ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
رَاندۂ درگاہ: پشاور!
ضلع پشاور کی تعمیر و ترقی کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مالی وسائل کا پینسٹھ فیصد حصہ اگر استعمال نہیں کیا جاسکا تو اِس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ پشاور میں ترقی کی گنجائش و ضرورت ہی باقی نہیں رہی بلکہ صلاحیت و اہلیت کی کمی اور سیاسی‘ مالی و انتظامی شعبوں میں خامیوں کی وجہ سے فیصلہ سازی کا عمل بُری طرح متاثر ہوا ہے اُور اُس وقت تک خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں۔
تلخ حقیقت ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت اور پشاور کی بلدیاتی نمائندہ حکمرانوں کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت ’تحریک انصاف‘ سے ہے لیکن یہ وابستگی بھی کام نہیں آ سکی ہے۔ اگرچہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے کہ صوبائی اور بلدیاتی ضلعی حکومت ایک ہی سیاسی جماعت کی ہو لیکن سیاسی طور پر ہم جماعت حکومتوں کا پشاور کو خاطرخواہ فائدہ نہیں ہورہا جیسا کہ حاجی غلام علی اور اعظم آفریدی کے دور میں دیکھنے کو ملا تھا۔ متحدہ مجلس عمل اور پاکستان پیپلزپارٹی و عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومتوں کے ادوار میں پشاور سے انصاف نہیں ہوا اور اتحادی حکومتیں ہونے کے باوجود بھی پشاور و دیگر اضلاع ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ وزیراعلیٰ کے آبائی حلقوں میں خرچ ہوتا رہا۔
سال 2016-17ء کے مالی سال کے لئے مختص ’ترقیاتی فنڈز (اے ڈی پی)‘ میں پشاور کی ضلعی حکومت کے لئے 813.3 ملین (اکیاسی کروڑ تینتیس لاکھ) روپے مختص کئے گئے۔ نئے مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) کی اعدادوشمار مرتب کرتے ہوئے صوبائی وزیرخزانہ نے انکشاف کیا ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت نے ایک سال کے دوران 275.57 (ستائیس کروڑ پچپس لاکھ ستر ہزار) روپے خرچ کئے جو مجموعی مختص مالی وسائل کے چونتیس فیصد سے کم حصہ بنتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پشاور کے ضلعی بلدیاتی نمائندوں نے شعبۂ تعلیم پر 93 لاکھ روپے خرچ کئے جبکہ اُنہیں اِس مقصد کے لئے 8 کروڑ 10 لاکھ روپے دیئے گئے تھے۔ شعبۂ تعلیم کی طرح سماجی بہبود (سوشل ویلفیئر) کا شعبہ بھی نظر انداز ہے جس کے لئے آٹھ کروڑ چوراسی لاکھ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن صرف ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ ہو سکے۔
رواں ہفتے پشاور کی ضلعی حکومت نے نئے مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) کے لئے 10 ارب روپے کے بجٹ کا اعلان کیا تو اِس قدر بڑی رقم کا مطالبہ سن کر ہنسی آ گئی! کیا ماضی میں ملنے والے مالی وسائل پوری طرح استعمال کئے جا سکے جو آئندہ کئی گنا بڑی رقم طلب کی گئی ہے! امر واقعہ یہ ہے کہ ترقی کو عملی شکل میں ڈھالنے اور اِس کی پائیداری کو عملاً ممکن بنانا اداروں کی صلاحیت ہی نہیں۔ ہم پشاور کے بلدیاتی ضلعی حکمرانوں سے اِس بات کی توقع نہیں رکھتے کہ وہ کفایت شعاری اُور سادگی کا مظاہرہ کریں گے اور نہ ہی وہ ایسے منصوبے تخلیق کریں گے جن سے پشاور میں رہنے والوں کی زندگی میں سکون آئے‘ مسائل کم ہوں اور ترقی کے عمل میں مستقبل کی ضروریات کا احاطہ کیا گیا ہو۔ سیاسی حکمرانوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن پشاور کے منتخب بلدیاتی و دیگر سیاسی نمائندوں نے جس اَنداز میں ’جارحانہ مصلحت‘ سے کام لیا ہے‘ اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ پشاور کو جس زاویئے سے بھی دیکھیں ترقی کی ضرورت (پیاس) محسوس ہوتی ہے۔
خیبرپختونخوا کی بجٹ دستاویزات کے مطابق ’صوبائی فنانس کمیشن‘ کے تحت ضلعی حکومت کو 9.2 ارب روپے دیئے جائیں گے جبکہ 59 کروڑ روپے ضلعی حکومت نے اپنے وسائل سے ترقیاتی و غیرترقیاتی اخراجات کے لئے جمع کرنا ہوں گے۔ کسی ضلعی حکومت سے اِس قسم کی کارکردگی کی توقع رکھنا بھی عبث ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی وغیرترقیاتی اخراجات اپنی ہی آمدنی کے وسائل سے پورا کرے گی۔
آئندہ مالی سال کے دوران پشاور کی بانوے یونین کونسلوں میں گندگی یکجا کرنے کے لئے ’ڈرم‘ نصب کئے جائیں گے اور پانچ کروڑ پچاس لاکھ روپے مختلف یونین کونسلوں میں ’واٹر کولر‘ نصب کرنے پر خرچ کئے جائیں گے۔ بلدیاتی ضلعی حکومت کے سامنے ’پشاور سے تجاوزات خاتمہ‘ بھی ایک ہدف ہے اور جیسا کہ ماضی کے حکمرانوں نے کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) اُٹھانے‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے فلٹریشن اور واٹرکولرز نصب کئے تھے جس طرح مثالی انداز میں تجاوزات کے مسئلے سے نمٹا گیا‘ حقیقت یہی ہے کہ پشاور کو ضلعی بلدیاتی حکومتوں کی نہیں بلکہ آمدنی کے ایک پائیدار ذریعے (سورس) کے لئے پشاور کی عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ پشاور کو سمجھ کر‘ اِس کے مسائل کا حل کرنے والوں کی تلاش ہے کیونکہ ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا!‘‘
No comments:
Post a Comment