Wednesday, July 19, 2017

July 2017: Peace & Stability - Pakistan & the Central Asia


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
عالمی کانفرنس: سنٹرل اِیشیاء اُور پاکستان!
’ایریا سٹڈی سنٹر برائے سنٹرل ایشیاء‘ (یونیورسٹی آف پشاور) کے زیراہتمام ’اٹھارہ سے بیس جولائی‘ باڑہ گلی کیمپس میں ’’عالمی کانفرنس‘‘ جاری ہے‘ جس میں روس‘ چین‘ اُزبکستان‘ تاجکستان‘ ترکمنستان‘ قازقستان‘ افغانستان‘ گرغستان اُور یورپی ممالک سمیت پاکستان کی مختلف جامعات سے ایسے مندوبین شریک ہیں‘ جو اِس خطے میں امن کی صورتحال‘ سیاست و اقتصادیات جیسے مربوط موضوعات کے تاریخی پس منظر اور حالات حاضرہ کی روشنی میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت و قابلیت رکھتے ہیں۔ اِس سال ’تین روزہ عالمی کانفرنس‘‘ کا موضوع ’’ٹائم اسپیس کانفلٹ ڈس اِنٹگریشن اِن سنٹرل ایشیاء (Time Space Conflict [Dis] integration in Central Asia )‘‘ رکھا گیا ہے جس کے تحت کل چھ نشستیں میں سنٹرل ایشیاء سے متعلق عالمی طاقتوں کا کردار‘ سنٹرل ایشیاء میں علاقائی قوتوں کے مفادات‘ سنٹرل ایشیاء میں دہشت گردی و انتہاء پسندی کے اثرات‘ خطے میں امن اور معاشی تعاون جبکہ آخری سیشن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ اور اِس کے سنٹرل ایشیاء پر اثرات جیسے موضوعات کا احاطہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کو مرکز سمجھتے ہوئے ’وسط ایشیائی ریاستوں بشمول روس‘ افغانستان اور چین کے حوالے سے جاننے کا یہ موقع اِس لئے بھی نادر ہے کہ اِس میں ماہرین سے براہ راست سوال و جواب کے ذریعے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے وہ خدوخال وضع اور سمجھے جا سکتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے مؤقف کو عالمی سفارتی سطح پر زیادہ اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔سپرئم کورٹ آف پاکستان میں جاری ’پانامہ کیس‘ کی سماعت کے سبب ذرائع ابلاغ کی توجہ اِس عالمی کانفرنس کی جانب مبذول نہیں اور اگر یہ سماعت نہ بھی ہوتی تو بھی ایسے علمی ادبی اور تحقیقی خارجہ و داخلہ موضوعاتی نشستوں کے حوالے نجی و سرکاری میڈیا زیادہ فوکس نہیں ہوتا۔ قوم کو صبح دوپہر شام چند گھرانوں کے گرد گھومتی ’سیاست سیاست اُور صرف سیاست‘ کھلائی اور پلائی جاتی ہے تاکہ بے یقینی کے مرض سے افاقہ ہو! لیکن جہاں ’مرض کی تشخیص‘ ہی غلط ہو وہاں نیم حکیموں کی طرف سے تجویز کردہ علاج کیسے درست (شفایابی کا باعث) ہو سکتا ہے!؟ ’’مریض عشق پر رحمت خدا کی۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی (محمود رام پوری عشرتی)۔‘‘

سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلندی پر یونیورسٹی آف پشاور کا ’کیمپس نمبر ٹو‘ باڑہ گلی سرسبزوشاداب ٹیلوں‘ چوٹیوں اور وادی پر مبنی قریب ساٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے ٹھنڈے موسم میں قدرت کو قریب سے مشاہدہ و مطالعہ اپنی جگہ حاصل سفر رہتا ہے۔ 1965ء سے باڑہ گلی کے مقام کو یونیورسٹی آف پشاور کے کیمپس کا درجہ حاصل ہے اور یہاں ہرسال مئی سے ستمبر تک ملکی و عالمی موضوعات پر کانفرنسوں اور تربیتی نشستوں کا انعقاد معمول کے طور پر ہوتا ہے۔ اگرچہ یونیورسٹی آف پشاور کے طلباء و طالبات کو نہایت ہی کم تعداد میں ’باڑہ گلی کیمپس‘ سے استفادہ کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہاں کی قیام گاہیں یونیورسٹی کے انتظامی عہدوں پر فائز مراعات یافتہ طبقاتہی کے لئے مخصوص رہتی ہیں لیکن پھر بھی یہاں چھوٹے پیمانے پر ہم نصابی سرگرمیوں کے لئے طلباء و طالبات کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ اگر ’باڑہ گلی کیمپس‘ میں جدید طرز تعمیرات کی بجائیماحول دوست طریقوں سے رہائشی سہولیات میں اضافہ کیا جائے تو جامعہ پشاور کی تمام فیکلٹیز گرمیوں کی تعطیلات میں یہاں سما سکتی ہیں اور یوں تین ماہ درسی و تدریسی عمل میں آنے والا تعطل ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔ ’ایریا سٹڈی سنٹر برائے سنٹرل ایشیاء‘ کی جانب سے ’عالمی کانفرنس‘ کے شرکاء اور غیرملکی مندوبین بھی ’باڑہ گلی کیمپس‘ کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور جب اردگرد کا ماحول خوشگوار ہو تو سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی قوتیں اور بھی بڑھ جاتی ہیں‘ یہی وجہ رہی کہ عالمی کانفرنس کے مقررین اور شرکاء کی دلچسپی کی سطح عروج پر دیکھی گئی۔ کانفرنس کے میزبان ڈائریکٹر ایریا سٹڈی سنٹر‘ پروفیسر ڈاکٹر سرفراز خان سب سے زیادہ مسرور دکھائی دیئے جنہوں نے کئی ماہ پر محیط خط و کتابت کے بعد اِس کانفرنس کے عملی انعقاد کو ممکن بنایا۔ 

