Saturday, July 29, 2017

July 2017: Post Panama Verdict - The bright future of Pakistan!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
جھوٹ معتبر نہیں ہوں گے!
پانامہ کیس نے پاکستان کی عدلیہ اور سیاست ہی نہیں بلکہ میڈیا کا ’ڈی این اے‘ بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ورنہ پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں عدلیہ نے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے اور وزیراعظم جیسے عہدے پر فائز سیاسی جماعت کے سربراہ سے اس قدر سخت گیر معاملہ کیا ہو کہ اُس کی نااہلی کر دی ہو۔ دیگر سیاست دان ضرور یہ بات سوچنے پر مجبور ہوئے ہوں گے کہ اُن کا ماضی اور وہ سب کچھ جسے وہ پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں زیادہ عرصہ تحقیقات کرنے والوں اور بالخصوص ذرائع ابلاغ (میڈیا) سے اب مزید چھپ نہیں سکے گا۔ یہ صرف ’الیکٹرانک میڈیا‘ ہی کا نہیں بلکہ ’سوشل میڈیا‘ کا بھی دور ہے۔ آن کی آن میں دستاویزات کی تصاویر ’واٹس ایپ‘ ہو جاتی ہیں اور سبھی نیوز ٹیلی ویژن چینلوں نے اپنے ’واٹس ایپ‘ نمبر مشتہر کر رکھے ہیں جنہیں روزمرہ حالات و واقعات کی خبریں ویڈیوز اور دستاویزات ارسال کی جا سکتی ہیں! اٹھائیس جولائی کے سپرئم کورٹ فیصلے سے تو جیسے قومی سطح پر یہ ’کلیدی اصول‘ طے کر لیا گیا ہے کہ ’’جھوٹ اب معتبر نہیں ہوں گے!‘‘

’پانامہ کیس‘ پر محفوظ فیصلے کا اعلان اِس لحاظ سے بدقسمتی بھی ہے کہ پاکستان کو صداقت‘ امانت و دیانت کے اصولوں پر پورا اُترنے والی سیاسی قیادت نہیں مل سکی ہے اور قوانین و قواعد صرف کتابوں میں بند ہیں۔ سرکاری اداروں کا وجود قانون کی حاکمیت اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بنا رہا لیکن یہ منظرنامہ (ناقابل تردید حقائق) تبدیل ہو چکا ہے۔ ’پانامہ کیس‘ کا فیصلہ‘ آنے کے بعد پاکستان کا نیا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا؟ صرف ’شریف خاندان‘ کے احتساب پر بات رُک جانی چاہئے؟ پانامہ پیپرز میں جن دیگر پاکستانی شخصیات کے نام ’آف شور کمپنیاں‘ قائم ہیں‘ اُن کا احتساب کب سے شروع ہوگا؟ پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کہاں ہیں اور کیا ’اگلی باری زرداری‘ کی ہے؟ وزیراعظم اور کابینہ کے دیگر اراکین کے بیرون ملک قیام کے اجازت نامے (اقامہ) انوکھی قسم کی بدعنوانی ہے جو قومی عہدے رکھنے والوں کا ایک ایسا طرزعمل ہے جو ’مفادات سے متصادم‘ ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سعودی عرب کا ’اقامہ (قیام و کاروبار کرنے کا جواز)‘ رکھنے والے وفاقی کابینہ کے ارکان میں احسن اقبال ایسے چوتھے رکن ہیں جن کا نام ایک ایسے معاملے میں آیا ہے جو ’پانامہ کیس‘ سے زیادہ بڑا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وفاقی وزیر احسن اقبال پچاس ارب ڈالر سے زائد مالیت کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے نگران ہیں! احسن اقبال کے علاؤہ وزیراعظم نواز شریف‘ وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار متحدہ عرب امارات کا اقامہ رکھنے والوں میں شامل پائے گئے ہیں! سوال یہ ہے کہ پاکستان کا سرکاری (نیلے رنگ کا خصوصی) پاسپورٹ رکھنے والوں کو کسی بھی ملک میں عارضی قیام کے اجازت نامے (اقامے) حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ اگر یہ سوال کسی کے بھی ذہن میں بھی ہو تو جان لے کہ اقامہ کی بنیاد پر بیرون ملک بینک اکاونٹ کھولے جا سکتے ہیں اور بناء ٹیکس دیئے کاروباری سرگرمیاں کی جا سکتی ہیں!

پاکستانی سیاست دانوں کے کرتوت جس طرح ایک ایک کرکے عیاں ہوئے اور مزید ہوں گے‘ اس کا سلسلہ کسی نہ کسی ندامت اور معافی پر اختتام ہو جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا لیکن بقول چوہدری نثار ’نواز لیگ‘ کو اُس کے مشیروں نے ڈبویا ہے! بگڑا کسی کا کچھ نہیں بلکہ رسوائی پاکستان کی ہوئی ہے! پانامہ کیس کا فیصلہ آنے سے دو روز قبل‘ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’’دوہزارسات سو پچاسی ایسے پاکستانیوں کو نوٹسیز جاری کر دیئے گئے ہیں‘ جنہوں نے گذشتہ مالی سال کے دوران تحائف کی مد میں مبینہ طور پر ایک سو دو ارب روپے کی ’منی لانڈرنگ‘ کی ہے۔‘‘ تصور کیجئے ایک ایسا پاکستان کہ جس میں سالانہ ایک سو ارب ڈالر سے زائد رقم پر ٹیکس تو اَدا نہیں ہوا لیکن عام آدمی (ہم عوام) سے ہر ایک سو روپے کے موبائل ریچارج‘ ماچس کی ڈبیہ یا ایک یونٹ بجلی خرچ کرنے پر بھی کھڑے کھڑے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے!

