ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مطالعۂ پاکستان: اَچھائیوں کا شمار!
برق رفتار ’اِنفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کی برکات سے عملاً ممکن ہوا ہے کہ مختلف ممالک کے لوگ اپنے دفاتر یا قیام گاہوں کے پرسکون اُور آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر ’بحث و مباحثے‘ کی اُن محفلوں (سیمینارز) میں ’اِظہار خیال‘ کریں یا کسی شعبے کے ماہرین کی رائے سے علم حاصل کریں۔ اِس طرح کی نشست کو ’ویبنار (Webinar)‘ کہا جاتا ہے۔
ماضی میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات یا مختلف شعبوں کے ماہرین کو ایسے عالمی مباحثوں میں مدعو نہیں کیا جاتا تھا‘ جس کی کئی وجوہات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ پاکستان کے ’سبز پاسپورٹ‘ کی عزت نہیں رہی! تاہم ’ویبنار‘ کے ذریعے اِمکانات کے نئے جہان پیدا ہوئے ہیں‘ جس کی بدولت علم و فن سے شغف رکھنے والے اپنے ذوق و شوق کی تسکین کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں منعقدہ ’عالمی ویبنار‘کے شرکاء کو اِس بات پر اظہار خیال کرنے کی دعوت دی گئی کہ ۔۔۔ ’’اُن کا ملک کسی دوسرے ملک سے کیا کچھ سیکھ سکتا ہے؟‘‘ اِس نشست میں بالخصوص ہمسایہ ممالک کے رہنے والوں کو اپنے گردوپیش کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہوئے فیصلہ سازوں کے لئے ترجیحات کا تعین کرنا تھا۔
پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے کئی شریک مقررین بھی ’ویبنار‘ کا حصہ تھے جن میں ایک نے بناء تمہید کہا کہ ’’بھارت پاکستان سے کم سے کم 10 شعبوں میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔‘‘ یہ ایک دلچسپ جملہ تھا‘ جسے پاکستان سے تعلق رکھنے والے شرکاء کے کان کھڑے ہوگئے اور اُنہوں نے یقیناًاپنی اپنی کرسیوں کی پشت سیدھی کر لی ہوگی۔ بھارتی شریک کی جانب سے فہرست پیش کرنے کا عمل شروع ہوا تو ہر نکتہ اپنی جگہ اہم تھا اور پاکستانیوں کے لئے بالخصوص ’دعوت فکر‘ تھی کیونکہ اِس حوالے سے شاید ہی کبھی کسی نے ’’معاشرتی اچھائیوں‘‘ کے بارے میں یوں سوچا ہو۔ عمومی تاثر تو بس یہی ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسا قابل ذکر رونما نہیں ہو رہا‘ جس سے دنیا میں سرفخر سے بلند ہوسکے۔
ہم پاکستانیوں کو ’پانامہ لیکس‘ سے زیرسماعت ’پانامہ کیس‘ تک پھیلی حکمراں خاندان کے مشکوک ذرائع آمدنی‘ سیاسی انتشار اور توانائی بحران‘ اقتصادی محاذ پر خسارے جیسی صورتحال کے سبب ظہورپذیر وحشت سے ہر منظر ہی اُلٹا نظر آ رہا ہے اور یہی وجہ تھی کہ بحث و مباحثے کے شرکاء نے ایک بھارتی کے اِس بیان کو ’طنز‘ سمجھا کہ یوں تو بھارت کی سیاسی قیادت پاکستان سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے تاہم دس ایسے شعبے ہیں‘ جنہیں ترجیح قرار دیا جا سکتا ہے۔
1: پاکستان میں اقلیتوں کو بھارت کے مقابلے زیادہ مذہبی آزادی حاصل ہے۔
