ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پراسرار سیاست!
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق تو نہیں دیا جارہا لیکن پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں اور قومی خزانے کا انحصار ’غیرملکی پاکستانیوں‘ کی طرف سے ترسیل زر پر رہتا ہے جس سے پاکستانی کرنسی پر دباؤ کم ہوتا ہے‘ زرمبادلہ کے ذخائر معتدل رہتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کی جملہ سیاسی جماعتیں اپنے تنظیمی اور بالخصوص عام انتخابات کے موقع پر جملہ اخراجات پورا کرنے کے لئے ’غیرملکی پاکستانیوں‘ ہی کے سامنے دست سوال دراز (انحصار) کرتی ہیں۔
رواں ہفتے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 688 صفحات پر مشتمل تفصیلات عدالت کے روبرو پیش کی گئیں ہیں جو ’بیرون ملک سے وصول ہونے والے عطیات‘ سے متعلق ہیں لیکن اِن میں پارٹی بینک اکاونٹ میں آنے والی جملہ رقوم کا میزانیہ (بینک اسٹیٹمنٹ) شامل نہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ معلوم کے علاؤہ ’نامعلوم ذرائع‘ سے کس قدر اور کتنی بڑی مقدار میں سرمایہ تحریک انصاف کو حاصل ہوا۔ پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں ’پراسرار‘ طور پر کام کرتی ہیں کہ اِن کی آمدنی و اخراجات کے بارے میں آج تک پورے یقین سے کوئی بات نہیں کہی جا سکتی نہ ہی آج سے قبل اِس بارے میں ذرائع ابلاغ اور سماجی حلقوں میں یہ بحث سننے کو ملی کہ کوئی سیاسی جماعت بھی آمدنی کا ذریعہ ہو سکتی ہے! تحریک انصاف اعتراف کرتی ہے کہ اُس نے بیرون ملک سے پارٹی سرگرمیوں کے لئے باقاعدہ عطیات وصول کئے۔ دیگر سیاسی جماعتیں ایسا نہیں کرتیں کیونکہ اِس سے ’پینڈورا باکس‘ کھل جاتا ہے اور پھر یہ بھی ثابت کرنا پڑتا ہے کہ جو لوگ عطیات دے رہے ہیں اُن کی شناخت اور پاکستان کی سیاست میں دلچسپی کیا ہے اور کیوں ہے۔
بہت سی سیاسی جماعتیں تو خود کو فارن فنڈنگ سے الگ رکھے ہوئے ہیں اور بالخصوص نواز لیگ تو بیرون ملک کیا اندرون ملک بھی کارکنوں سے پارٹی فنڈ اکٹھا کرنے کی مہمات نہیں چلاتی اور نہ ہی اِس قسم کی ’باقاعدہ فنڈ ریزنگ‘ کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے مشکوک اور بالخصوص عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والے ’پیش پیش‘ رہتے ہیں اور رہنماؤں کے کچن اخراجات سے لیکر سیاسی سرگرمیوں کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ ہمیں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں سرمایہ دار درآمد شدہ بیش قیمت گاڑیاں اُور ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آن کی آن آمدورفت کے لئے ہیلی کاپٹر جیسی آسائش فراہم کرتے ہیں‘ ظاہر سی بات ہے کہ کاروباری شخصیات ہر ایک پائی بمعہ سود واپس وصول کرنے کی منصوبہ بندی رکھتے ہوں گے! بصورت دیگر دنیا میں ایسا کوئی شخص شاید ہی ہو جو اپنی دولت سے تنگ ہو‘ اُور اُسے یہاں وہاں یوں بانٹتا پھرے!
پاکستان میں کل 345 سیاسی جماعتیں ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کے پاس رجسٹرڈ ہیں‘ جن کی فہرست 15 صفحات پر مشتمل ہے اور کسی عام تو کیا خاص الخاص پاکستانی کے بھی ممکن نہیں ہوگا کہ وہ سوائے انگلیوں پر شمار ہونے والی چند سیاسی جماعتوں کے علاؤہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا نام یا اُس کے سربراہ کا نام یا اُس کے منشور سے آگاہ ہو۔ تو معلوم ہوا کہ سیاست کی طرح سیاسی جماعتیں بنانا اور اِن کے معاملات چلانا بھی منافع بخش کاروبار بن چکا ہے! الیکشن کمیشن جو کہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن اُور اُن مالی امور کا بھی نگران ادارہ ہے اور اپنے قواعد کا بطور لازمی اطلاق ممکن بناتا ہے کی جانب سے شرط ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے سالانہ حسابات سے اُسے تحریری اور حلفاً آگاہ کرے لیکن الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے حسابات کا ’پوسٹمارٹم (جانچ پڑتال)‘ بس اس قدر ہی کرتی ہے جس سے کام چلتا رہے!
