Monday, July 24, 2017

July 2017: More promises with Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ہر اِنتہاء کی انتہاء!
یقین ہی نہیں آتا کہ ۔۔۔ گویا پشاور کی قسمت جاگ اُٹھی ہو لیکن کیا ’اہل پشاور‘ بھی جاگ رہے ہیں‘ جن کے لئے خبر ہے کہ اپنی آئینی مدت کے ’اختتام‘ سے قبل ’تحریک انصاف‘ کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ ’’پشاور کی خوبصورتی میں اِضافہ اُور بنیادی سہولیات کے نظام (ڈھانچے) میں وسعت‘ پیدا کی جائے گی۔ اِس مقصد سے تعمیروترقی کی اُس ’جامع‘ قرار دی جانے والی حکمت عملی سے گرد و غبار جھاڑ کر نظرثانی کی گئی ہے جس کا بنیادی اعلان تو جون دوہزار تیرہ میں کر دیا گیا تھا لیکن اِس کی یاد دہانی ہر مالی سال کے آغاز پر لازماً کی جاتی رہی ہے۔

تحریک انصاف کے فیصلہ ساز مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے ثابت کیا کہ وہ خیبرپختونخوا کو بالعموم اور پشاور کو بالخصوص نہیں بھولے بلکہ اُنہیں یاد سب سے ذرا ذرا‘ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو! ایک معتبرحکومتی شخصیت نے رازداری سے کہا ہے کہ پشاور کے لئے 10 ارب روپے مالیت کے ترقیاتی کاموں کی منظوری دے دی گئی ہے جن میں شہر کے مختلف حصوں میں ’6 عدد فلائی اُوورز‘ کی تعمیر بھی شامل ہے تاکہ ٹریفک کے بلاتعطل بہاؤ کو ممکن بنایا جاسکے۔ پشاور ٹریفک پولیس کے فیصلہ ساز ایک عرصے سے اس بات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں جب تک کم سے کم چھ مقامات پر فلائی اُوورز کی تعمیر اور ’رنگ روڈ‘ کی تکمیل نہیں ہو جاتی اُس وقت ٹریفک کا دباؤ بدستور برقرار رہے گا لیکن اگر عام انتخابات کے قریب حکومت پشاور کی ترقی کے لئے 10ارب روپے جیسی خطیر رقم مختص کر رہی ہے تو اِس میں ’رازداری‘ کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بات تو فخریہ طور پر ’علی الاعلان‘ ہونی چاہئے لیکن چونکہ ماضی میں اِس طرح کے اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بعدازاں مالی وسائل فراہم نہیں کئے گئے‘ اِس لئے کوئی بھی حکومتی وزیر نہیں چاہتا کہ وہ دس ارب روپے کے خصوصی ترقیاتی پیکج کا اعلان اپنے نام سے کرے! یقیناًدانشمندی یہی ہوگی کہ تحریک انصاف ’’مزید نیک نامی‘‘ کمانے کی بجائے خیبرپختونخوا اُور بالخصوص پشاور سے معافی مانگے اور تبدیلی لانے کی پرخلوص کوششوں (اصلاحاتی انقلابی نظریات) کا دفاع کرنے کی بجائے اعتراف کرے کہ وہ اپنے حصے کا کام مکمل نہیں کر سکی! پشاور کی ترقی کے لئے ماضی میں بھی اراکین اسمبلی اور صوبائی وزراء پر مشتمل کمیٹیاں بنائی گئیں۔ ماضی میں بھی ضلعی بلدیاتی منتخب نمائندوں کی بادشاہت رہی۔ ماضی اُور حال میں سرکاری ملازمین کی ’فوج ظفر موج‘ پشاور کی ترقی اور اِس کے غم میں نڈھال بھاری تنخواہیں مراعات اُور اِختیارات سے مستفید ہو رہی ہے لیکن اگر برسرزمین حقائق تبدیل نہیں ہوئے تو وہ عام آدمی (ہم عوام) ہے‘ جسے صوبائی حکومت کی جانب سے پینے کے صاف پانی‘ صحت و تعلیم اور آمدورفت کے باسہولت و باعزت ذرائع میسر نہیں!

نمائشی اقدامات‘ سیاست برائے سیاست اور انتخابی حلقوں پر مبنی ترجیحات کو عزیز رکھنے والے ماضی و حال کے حکمرانوں کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال موجود ہے۔ صوبائی حکومت نے چغل پورہ سے حیات آباد تک سڑک کی توسیع اور جی ٹی روڈ سے متصل اِس مصروف ترین شاہراہ سے تجاوزات ختم کرنے کے لئے درجنوں کاروائیاں کی ہیں لیکن نہ تو سڑکوں کے کناروں سے سوفیصد تجاوزات ختم ہو سکی ہیں اور نہ ہی اندرون شہر کے بازاروں سے ختم کی جانے والی تجاوزات کا علاج ہی ہو پایا ہے۔ پشاور شہر کے بازاروں میں تجاوزات پھر سے لوٹ رہی ہیں اور اُس وقت تک کاروائی نہیں ہوگی جب تک یہ پوری طرح پھیل نہیں جائیں گی! بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ماضی و حال کی ناقص کارکردگی بھی کسی اضافی تعارف کی محتاج نہیں! جی ٹی روڈ سے براستہ خیبرروڈ چار رویہ شاہراہ کی چغل پورہ سے حیات آباد تک ’چھ رویہ‘ توسیع جیسا ممکن ہدف اگر حاصل نہیں سکا تو اِس کے لئے ’کس سے منصفی چاہیں؟۔‘

تعلیمی اِداروں اور دفتروں میں حاضری یا اختتامی اوقات میں سڑکوں پر اچانک ٹریفک کا رش اُمڈ آتا ہے اور گرمی سردی یا شدید موسمی صورتحال میں معطل ٹریفک کی وجہ سے اہل پشاور کی مصائب درد کی اُس انتہاء کو چھونے لگتے ہیں جہاں مزید صبر ممکن نہیں رہتا۔

دس ارب روپے جیسی خطیر رقم پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی میں دو ٹول پلازہ تعمیر کئے جائیں گے۔ رنگ روڈ کو بہتر بنایا جائے گا یعنی اِس رقم کا بڑا حصہ شاہراؤں کی تعمیر ہی پر خرچ ہوگا۔ اندرون شہر کے علاقوں میں شمسی (سولر) توانائی سے سٹریٹ لائٹس کی تنصیب کا عزم بھی کسی خوشخبری سے کم نہیں‘ جو سال دوہزار تیرہ سے بیانات کا حصہ تو ہے لیکن باوجود ترقیاتی ترجیحات سے متعلق وعدوں کے بھی پشاور کا حق اَدا نہیں ہوا‘ تو اہل پشاور کو گلہ مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ خیبرپختونخوا کا کوئی ایک بھی ضلع ایسا نہیں جہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی میں صوبائی حکومت نے برسرزمین حقائق اور ضروریات کا ’سوفیصد احاطہ‘ کرتے ہوئے سہولیات کی عملی فراہمی (دستیابی) ممکن بنا دی ہو۔ تو پھر گلہ کس کا اُور گلہ کس سے؟
 Belated development in Peshawar, the track record suggest PTI promises not fulfilled even after 4 years rule


No comments:

Post a Comment