Thursday, July 20, 2017

July 2017: The homework about Education System!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبۂ تعلیم: ہوم ورک!
پاکستان کے سیاسی‘ مالی اُور اِنتظامی مستقبل محفوظ بنانے کے لئے ’تحریک انصاف‘ کی آئینی و قانونی محاذوں پر جاری جدوجہد (پانامہ کیس کی پیروی) اہمیت اور مقصدیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اپنے حصے کی ذمہ داریاں اَدا کرنے میں تحریک کس قدر کامیاب (سرخرو) ہوئی ہے‘ اِس بات کا فیصلہ خیبرپختونخوا کے 27 ہزار 261 سرکاری فعال سکولوں میں درس و تدریس اور بنیادی سہولیات کے معیارکو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے‘ جہاں زیرتعلیم طلباء و طالبات کی اکثریت صرف عام آدمی (ہم عوام) پر مشتمل ہے۔ رواں ہفتے محکمۂ تعلیم سے متعلق اعدادوشمار پر مبنی ’سالانہ رپورٹ 2015-16ء‘ مرتب کی گئی‘ جسے باضابطہ جاری کرنے کی بجائے ماضی کی رپورٹوں کی طرح ’سرکاری دستاویزات‘ کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور ایسا کرنے کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے کیونکہ رپورٹ میں سب اچھا کی گردان کے باوجود بھی کئی ایسے شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے‘ جن میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ مقام حیرت ہے کہ خیبرپختونخوا میں گیارہ فیصد (قریب تین ہزار) ایسے غیرفعال سرکاری سکول ہیں‘ جن کی چاردیواریاں نہیں اور اس سے بھی تعجب خیز بات یہ ہے کہ چاردیواریوں سے محروم سرکاری سکولوں کی اکثریت اُنہی علاقوں میں ہے جہاں امن و امان کی صورتحال مثالی نہیں! چونکہ سرکاری سکولوں کی ایک تعداد ایسی ہے کہ جہاں حفاظت کا خاطرخواہ انتظام نہیں اِس لئے حکومت تسلیم کرتی ہے کہ ۔۔۔ دیگر وجوہات سمیت سیکورٹی خدشات کے باعث تین ہزار سکول فعال نہیں ہیں۔ تصور کیجئے کہ ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات صرف اِس لئے سکول نہیں جا سکتے کیونکہ اُن کے بارے میں سوچنے اور فیصلہ کرنے والوں نے باقاعدگی سے تنخواہیں اور مراعات تو وصول کی ہیں لیکن اپنے حصے کی ذمہ داریاں اَدا نہیں کیں! خودمختار نگران اِدارے (انٹیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ) کی مذکورہ رپورٹ میں مذکور اعدادوشمار سے صوبائی سرکاری سکولوں کی جو تصویر ذہن میں اُبھرتی ہے‘ وہ کسی بھی سیاسی حکومت بالخصوص انقلابی و جنوبی سیاسی دھڑے کے لئے نیک نامی کا سبب نہیں اور اُمید ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت (بنی گالہ) پہلی فرصت سے پہلے ماضی کے برعکس اِس رپورٹ کا ’سخت نوٹس‘ لے گی کیونکہ خیبرپختونخوا حکومت آئینی مدت کے آخری سال میں داخل ہو چکی ہے اور یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی ہے کہ یہ آخری سال عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت ’پانامہ کیس‘ کی وجہ سے مکمل ہو پائے گا!

خیبرپختونخوا کے سرکاری سکولوں کے بارے میں اعدادوشمار ماہ جون (دوہزارسترہ) کے دوران اکٹھا کئے گئے جن سے معلوم ہوا کہ صوبے کے دورافتادہ اور پسماندہ ترین ضلع ’تورغر (کالا ڈھاکہ)‘ میں سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے یعنی ’تورغر‘ میں پینسٹھ فیصد سرکاری سکولوں کی چاردیواریاں نہیں! اِسی طرح ضلع کوہستان میں ساٹھ فیصد‘ شانگلہ میں چوبیس فیصد‘ بٹ گرام میں اُنیس فیصد‘ مانسہرہ میں پندرہ فیصد‘ چترال وایبٹ آباد میں چودہ فیصد سرکاری تعلیمی ادارے ’چاردیواری سے محروم‘ ہیں۔ بھلا چند کمروں پر مشتمل کسی ایسی عمارت کو ’’سکول‘‘ کا نام (درجہ) ہی کیسے دیا گیا جس کی نہ تو چاردیواری تھی اور نہ ہی وہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی عملاً ممکن بنائی گئی! افتتاحی تختیاں لگانے والوں کی شرمناک کارکردگی کی تشہیر ہونی چاہئے اُور انہیں اِس کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے سے نااہل قرار دینا چاہئے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ’’محکمۂ تعلیم‘‘ ملازمتیں فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ملازمتی مواقع فراہم کر رکھے ہیں اور صوبائی وزیر و مشیر اور معاونین سے لیکر نگرانوں اور سکولوں کے عملے تک ہر ایک کردار اپنے اپنے حصے کی تنخواہ اور مراعات حاصل کر رہا ہے! رہی بات تعلیم اور معیار تعلیم کی تو فرد جرم کسی پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ سیاسی حکمران معصوم‘ فیصلہ ساز معصوم‘ اساتذہ اور معاون عملہ معصوم اور اگر کوئی ’’قصوروار‘‘ ہے تو عام آدمی (ہم عوام) جن کے پاس بچوں کو معیاری تعلیم اور ایک ایسے نظم وضبط سے روشناس تربیت دلوانے کے لئے ماسوائے نجی اداروں سے رجوع کرنے کوئی صورت باقی نہیں رہی! اگر خدائی قانون یہ نہیں کہ غریب ہمیشہ غریب رہے تو امیر کے ہمیشہ امیر رہنے اور سیاست کرنے والوں کا وابستگیاں تبدیل کر کے حکمرانی کرنے کا بھی کوئی جواز اور منطق نہیں رہتی۔

خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد طلوع ہوا‘ جس سے قبل محکمۂ تعلیم کے لئے ’سالانہ 61 ارب روپے‘ مختص کئے جاتے تھے۔ موجودہ صوبائی حکومت نے سالانہ ترقیاتی حکمت عملی (صوبائی بجٹ) میں تعلیم کو ترجیح قرار دیتے ہوئے 61 ارب کے مقابلے سالانہ 138 ارب روپے مختص کرنے کے علاؤہ ’ہنگامی حالت (ایمرجنسی)‘ کا نفاذ کیا کیونکہ بناء تعلیمی ترجیح جمہوریت کی جڑیں مضبوط گہری اور اِس کا حاصل (ثمرات میٹھے) خاطرخواہ نہیں ہوسکتے! صوبائی وزیرتعلیم سے بات کی جائے تو وہ بھی منطقی لگتے ہیں کہ ’’تحریک انصاف کی حکومت میں صوبائی سطح پر تعلیمی اداروں کی جس قدر ضروریات پوری کی گئیں اِس کی ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ عاطف خان مطمئن ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔ اپنے فیس بک پیج پر صوبائی وزیر کا بیان مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہا ہے کہ ’’موجودہ حکومت نے پانچ ہزار سرکاری سکولوں میں بیت الخلاء اور چودہ ہزار سرکاری سکولوں میں چاردیواریاں تعمیر کروائیں!‘‘ عاطف خان نے گنوا دیا کہ صوبائی حکومت نے چودہ لاکھ کرسیاں فراہم کی ہیں جبکہ پانچ ہزار سکولوں میں ہم نصابی سرگرمیوں کے آغاز کا سہرا بھی وہ اپنے سر باندھتے ہیں! صوبائی محکمۂ خزانہ (فنانس ڈیپارٹمنٹ) کی ویب سائٹس پر موجود اعدادوشمار پر نظر کی جائے تو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے گذشتہ چار سال کے دوران سرکاری سکولوں میں سہولیات کی فراہمی پر مجموعی طور سے ’’121 ارب روپے‘‘ خرچ کئے ہیں اور یہ عمل جاری ہے کیونکہ سہولیات کی کمی اِس قدر بڑے پیمانے پر تھی کہ باوجود ایک سو اکیس ارب روپے جیسی خطیر رقم خرچ کرنے کے بھی‘ سرکاری تعلیمی ادارے اپنے قیام جیسی بنیادی سطح سے ایک درجہ بلند نہیں ہوئے۔

سرکاری سرپرستی میں ’’خیبرپختونخوا کا تعلیمی منظر اُور پس منظر‘‘ کسی بھی لحاظ (زاویئے) سے اِطمینان بخش نہیں۔ مالی وسائل میں ’تاریخی اضافہ‘ کرنے کے باوجود بھی اگر بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ہی ممکن نہیں ہوسکی تو آئندہ کسی سیاسی حکومت سے اِس بات کی توقع نہیں کی جاسکے گی کہ وہ باقی ماندہ کام مکمل کرے گی۔ ابھی تو خیبرپختونخوا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے نئے سکولوں کے قیام کی ضرورت کا ادراک اور تعداد پورا ہونا باقی ہے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ اُنہیں اِضافی محنت (ہوم ورک) کرنا ہوگا کیونکہ سرکاری تعلیمی اِداروں کا وجود اور موجودہ حکومتی کوششیں نتیجہ خیز‘ مبنی برانصاف (کافی) ثابت نہیں ہو رہیں!

No comments:

Post a Comment