2: قابلیت کے لحاظ سے پاکستان کے نوجوانوں کا شمار دنیا کے چوتھے ذہین ترین افراد میں ہوتا ہے۔
3: پاکستان میں شرح خواندگی غیرمعمولی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور اگر صرف گذشتہ پانچ سال ہی کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں شرح خواندگی 250 فیصد بڑھی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خواندگی بڑھانے کے لئے اپنے اپنے مالی وسائل کا زیادہ بڑا حصہ مختص کرتی ہیں۔
4: پاکستان کے قومی ترانے کی دھن نہ صرف موسیقیت کے لحاظ سے بلکہ مطالب کی وجہ سے بھی عالمی سطح پر مؤثر اور پُرتاثیر سمجھی جاتی ہے۔
5: پاکستان میں موسیقی کی صنعت بالخصوص ’صوفی موسیقی‘ تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور پاکستانی صوفی موسیقی عالمی منڈی میں تیزی سے اپنی جگہ (منفرد شناخت) بنا رہا ہے۔ امریکہ کی ہالی ووڈ سمیت کئی یورپی ممالک کی فلم ساز صنعتیں پاکستانی موسیقاروں کی خدمات حاصل کر رہی ہیں اور اگرچہ بھارت میں موسیقی مذہبی عقائد کا حصہ ہے لیکن پاکستان نے غیرسرکاری طور پر ’صوفی موسیقی‘ کی سرپرستی کرکے بھارت کے فنکاروں‘ گلوکاروں اُور موسیقاروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب موسیقی کی عالمی منڈی پر پاکستان راج کرے گا۔
6: پاکستان میں نجی اور سرکاری ٹیلی ویژن کی پروڈکشن کوالٹی (پروگراموں کا تکنیکی معیار) بھارت سے بہت بلند ہے۔ بھارت نے اپنی تمام توجہ فلمی جبکہ پاکستان نے ٹیلی ویژن کی صنعت پر دی ہے چونکہ فلم بنانا ایک طویل اور کھٹن مرحلہ ہے جبکہ ٹیلی ویژن قریب ہر گھر کا حصہ اور فوری تاثیر رکھتا ہے اِس لئے پاکستانی ڈرامے تیزی سے مقبول بھی ہو رہے ہیں اور وہ پاکستان کی ثقافت و سماجی کی مارکیٹنگ بھی کر رہے ہیں‘ جن کا مقابلہ یا موازنہ بھارت کی فلموں سے کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ’ٹیلی ویژن پروڈکشن‘ کے لحاظ سے پاکستان کی کارکردگی بہتر ہے۔ اِس سلسلے میں بالخصوص مارننگ شوز کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے اپنی ایک الگ مارکیٹ بنائی ہے اور ایک ایسا وقت جو کہ زیادہ مفید (پرائم) نہیں سمجھا جاتا لیکن بہتر ٹیلی ویژن پروڈکشن کی وجہ سے پاکستانی چینلز چھائے دکھائی دیتے ہیں۔
7: پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا ایسا جنگل ہے جو قدرتی نہیں اور اِسے اُگایا گیا ہے۔ بھارت میں آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں تعداد میں زیادہ ہوں گی لیکن ماحول دوستی کا عنصر غالب نہیں۔ لاہور کے جنوب مغرب میں قریب 80 کلومیٹرز کے فاصلے پر ’’چھانگا مانگا‘‘ نامی جنگل اپنی مثال آپ ہے جس کا رقبہ 12ہزار ایکڑز پر مشتمل ہے اگرچہ یہ جنگل 1866ء میں لگایا گیا لیکن قیام پاکستان کے بعد اِسے مزید ترقی دی گئی اور قریب 50.27 کلومیٹرز پر پھیلے اِس جنگل کا ایک حصہ 40ایکڑز پر پھیلا ’وائلڈ لائف (جنگلی حیات کا) پارک‘ بھی ہے جبکہ ’’چھانگا مانگا‘‘ میں کئی نایاب درختوں کی اقسام بھی پائی جاتی ہیں۔
