ہے تو اِس کا جواب بھی مل سکتا تھا اگر ذرا سی محنت کی جاتی اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون‘ پی کے ٹو اُور ضلعی حکومت کے گل بہار سے منتخب ماضی و حال کے نمائندوں کے سامنے یہی سوال (بلیک اینڈ وائٹ میں) رکھا جاتا۔ 

کیا یہ عجب نہیں کہ 43 منٹ کے پروگرام میں صرف پانچ افراد کے 31 مرتبہ خیالات شامل کئے گئے جس میں ایک بھی عام رہائشی نہیں تھا۔ 

ٹیلی ویژن پروڈکشن کا Vox Pops نامی حصہ کسی موضوع پر عام آدمی (ہم عوام) کی تاثرات یکجا کرنے کے عمل کو کہا جاتا ہے اور اگر آئندہ ایسے کسی پروگرام میں تین سے پانچ منٹ کا ایک حصہ (segment) راہ چلتے‘ معمولات میں حصّہ لیتے افراد کا بھی رکھا جائے تو اِس سے جامعیت میں اضافہ ہوگا اور مقصدیت (اگر سیاست کے علاؤہ کچھ ہے) تو اُس کا حصول بھی عملاً ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ 

کیا گل بہار میں خاتون نہیں رہتیں اور اُنہیں مشکلات کا سامنا نہیں ہے یا نہیں رہا؟ 
کیونکہ ڈھائی ہزار منٹ سے زائد دورانیئے کے پروگرام میں خواتین کا ’نام و نشان‘ دکھائی نہیں دیا! 

تیسرے ’اختتامی جملے‘ سے بھی گل بہار کی بے بسی یہ کہتے ہوئے عیاں کی گئی کہ ۔۔۔ ’’جہاں ہر کسی کو سب کچھ کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے لیکن ’گل بہار ٹاون‘ آج حکمرانوں سے سوال کرتا ہے کہ کیا یہ ’ٹاؤن‘ حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ اِس ٹاؤن کو خراب کرنے والے کون ہیں؟‘‘ اِس سوال کا جواب صرف موجودہ صوبائی یا ضلعی حکومت ہی سے نہیں بلکہ اُن ماضی کے حکمرانوں سے بھی پوچھنا چاہئے جنہوں نے گل بہار (چھوٹا لاڑکانہ) سے کامیابی حاصل کی‘ اندرون و بیرون ملک اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا اُور چلتے بنے! جہاں گل بہار کی حدود ہی متعین نہیں اور اِس کے لئے پولیس اسٹیشن چوکیوں کی صورت بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ناکافی ہے وہاں منظم و غیرمنظم جرائم (سٹرئٹ کرائمز) کا ذکر بھی ضروری تھا۔ مسودہ نویس (اسکرپٹ رائٹر) کا آخری جملہ ’ڈوبتی ہوئی آواز‘ کے ساتھ زیادہ معنی خیز رہا کہ ’’آخر اِس ٹاؤن (گل بہار) کی بربادی کے (لئے) ذمہ داروں کا تعین کون کرے گا؟‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ جو کام دستاویزی پروگرام کے ذریعے باآسانی ممکن تھا‘ اُس کا تعین کرنے کی ذمہ داری بھی اُنہی کو سونپ دی گئی جو بہرحال متاثرین ہیں!
Television Pre Production: Stages hardly observe in LOW BUDGET transmission
ٹیلی ویژن کے لئے نشریاتی مواد ’صوتی اور بصری (آواز اُور فلم)‘ کا مجموعہ ہوتا ہے‘ جسے تین مراحل میں ترتیب دیا جاتا ہے۔ کسی پروگرام کے بنیادی تصور (Ideation)‘ بذریعہ فلم پیغام کی منتقلی کے لئے حقائق پر مبنی مؤثر تحریر (Writing)‘ اَلفاظ کے مطابق عکس بندی کے لئے منصوبہ بندی(Pre Visualization) اُور پروگرام کو مرتب کرنے (Production) کے مراحل اوّل‘ اُوسط و حتمی (پری پروکشن‘ پروڈکشن اُور پوسٹ پروڈکشن) کے ہر ایک مرحلے پر ’تحقیق (research)‘ کا عمل دخل ہوتا ہے۔

صحافت میں بالعموم اُور ٹیلی ویژن کی صحافت میں بالخصوص ’حقائق درست‘ رکھنے والے اِداروں کو سنجیدگی سے دیکھا‘ سنا اور اُن کے مؤقف سے مستقبل کی راہیں متعین کی جاتی ہیں۔ کوئی نہیں چاہے گا کہ مالی وسائل کا ضیاع بھی ہو اُور اِدارے کو ’خراب ساکھ‘ کی صورت اِس کی بھاری قیمت بھی اَدا کرنا پڑے۔ دانستہ فیصلہ نجی ٹیلی ویژن چینلوں کے فیصلہ سازوں اُور مالکان کو کرنا ہے کہ اُنہیں نادانستگی (لاعلمی اُور جہالت) سے خود کو الگ کرتے ہوئے مستعد‘ مستند اُور ’بااعتماد‘ مسند پر فائز ہونا چاہئے تاکہ نہ صرف پاکستان و علاقائی سطح پر بامقصد و پروقار صحافتی اَقدار (مثالوں) کا فروغ ہو بلکہ وہ ’پشاور‘ کے لئے بھی بالخصوص ’اَثاثہ‘ قرار پائیں۔
Clipping from Daily Aaj Editorial Page - July 22, 2017 - Saturday

No comments:

Post a Comment