سردست تحریک انصاف کو ’روایت شکنی‘ مہنگی پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر یہ دیگر سیاسی جماعتوں ہی کی طرح رازداری اور پراسراریت کو برقرار رکھتی تو اِس پر مشکوک ذرائع سے حاصل ہونے والی ’فارن فنڈنگ‘ کا الزام یوں عائد نہ ہوتا۔ تحریک کی آمدنی اور حسابات کو حتی الوسع شفاف رکھنے کی ضرورت و اہمیت کو سمجھتے ہوئے اِس معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہونے کی قیمت تو بہرحال ادا کرنا ہی پڑے گی لیکن اِس سے ایک اچھی عملی مثال قائم ہوگی۔
عدالت میں تحریک انصاف کو بیرون ملک سے حاصل ہونے والے آمدنی کا حساب دینا پڑ رہا ہے اور ممکن ہے کہ کسی مرحلے پر عدالت یہ بھی پوچھ لے کہ جو سیاسی جماعتیں اگر اندرون یا بیرون ملک سے ’آن دی ریکارڈ‘ مالی وسائل اکٹھا نہیں کر رہیں تو اُن کی آمدنی کے وسائل کیا ہیں؟ کیا بیرون ملک سے کسی سیاسی جماعت کی فنڈنگ کے بھی کچھ اصول ہیں یا اِس سلسلے میں قوانین و قواعد موجود ہیں؟ کیا صرف پاکستانی شہریت رکھنے والا کوئی شخص ہی کسی سیاسی جماعت کو چندہ یا عطیہ دے سکتا ہے؟
بیرون ملک سے پارٹی فنڈنگ لیتے ہوئے کیا اِس کے استعمال (مصرف) سے متعلق بھی چندہ دینے والوں کو بتایا جاتا ہے یا یہ چندہ اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا اختیار صوابدید پر ہوتا ہے!؟ تحریک انصاف کو ’فارن فنڈنگ کیس‘ کا سامنا ہے لیکن اِس کے علاؤہ نواز لیگ بھی مشکل میں پھنسی ہوئی ہے‘ جسے ’پانامہ‘ اور ’اقامہ‘ کیسیز جیسی زیادہ سنگین الزامات کے جواب میں عدالت کو مطمئن کرنا ہے جس میں تاحال وہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور ایک ایسا فیصلہ محفوظ ہے‘ جس کا پوری قوم کو انتظار ہے۔ 27 جولائی کے روز سپرئم کورٹ نے اپنی ہفتہ وار مصروفیات کا شیڈول جاری کیا تو اُس میں پانامہ کیس کے فیصلے کا کہیں ذکر نہیں جس کا مطلب ہے کہ اگر آج 28 جولائی (بروز جمعہ) پانامہ کیس کا فیصلہ نہیں آتا اور عدالتی مصروفیات معمول کے مطابق جاری رہتی ہیں تو پھر فیصلہ 11 اگست کے بعد آئے گا۔
پانامہ کیس کی سماعت کے دوران ایک مرحلے پر یہ بات بھی زیرغور آئی کہ نواز لیگ کے سربراہ نے اپنی ہی جماعت کے اکاونٹ میں کروڑوں روپے جمع کروائے اور پھر اپنی صوابدید پر اُنہیں واپس وصول کیا۔ آمدن کا ذریعہ تحفہ تھا لیکن اِسے خرچ کرنے کی وجوہات و تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں! صاف عیاں ہے کہ پاکستان کی کسی ایک بھی سیاسی جماعت کے مالی معاملات ’حسب آئین و ضرورت‘ شفاف نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہ ’خصوصی اِختیارات‘ رکھتے ہیں کہ وہ پارٹی فنڈنگ کا اپنی صوابدید پر جس طرح اور جس قدر چاہیں استعمال کریں اور مالی یا انتظامی امور سے متعلق کوئی بھی اُن کے فیصلوں کو چیلنج نہ کرے اور نہ ہی اس متعلق سوال کیا جائے لیکن ’پوسٹ پانامہ لیکس‘ پاکستان مختلف ہے بالخصوص عدالت عظمیٰ کی جانب سے چھ رُکنی تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے بعد‘ مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ دہرایا جا رہا ہے کہ ’جے آئی ٹی‘ کو ایک ایسے ’مستقل اِدارے‘ کی شکل دی جائے‘ جو عدالت کے ماتحت وسائل لوٹنے اور اندرون و بیرون ملک ظاہری و پوشیدہ اثاثوں کے بارے میں تحقیقات کا عمل جاری رکھے تاکہ ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کے لئے بھی آسانی رہے کیونکہ جب تک سیاسی فیصلہ سازوں کے ’ذاتی مالی امور‘ شفاف نہیں ہوں گے اور جب تک قوانین و قواعد میں موجود سقم (خامیوں) کا فائدہ اُٹھایا جاتا رہے گا‘ اُس وقت تک سیاسی جماعتوں کے پراسرار داخلی معاملات‘ ملک سے غربت کا خاتمہ اُور قومی وسائل کا امانت ودیانت کے اصولوں پر استعمال عملاً ممکن نہیں ہو گا۔
No comments:
Post a Comment