تعارفی کلمات میں انہوں نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے اِسے ایک مربوط کوشش قرار دیا ’’جس کے ذریعے خطے میں آنے والی سیاسی و معاشی تبدیلیوں اور اُن کے پاکستان پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرات پر غور کرنے کی سبیل فراہم کی گئی تاکہ قیام امن‘ معاشی ترقی اور استحکام کی کوششوں کے بارے میں فیصلہ سازوں اور جمہوری اداروں کی رہنمائی کی جاسکے۔‘‘ درحقیقت خارجہ اور معاشی پالیسیاں مرتب کرنے میں جامعات کا کلیدی کردار ہے اور اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو وہاں ’ایریا سٹڈی سنٹر برائے سنٹرل ایشیاء‘ جیسے ’تھنک ٹینک (سوچ بچار کرنے والے) ادارے (حلقے)‘ زیادہ فعال اور ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے ہیں جہاں مسائل کا حل جامعات‘ سیاسی لیڈرشپ اور عوام کے منتخب نمائندے آپس میں تبادلہ خیال کے نتیجے میں وضع کرتے ہیں۔ 

’ایریا سٹڈی سنٹر برائے سنٹرل ایشیاء‘ مبارک باد کی مستحق ہے کہ اِس روایت کو انہوں نے پاکستان میں بھی اگر فروغ نہیں دیا تو کم سے کم متعارف ضرور کروادیا ہے۔کون نہیں جانتا کہ حالیہ چند برس کے دوران امن وامان کی صورتحال میں غیرمعمولی بہتری آئی ہے اور ایسی عالمی کانفرنسوں کا انعقاد مزید اداروں کو بھی باقاعدگی سے کرنا چاہئے تاکہ نہ صرف پاکستان کو درپیش مسائل و مشکلات کا حل تلاش کیا جا سکے بلکہ اُن علوم و معلومات کا تبادلہ بھی ہو جس سے پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک اور خطے کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ‘ ایبٹ آباد) ڈاکٹر اَظہر محمد اظہر خان جدون نے ’’سنٹرل ایشیاء میں علاقائی قوتوں کے مفادات‘‘ کے حوالے سے عالمی کانفرنس کے ’تیسرے سیشن‘ کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’خطے کی سیاست قدرتی وسائل کے گرد گھوم رہی ہے۔ پاکستان میں توانائی بحران ہے جس سے نمٹنے کے لئے خطے کے ممالک میں تیل و گیس کے اور توانائی کے پیداواری وسائل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اس سلسلے میں ترکمنستان پاکستان بھارت (تاپی) پائپ لائن منصوبہ کلیدی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جسے ’سی پیک‘ کی طرح اہمیت دینی چاہئے اور اِس کے ذریعے نہ صرف خطے میں قیام امن اور ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ پاکستان کا معاشی و اقتصادی استحکام بھی توانائی کے بحران سے نمٹنے میں ہے۔‘‘ انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو حقیقت پسندی پر مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا ’’پاکستان کی عالمی تنہائی ختم کرنے کے لئے خطے کے ممالک سے بہتر تعلقات اشد ضروری ہیں اور کوئی ملک بناء وزیرخارجہ کس طرح عالمی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے۔‘‘کانفرنس میں کل اٹھارہ تحقیقی مقالے پیش کئے گئے اور سات عوامی منتخب نمائندوں کے علاؤہ ممتاز محققین نے مختلف نشستوں کی صدارت کے دوران پاکستان کو درپیش چیلنجز جیسے کثیرالجہتی موضوعات کو بیان کیاجسے کتابیشکل میں مرتب کرکے اِس رپورٹ کا تبادلہ حکومت اور علمی حلقوں کے ساتھ کیا جائے گا۔ 

یاد رہے کہ ’ایریا سٹڈی سنٹر‘ (یونیورسٹی آف پشاور) وفاقی حکومت کا ’تھنک ٹینک ادارہ‘ ہے جو 1976ء کے ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا اُور اِس کا بنیادی کام سنٹرل ایشیائی ممالک‘ چین اُور روس پر تحقیق کرنا ہے۔ ’ایریا سٹڈی سنٹر‘ سے اب تک 117 سکالرز فارغ التحصیل ہوئے‘ جنہوں نے ’ایم فل‘ یا ’پی ایچ ڈیز‘ کی اسناد حاصل کر رکھی ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment