ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
احتساب سے اِستحصال تک!
پہلی فرمائش یہ آئی ہے کہ ’پانامہ کیس‘ کے حوالے سے بھی لکھا جائے جبکہ ہر کوئی لکھ رہا ہے تو اُن دیگر موضوعات کا احاطہ کون کرے گا‘ جس سے عوام کی اکثریت نمٹ رہی ہے؟ آخر جلدی کس بات کی ہے اور عدالت کا فیصلہ آنے تک انتظار کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ آخر حوصلے کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا جا رہا جبکہ ’تفتیش جاری ہے‘ اور بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سست روی ہی سے سہی لیکن معاملات تفتیشی عمل سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ آف پاکستان) نے ابھی تک ایسا کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جس کی رو سے ’پانامہ کیس‘ میں نامزد ملزمان میں سے کسی کو مجرم قرار دیا جائے۔ اب تک پیش کی جانے والی دستاویزات میں ثبوت تلاش کرنے والوں کے ہاتھ شاید بھوت ہی آئے کیونکہ مشکوک ذرائع آمدنی سے متعلق بظاہر سیدھے سادے مقدمے کی تہہ سے تین نسلوں کے کرتوت ہاتھ آ گئے ہیں۔ اِس صورتحال میں اخلاقی و سیاسی بنیادوں پر تو وزیراعظم کو اب تک مستعفی ہو جانا چاہئے تھا لیکن آئینی طور پر وہ اُس وقت تک وزیراعظم رہ سکتے ہیں جب تک اُن پرکوئی الزام ثابت نہیں ہو جاتا اور عدالت اُنہیں نااہل قرار نہیں دے دیتی۔
پانامہ کیس کے صرف آئینی ہی نہیں بلکہ کئی دیگر پہلو بھی ہیں‘ جس پر اظہار خیال کرنے والے ماہرین کے لئے بالخصوص یہ امر باعث حیرت ہے کہ پانامہ کیس پر جاری سماعت میں ’بار ایسوسی ایشنز‘ کا کردار کیا ہے‘ جو ماضی میں ضیاء الحق کے خلاف متحدہ سیاسی و آئینی جدوجہد میں فعال کردار ادا کرتی رہیں ہیں۔ آج اگر سیاست دان تقسیم ہیں تو یہ تقسیم دیگر اداروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ اصولاً وکلاء کی نمائندہ تنظیمیں ’بارکونسلز‘ کو زیادہ فعال اور واضح کردار ادا کرنا چاہئے تھا کیونکہ توقعات صرف سپرئم کورٹ ہی سے نہیں بلکہ انصاف کے لئے نظریں ’وکلاء ‘ پر بھی جمی ہیں اور جب پانامہ کیس کے باب میں تاریخ لکھی جائے گی تو کیا وکلاء پسند کریں گے کہ اُن کا نام ایک ایسے فریق کے طور پر لکھا جائے جنہوں نے ’پاکستان اور آئین سے وفاداری‘ کے برمحل مظاہرہ میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لی اور ایک ایسے معاملے سے ’غیرجانبدار‘ رہے جس میں اُن کی جانبداری و معاونت کی ’عدالت عظمیٰ‘ کو ضرورت تھی! تاریخ انہیں بھی ’’مجرم‘‘ ہی لکھے گی جو پاکستان میں مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے خلاف اور شفاف طرزحکمرانی کے قیام کے حوالے سے واضح مؤقف نہیں رکھتے!
دوسری فرمائش تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی سے متعلق ہے جس پر سوال یوں اُٹھائے جاتے ہیں جیسے قیام پاکستان سے لیکر آج تک صرف اِسی ایک جماعت کی بلاشرکت غیرے حکومت چلی آ رہی ہو اُور طرزحکمرانی سے لیکر عوام کے حقوق کی ادائیگی تک ہر چھوٹی بڑی خرابی حتیٰ کہ معاشرتی بُرائیوں کے لئے بھی ذمہ دار صرف اُور صرف تحریک انصاف ہی ہے۔ زمینی حقائق کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ روائتی سیاسی جماعتوں کے مقابلے مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات خیبرپختونخوا کی اکثریت نے ’تحریک انصاف‘ کو ووٹ دیا لیکن اِس ’نادر موقع (صوبائی حکومت ملنے)‘ سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا اور آج کوئی ایک بھی ایسا شعبہ نہیں جس کا موازنہ کرتے ہوئے ’سوفیصد تبدیلی (اصلاح)‘ کا دعویٰ کیا جاسکے۔ تبدیلی کے چہرے سے نقاب اُلٹنے والوں کی صرف اُمیدیں اور توقعات ہی کا خون نہیں ہوا‘ بلکہ بہت سے دل بھی ٹوٹ گئے ہیں! اُور یہی وجہ ہے کہ حالات کا شکوہ کرتے ہوئے لہجوں میں تلخی در آئی ہے!بیس جولائی کی صبح طویل دورانیئے کی فون کال کا لب لباب (مدعا) یہ تھا کہ ’’خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پبلک ٹرانسپورٹ سے لیکر دودھ‘ دہی‘ مصالحہ جات اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیائے خوردونوش میں کھلم کھلا ملاوٹ پائی جاتی ہے تو حکومت نام کی شے کا وجود کہاں ہے؟ صارفین کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے اور اگر اِس فرض کی ادائیگی عملاً ممکن نہیں ہو سکی ہے تو اِس کے لئے قصوروار کون ہے؟‘‘ صحت علاج معالجے کی سہولیات اور درس وتدریس پر نجی اداروں کی اجارہ داری کے حوالے سے بھی بطور ضمنی موضوع بحث کی جا سکتی ہے لیکن بنیادی سوال یہی رہے گا کہ ’’صارفین کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے میں صوبائی حکومت عملاً کیوں ناکام ثابت ہوئی؟‘‘
گردوپیش پر نگاہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوانین اور قواعد کا خوف باقی نہیں رہا۔ اشیائے خوردونوش کے غیرمعیاری ہونے کی بڑی وجہ اجناس میں ملاوٹ ہے جبکہ حرام و ممنوع جانوروں کے گوشت و دیگر اشیاء کے استعمال کے بارے کسی حد تک جاننے یا معلومات ہونے کے باوجود بھی اگر عوام اپنے کھانے پینے اور رہن سہن کی عادات تبدیل نہیں کرتیں تو قصوروار صرف حکومت نہیں۔ پشاور میں ایسے ملکی و غیرملکی کھانے پینے کی اشیاء کے مراکز ہیں‘ جہاں صرف ذائقہ فروخت ہوتا ہے۔ ہفتہ وار تعطیل کے روز بھی گوشت کا ناغہ نہ کرنے والے مراکز بھی معلوم بھی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گرمی کی شدید لہر‘ مون سون کا موسم جبکہ ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ ہوتا ہے اور بجلی کی طویل و غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ بھی ایک معمول ہے جس کی وجہ سے گوشت قیمہ یا دیگر اشیاء ڈیپ فریزرز میں اِس طرح ذخیرہ رکھنا ممکن نہیں ہوتا کہ اُن کا معیار خراب نہ ہو لیکن اِس کے باوجود ظاہری نمود و نمائش پر مبنی طرزعمل اختیار کیا جاتا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کے لئے بازار جایا جاتا تھا اب یہ کام ’آن لائن‘ یا ٹیلی فون پر آرڈر کیا جاتا ہے اور ہزاروں روپے مالیت کا کھانا گھنٹوں نہیں بلکہ منٹوں میں بناء کسی اضافی قیمت اگر گھر کے دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے تو سہولت اور ذائقے کے علاؤہ کوئی دوسری ترجیح نہیں ہو سکتی۔ والدین کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو جس ثقافت اور طرززندگی سے روشناس کروا رہے ہیں‘ وہ کتنا صحت مند اور محفوظ ہے!
صارفین کے حقوق کا تحفظ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومت اِس کی سرپرستی نہ کرے اور اگر سیاسی فیصلہ ساز ’صارفین کے اتحاد و اتفاق‘ کے لئے وسائل اور کوششوں کو مربوط کریں تو کوئی وجہ نہیں اِسی ’شعور و بیداری‘ سے عام انتخابات میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔
No comments:
Post a Comment