8: دنیا کا سب سے کم عمر جج (judge) کا تعلق پاکستان سے ہے۔ کسی معاشرے میں اگر انصاف کی فراہمی کا نظام فعال ہوتا ہے تو اُس کی خوبیاں شمار کرنا ممکن نہیں رہتا۔ محمد الیاس خان نامی شخص نے جولائی 1952ء میں بیس سال نو ماہ کی عمر میں ’جج‘ بننے کے لئے مقابلے کا امتحان پاس کیا تھا جو بعدازاں لاہور میں سول جج تعینات رہے۔ قیام پاکستان سے عدالتی نظام بہتری کی جانب گامزن ہے جس کے اگرچہ کئی فیصلے انتہائی متنازعہ ہیں لیکن عدلیہ کو توانا بنانے کے لئے ملک میں جاری بحث اور حمایت کسی بھی صورت معمولی نہیں جس سے عدلیہ کے وقار اُور فعالیت میں اضافہ اور جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔
9: پاکستان میں دنیا کی سب سے بڑا ہنگامی صورتحال میں طبی امداد پہنچانے کے لئے ’ایمبولینس نیٹ ورک‘ موجود ہے جو حکومت کے خرچ سے نہیں بلکہ عوام کی مدد سے چلتا ہے۔ کسی ملک و معاشرے کی بہتری کے لئے دی جانے والی اِس قدر بڑے پیمانے پر مالی امداد اپنی مثال آپ ہے۔ سرطان جیسے موذی مرض کا مفت علاج پوری دنیا میں کہیں ممکن نہیں اور اگر پاکستان کے صرف مخیر حضرات ہی نہیں بلکہ غریب و متوسط طبقات بھی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ جذبہ چاہے جس وجہ سے بھی ہے لیکن اِس کے ثمرات اپنی جگہ اہم ہیں اور بھارت کو نجی شعبے میں اِس قدر بڑے پیمانے پر فلاح و بہبود کے کاموں کی اشد ضرورت ہے جو قومی خزانے پر بوجھ نہ ہو۔
10: بھارت کے مقابلے پاکستان میں خواتین خود کو زیادہ محفوظ اور خوشحال سمجھتی ہیں۔ خواتین کے خلاف جنسی ہراساں کرنے کے واقعات نسبتاً کم رونما ہوتے ہیں جبکہ انہیں ملازمتوں کے یکساں مواقع اور کام کاج کے مقامات پر زیادہ بہتر حالات کار فراہم کئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں جنسی زیادتی کرنے کے واقعات میں ملوث بااثر افراد قانون کی گرفت میں آتے ہیں اُور ذرائع ابلاغ کی ہمدردیاں ہمیشہ صنف نازک کے ساتھ رہتی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ اقتصادی‘ سیاسی اور آمدنی کے لحاظ سے بحرانوں کا شکار ہو سکتا ہے لیکن اِس میں ارتقاء اُور ترقی کا جاری عمل بھی توجہ طلب ہے اور غلطیوں کے اصلاح کی کوششیں کسی بھی طرح معمولی قرار نہیں دی جاسکتیں۔ ’ویبنار‘ میں بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری رہا‘ لیکن پاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی ایک بھی شریک کے پاس ’تھینک یو‘ جیسے اظہار تشکر پر مبنی کلمات کے سوأ کوئی ایسی دلیل نہیں تھی جس سے اپنی شرمندگی اور جہالت چھپائی جا سکتی!
اے کاش ہم پاکستانیوں نے بھی ’مطالعۂ پاکستان‘ اتنی ہی گہرائی اُور سنجیدگی سے کیا ہوتا‘ اَے کاش ہم نے بُرائیوں کے مقابلے اُن اَچھائیوں کا شمار کیا ہوتا‘ جن میں ’جذبۂ تعمیر‘ پوشیدہ ہے تو پھر کس چیز کی ہم (پاکستان) میں کمی ہے!؟
No comments:
Post a Comment