جشن آزادی منانے والوں کے لئے خوشخبری میں اِس بات (جواز) کا اضافہ ہو گیا ہے وہ ’’شکریہ پاکستان‘ پاکستان شکریہ‘‘ کا نعرہ لگا کر ’دلی مسرت‘ کا اِظہار کریں۔ منتخب اراکین اسمبلی کی ذہانت اُور شعور ملاحظہ کیجئے کہ جنہوں نے ایسی قانون سازی فرمائی ہے جس کے تحت ہر قسم کے تحفے تحائف ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں اور بہت سے ایسے افراد جو مالی طور پر مستحکم ہیں‘ قومی آمدنی (ریونیو) میں حسب رہن سہن حصہ ڈالے بغیر ہی اپنی مالی حیثیت اور اثاثوں کی یہاں وہاں منتقلی (تحفے تحائف کے تبادلوں) کے آئینی استثنیٰ سے ’ناجائز فائدہ‘ اُٹھا رہے ہیں! قانون میں موجود اِس رعائت کو رکھنے والے ہی اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں تو تعجب حرام ہے! اگرچہ ایف بی آر نے غیرمعمولی مالیت کے تحفے تحائف وصول کرنے والوں کو نوٹسیز جاری کر دیئے ہیں لیکن چونکہ قانون ہی خاموش ہے اِس لئے یہ بے قاعدگی ایک دو سماعتوں ہی میں خارج کر دی جائے گی اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک قانون میں ترمیم نہیں کر دی جاتی! جن بااثر افراد نے انکم ٹیکس بچانے کے لئے تحائف دیئے اور اُن کے گوشواروں میں ذرائع آمدن کی توثیق نہیں ملتی کسی معروف وکیل کے ذریعے بچ جائیں گے! لیکن اگر ایف بی آر کے اہلکاروں کی اچانک ’حب الوطنی‘ جاگ اُٹھی اور پانامہ جے آئی ٹی کی طرح وہ غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر بیٹھے تو صورتحال مختلف ہو سکتی ہے۔تحائف کی مد میں منی لانڈرنگ کا الزام صرف اُن پر ہے جنہوں نے یہ بات ٹیکس ریٹرنز گوشواروں میں نہیں کی اور اپنی آمدنی پر ٹیکس بہت ہی کم ادا کیا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس آمدنی سے کم ادا کرنے کا کلچر عام ہے اور اِس بات کو ’’جرم‘‘ قرار نہیں دیا جاتا نہ ہی سمجھا جاتا ہے بلکہ کئی ایسی ’لاء فرمز (وکلاء کے ادارے)‘ قائم ہیں جو اپنی خدمات مودبانہ و فخریہ طور پر پیش کرتے ہیں کہ قانونی اَمور سے متعلق مہارت کا استعمال کرتے ہوئے کسی صارف کو کم سے کم ٹیکس ادا کرنے میں رہنمائی یا اُسے قانونی چارہ جوئی کے ذریعے سزا سے بچا سکیں! 

اربوں اور کروڑوں کے اثاثے رکھنے والے ہزاروں اور لاکھوں روپے میں ٹیکس اَدا کر رہے ہیں تو اِس دھندے میں خود ایف بی آر کے ممکنہ ملوث ہونا خارج اَز امکان نہیں ہوسکتا۔ ہمیشہ اطمینان بخش نتیجہ ہوتا ہے عمل نہیں۔ اندرون ملک آمدن (اِن لینڈ ریونیو)‘ انسداد منی لانڈرنگ کے انٹلی جنس اور انویسٹی گیشن سیل نے ایسے افراد کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ شروع کردیا ہے‘ جس کا نتیجہ ہر اُس ذی شعور کو معلوم ہوسکتا ہے جو اِس بارے میں سوچنا اور معاملے کو سمجھنا چاہے۔ ’ایف بی آر‘ کے سامنے صرف تین کیسز ہی ایسے ہیں جس میں تحائف کی مالیت ایک ارب سے زیادہ ہے اور سب سے زیادہ تحائف کی مالیت ایک ارب ستر کروڑ روپے ہے۔ علاؤہ ازیں کم سے کم آٹھ افراد نے پچاس کروڑ روپے سے ایک ارب روپے مالیت کے درمیان تحائف ظاہر کئے ہیں! 

خدا جانے وہ وقت پاکستان کے عام آدمی (ہم عوام) کی زندگیوں میں کب آئے گا جب اُسے تحفے تحائف نہیں بلکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ معیاری صحت و تعلیم اور جان و مال عزت و آبرو کے تحفظ جیسے بنیادی حقوق ہی میسر آئیں گے۔ ’’آ کسی روز کسی دُکھ پہ اَکٹھے روئیں: جس طرح مرگِ جواں سال پہ دیہاتوں میں: بوڑھیاں روتے ہوئے بین کیا کرتی ہیں: جس طرح ایک سیاہ پوش پرند کے کہیں گرنے سے: ڈار کے ڈار زمینوں پہ اُتر آتے ہیں: چہکتے شور مچاتے ہوئے کرلاتے ہیں: اپنے محروم روئیوں کی المناکی پر: اپنی تنہائی کے ویرانوں میں چھپ کر رونا: اِک نئے دُکھ کے اضافے کے سوأ کچھ نہیں: اپنی ہی ذات کے گنجال میں اُلجھ کر تنہا: اپنے گمراہ مقاصد سے وفا ٹھیک نہیں: قافلہ چھوڑ کے صحرا میں صدا ٹھیک نہیں۔ ہم پرندے ہیں نہ مقتول نہ ہوائیں پھر بھی: آ کسی روز کسی دُکھ پہ اَکٹھے روئیں۔۔۔ (فرحت عباس شاہ)۔‘‘

No comments:

Post a Comment